گزشتہ روز خواجہ برادران کی ضمانتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر کے تحریر کردہ 87 صفحات پر مشتمل فیصلے کے بعدمحکمہ نیب کے حوالہ سے جاری بحث میں تیزی آگئی ہے ،قائدِ حزبِ اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ خواجہ برادرز کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ دراصل نیب کے خلاف ایک فردِ جرم کی مانند ہے۔ ان (بھائیوں کی) استقامت اور عزم قابلِ ستائش ہے، جبکہ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مختصر ردِ عمل میں کہا گیا ہے کہ” الحمدللہ “اور ان کے بھائی نے قران کی آیت لکھی جس کا مفہوم ہے ” اللہ تعالی جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے رسوائی”۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ سعد رفیق کی ضمانت کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت نیب کو حزبِ اختلاف کے خلاف ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔مسلم لیگ )ن( کے سنیئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہ کہا ہے کہ نیب جو کیس بناتی ہے وہ اصل میں مخالفوں کو جیلوں میں ڈالنے اور ان کی ہتک کرنا مقصود ہوتی ہے مگر خواجہ برادران نیب کیس میں اعلی عدلیہ نے فیصلے میں لکھ دیا ہے کہ ہر کسی کو اپنے دفاع کا حق ہے مگر نیب ایسا نہیں کر رہا ،انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں لکھتی ہے کہ جب سے نیب وجود میں آیا ہے عرصہ بیس سال میں کوئی بھی معاملہ قوانین کے تحت ٹیک اپ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے لکھا ہے کہ نیب اپوزیشن کو تو پکڑتا ہے مگر حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے بڑے کرپشن کے معاملوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا جو کہ اپنے سیاسی حریفوں کو روندنااور بنیادی حقوقوں کی پامالی ہے۔
سانچ کے قارئین کرام ! سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان طویل جدوجہد کے بعد جمہوری ریاست کے لیے حاصل کیا گیا،آئین پاکستان ہر شخص کی عزت و وقار کو تحفظ فراہم کرتا ہے،لوگوں کو ان کے حقوق سے تسلسل کے ساتھ محروم رکھا جاتا ہے ملک میں احتساب کے لئے بننے والے مختلف قوانین کا استعمال سیاسی مخالفین کو دبانے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے ہوتا رہا ہے ،فیصلے میں کہا گیا کہ اصول ،رواداری، اور جمہوری اصولوں کے احترام کو نظر انداز کیا گیا،کرپشن،اقربا پروری،نا اہلی،عدم برداشت ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں ہمارا معاشرہ کرپشن،اقربا پروری،نا اہلی،عدم برداشت اور دیگر مسائل میں ڈوب گیا ہے، سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ماتحت عدلیہ میں زیر التواء دیوانی مقدمے کو نیب کے ریفرنس میں شامل کیا گیا اس معاملے میں ملک میں اختیارات کی تقسیم کے تصور کو توہین کے ساتھ روندا گیا یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی پامالی،آزادی سے محرومی،اور انسانی عظمت کی توہین کی کلاسک مثال ہے موجودہ مقدمہ نیب کی قانون کی خلاف ورزی کامظہر ہے ،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ نیب نے قانون کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کی، قانون اور آئین کا جائزہ لینے کے باوجود یہ راز ہے کہ یہ مقدمہ کیسے بنایا گیا؟ نیب قانون ملک میں بہتری کے بجائے مخالفین کا بازو مروڑنے کے لیے استعمال کیا گیا اور نیب آرڈیننس اپنے اجراء سے ہی انتہائی متنازع رہا ہے۔
نیب کے امتیازی رویے کے باعث اس کا اپنا تشخص متاثر ہوتا ہے اور اْس کی غیرجانبداری سے عوام کا اعتماد اْٹھ گیا ہے ،سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ نیب سیاسی لائن کے دوسری طرف کھڑے ایسے افراد جن پربڑے مالی کرپشن کے الزامات ہیں، ان کے خلاف تو کوئی قدم نہیں اْٹھاتا جب کہ کچھ افراد کو گرفتار کرکے مہینوں اوربرسوں تک بغیر وجہ اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔سانچ کے قارئین کرام !خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو دسمبر 2018 میں نیب نے پیراگون ہاؤسنگ سکینڈل میں اپنی تحویل میں لیا تھا ،امسال 17 مارچ کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کی تھی ،ضمانت دیتے وقت بھی جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس میں کہا تھا کہ ‘یا تو نیب خراب ہے یا اہلیت کا فقدان ہے، دونوں ہی صورتحال میں معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ نیب کے پاس ضمانت خارج کرنے کی کوئی بنیاد نہیں،گزشتہ روز (20جولائی 2020) کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا، جسٹس مقبول باقر نے فیصلے کے آغاز میں ہی انگریز فلسفی اور سیاسی اکانومسٹ جان سٹورٹ مل کا یہ قول لکھا ہے’ایک ریاست جو اپنے عوام کو چھوٹا کر دکھائے تاکہ وہ اس کے ہاتھوں میں اچھے مقاصد ہی کے لیے سہی آلہ کار بنے رہیں، یہ جان لے گی کہ چھوٹے آدمیوں سے کوئی بڑا کام نہیں لیا جا سکتا۔’عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تمام شواہد کو دیکھتے ہوئے چیئرمین نیب نے اس معاملے میں مزید کارروائی کرنے کا فیصلہ کن بنیادوں پر کیا وہ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ اگر ملزمان کے خلاف لگائی گئی شکایات اس کی بنیاد تھی تو یہ واضح نہیں کہ شکایات میں الزامات کیا تھے اور نیب کے سامنے ایسی کیا معلومات پیش کی گئی تھیں کہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ کمپنی کی مینیجمنٹ کے اقدامات پر قومی احتساب آرڈینس کے سیکشن 9 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ نیب کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں تھے جو درخواست گزار بھائیوں کو کمپنی سے جوڑتے ہوں اور جس کی بنا پر کمپنی کے کسی بھی غلط اقدام کی وجہ سے ان کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کی وجہ بنے ہوں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کمپنی کے خلاف ریفرنس میں 5 الزامات لگائے گئے لیکن نیب نے درخواست گزاروں سعد رفیق اور سلمان فریق سے ایک بھی سوال اس حوالے سے نہیں کیا جبکہ ان سے طویل دورانیے پر مبنی پوچھ گچھ کئی مرتبہ کی گئی جس کا آغاز کم از کم مارچ 2018 میں ہو چکا تھا۔عدالت نے کہا ہے کہ نیب نے درخواست گزاروں سے طلبی کے نوٹسز کے ذریعے ان چند رقوم کے بارے میں پوچھا جو انھیں کمپنی کی جانب سے کسی زمین کے لین دین میں ملی تھی۔
نیب نے درخواست گزاروں کو ایک بلڈر کی جانب سے ملنے والی رقم پر بھی سوال اٹھائے ہیں جو ان کے مطابق کمپنی کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا تھا۔عدالت نے کہا ہے کہ نیب اس حوالے سے رقم کی لین دین میں کسی قسم کی قانون کی خلاف ورزی کو ثابت نہیں کر سکا ہے اور نہ ہی یہ کہ درخواست گزاروں نے ان ذرائع سے بدیانتی اور غیر قانونی طریقے سے اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ یہ ذاتی نوعیت کا لین دین تھا جس سے عوام یا حکومت کے مفاد پر کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ہی یہ کمپنی کے شکایت کنندہ گاہکوں کو پلاٹوں کے مبینہ طور پر قبضہ نہ دینے یا رقوم واپس نہ کرنے کا باعث بنا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نیب اب تک درخواست گزاروں کے کمپنی کے بطور ممبر، پارٹرنر یا ڈائریکٹر تعلق کو ثابت نہیں کر سکا ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ دخواست گزاروں کے خلاف تحقیقات، ان کی گرفتاری اور 15 ماہ کے طویل عرصے تک ان کی حراست، بادی النظر میں احتساب آرڈیننس سے ہم آہنگ یا مطابقت نہیں رکھتا۔سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ کرپشن کا خاتمہ ایک منفرد کام ہے،کرپشن کے خاتمہ کے اقدامات قانون کے مینڈیٹ کے مطابق ہونے چاہیں۔ بظاہرنہیں لگتا خواجہ بردران نے ایسا جرم کیا جس کا نیب ٹرائل ہو،نیب خواجہ بردران کا پیراگون کمپنی کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں جوڑ سکا۔ نیب کا خواجہ بردران کو حراست میں رکھنا نیب قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ چیئرمین نیب نے کن شواہد کی بنیاد پر کارروائی کا فیصلہ کیا وہ سامنے نہیں۔
کوئی ادارہ جتنا بھی طاقتور ہو آئین میں دیے گئے حقوق کو ختم نہیں کر سکتا۔آئین کی منشا ہے کہ شہریوں کے ان کے حقوق سے محروم نہ رکھا جائے۔ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو ابزرویشنز سے متاثر ہوئے بغیر فیصلہ کرنے کا بھی کہا ہے ۔سانچ کے قارئین کرام !اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پرخواجہ برادران کو مبارک باد دینے والوں اور خاص طور پر گزشتہ دوسال کے دوران اپوزیشن کی جانب سے حکومت اور نیب کے حوالہ سے بیانات کو لے کر بحث کا سلسلہ جاری ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت خاص طور پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اپوزیشن نے ملک میں کرپشن کوفروغ دیا اور اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف اُنکے پاس ٹھوس ثبوت ہیں جو احتساب کرنے والے اداروں کو فراہم کئے جارہے ہیں عوام جو کہ مہنگائی ، بے روزگاری ، دیگر مسائل جن میں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سرفہرست ہے کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے اس موقع پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اپوزیشن رہنمائوں کے لئے حکومت کے خلاف یکجا ہونے ،حکومت ہٹائوتحریک شروع کرنے کے لئے اورمناسب حکمت عملی اختیار کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے ،سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے سے پہلے ایک بار یہ ضرورسوچ لینا چاہیے کہ ملک کی سیاست میں پارٹیاں بدلنے کا رجحان عام ہے ، آج جس کے خلاف زہر اُگلا جارہا ہے ہو سکتا ہے کل کو اُس کے ساتھ آپکی وفاداریاں ہو جائیں اور آج کے آپکے رہنماکل کو آپکے مخالف بیانات کی زد میں ہوں۔