تحریر : حفیظ اللہ فیصل آباد پیدائش آدم کے ساتھ ہی حضرت انسان خطرات میں گھرا ہوا ہے.دنیا کا سب سے بڑا خطرہ راہ ابلیس پہ چلتے ہوئے جہنم کے گڑھوں میں داخل ہو جانا ہے. یہ دنیا کا سب سے بڑا اور ابدی خطرہ ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آفاقی پیغام میں انسانوں کو بار بار متنبہ کیا ہے.اور سمجھایا ہے دیکھو شیطان کے گمراہ رستے پہ چل کے اپنے آپ کو تباہ نہ کر لینا ایسا کرنے سے تم ہمیشہ کا خسارہ مول لو گے۔دنیاوی خطرات کے بارے میں اگر بات کی جائے تو تین خطرات دنیا میں انسانی ذندگی کو سب سے ذیادہ متاثر کرتے ہیں.یہ خطرات مندرجہ ذیل ہیں جان ،عزت اور مال کے چلے جانے کا خطرہ ۔کسی انسان کی جان بہت قیمتی حیثیت رکھتی ہے دنیا کی تمام نعمتیں آسائشیں سہولتیں جان کی موجودگی میں ہی حاصل ہوتی ہیں.
جان نکلتے ہی وہ تمام اشیاء اور سہولتیں جو انسان اپنے ہاتھوں سے کما کر استعمال میں لاتا ہے یا اپنے لئے جمع کرتا ہے اس کے لئے بے کار ہو جاتی ہیں.جان کی موجودگی میں ہی انسان اپنی ابدی ذندگی کے لئے تگ ودو کرسکتا ہے.اس کے بعد انسان دوسروں کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے.دوسروں کی دعاؤں اور اس کے لئے کئے گئے اعمال میں سے ہی اسے نفع مل سکتا ہے.جان کی حفاظت کے لئے انسان آخری سانس تک کوشش کرتا ہے.بھلے یہ کوشش بیماریوں کے خلاف ہو حادثات یا کسی حملہ آور سے بچنے کی ہو۔افراد اور اقوام کے لئے عزت کی حفاظت کبھی کبھی جان و مال سے بھی بڑھ کر ضروری اہمیت اختیار کر لیتی ہے.
تاریخ گواہ ہے ایک فرد کی پکار پہ پوری مملکت لبیک بولتی تھی اور اس کی جان اور عزت کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دینے کیلئے ہزارہا جوانوں کا لشکر میدانوں میں اتارا جاتا تھا.کیونکہ ایک فرد کی جان اور عزت کا ضیاع پوری مملکت کی عزت کا سوال سمجھا جاتا ہے.اس کی ایک مثال محمد بن قاسم کا سندھ آنا ہے.کسی فرد کی ذاتی ذندگی میں بھی عزت کی حفاظت ایک مُسلم اَمر ہے۔قیمتی وقت اور صلاحیتوں کا استعمال کرکے مال کمایا جاتا ہے.مال انسانی ذندگی میں اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ مال ہی وہ جِنس ہے جس کے ذریعے ذندگی میں استعمال ہونے والی بنیادی ضروریات اور آسائشیں حاصل کی جا سکتی ہیں.مال ایک فرد سے لیکر پوری مملکت تک اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے بِناء روز مرہ کا کاروبار چلانا ممکن نہیں مال کو خطرات لاحق ہوتے ہیں کوئی اسے چُرا نہ لے، ضائع نہ کر دے خطرات کے ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم وزیر خارجہ خواجہ آصف کے بیان پہ ایک نظر ڈالتے ہیں.موصوف فرماتے ہیں حافظ سعید سے خطرہ ہو سکتا ہے.
مطلب خطرہ نہ پہلے تھا نہ موجودہ وقت میں ہے.ہاں آنے والے وقت میں عالم غیب کا دعوی کرتے ہوئے خواجہ صاحب فرماتے ہیں خطرہ ہو سکتا ہے۔جیسے کہ خطرات کی نوعیت اور ان کے اثرات پر بحث ہو چکی ہے.خواجہ صاحب کے بیان کے تناظر میں حافظ صاحب سے لاحق خطرات پہ روشنی ڈالتے ہیں۔ تمام انسانی مذاہب میں حتی کہ لادین لوگوں کے ذہن میں بھی یوم آخرت کا ایک حد تک تصور ضرور پایا جاتا ہے.یوم آخرت کے خطرے کو مدِنظر رکھتے ہوئے جب ہم حافظ صاحب کے کردار کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے.حافظ صاحب کی ذندگی کا مقصد ایک فرد سے لیکر پوری دنیا کے لئے یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے اسلام پہ عمل کرتے ہوئے اپنے تمام معاملات کو رب تعالی کی بندگی اور اطاعت رسول کے مطابق گزارتے ہوئے بنی نوعِ انسان کی خدمت کرے تاکہ روز قیامت ناکامی کا جو خطرہ ہے.
اس سے ہر کوئی بچ جائے.ہر انسان کو ابدی خطرے سے بچانے کے لئے ہردم فکر مند اور پریشان رہنے والا خود کیسے خطرہ بن سکتا ہے۔فرمان ربِّ کریم ہے جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی.فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ہر اس جگہ جہاں انسانی جان کو قدرتی آفات و حاثات سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ہر دم خدمت کے لئے اپنے شعبہ کے قابل ڈاکٹروں ایمبولینسوں تربیت یافتہ ورکروں اور ضروری ادویات کے ساتھ دستیاب ہوتی ہے.یتم’ بیوہ ہو یا لاچار افراد مسلم ہو یا غیر مسلم سب کی خدمت انسانی ہمدردی اور رضائے الہیٰ کی سوچ رکھتے ہوئے سرانجام دیتی ہے۔پانی کی دستیابی ذندگی کی بنیادی ضرورت ہے اس کی عدم موجودگی یا کمیابی جان کے لئے خطرہ بن جاتی ہے.اس خطرے سے نبٹنے کے لئے بنا کسی نسلی مذہبی لسانی علاقائی تفریق کے پانی کے ذرائع کی دستیابی ممکن بنانا فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا مشن ہے.قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کے لئے اشیاء خوردونوش خیمہ جات سے لیکر ان کی مکمل بحالی تک ایک مکمل لائحہ عمل کے تحت خدمات سر انجام دینا فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا ہی خاصہ ہے.
اتنے ذیادہ خیر اور فلاح کے کام سر انجام دینے والی تنظیم کا معمار اور سربراہ کیسے کسی کی جان کے لئے خطرہ بن سکتا ہے ۔خواجہ صاحب عزت بھری ذندگی گزارنا ہر کسی کا کا بنیادی حق ہے اس حق کے لئے آواز بلند کرنا اور جارح کے خلاف کوشش کرنا انسانیت اور دین اسلام کے عین مطابق ہے.حافظ سعید اس حق کو غضب کرنے والے کے خلاف ہر فورم پہ آواذ بلند کرتے رہے ہیں.موجودہ حالات میں اقوام عالم کے اندر مسلم اُمّہ اور ملک پاکستان کی عزت کی بحالی اور پاکستان کے وقار کی سر بلندی کے لئے حافظ صاحب کے اقدامات الفاظ کے محتاج نہیں ہیں۔حافظ صاحب کی نظر بندی ہو یا بیرونی دباؤ پہ جماعت الدعوتہ کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات ہوں ان سب کے ردعمل میں جماعتی کارکنوں کا ردعمل پرامن تعمیری اور برداشت بھرا ہے.ملک بھر میں کسی جکہ پہ بھی مال و املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا.نہ کسی قسم کی توڑپھوڑ جلاؤ گھراؤ کا مظاہرہ کیا گیا.
حافظ صاحب اس بات کے قائل ہیں مال و املاک کسی فرد کی ہو یا ملک کی یہ ہماری اپنی ہیں ان کا نقصان ہمارا اپنا نقصان ہے.ایسی تعمیری سوچ اور منہج رکھنے والے سے کسی کے مال کے ضیائع کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔خواجہ صاحب اب بات کرتے ہیں حافظ صاحب کن کیلئے خطرہ تھے ہیں اور آنے والے وقت میں ہوں گے.ہر وہ فرد یا گروہ جو رب کائنات کی اس ذمین پہ فساد پھیلائے بھلے وہ کشمیر کے اندر انڈیا کی صورت ہو برما میں بدھ ہوں یا کسی بھی خطے کا کوء بھی ظالم ہو ان سب کے لئے خطرہ ہیں حافظ صاحب.میرے ملک پاکستان کی عزت ناموس سالمیت کے خلاف اندرون ملک یا بیرون ملک جو بھی ہوگا اس کے لئے خطرہ ہیں حافظ صاحب.ملک پاکستان کی املاک اثاثوں کی طرف جو میلی آنگھ سے دیکھے گا اس کے لئے خطرہ ہیں حافظ ۔حاکم وقت کی سوچ و عمل تو دیکھو ذرااغیار کی یاری میں محب وطن سے الجھتا ہے۔