جب تک ہمارا تعلیمی نظام ٹھیک نہیں ہوگا تب تک ہم ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکتے ہمارے تعلیمی ادارے اس وقت بہتر ہونگے جب ان اداروں کے اندر بیٹھے ہوئے کرپٹ مافیا کو نکال باہر نہیں کیا جاتا پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار جتنا اچھا تعلیم کے شعبہ میں کام کررہے ہیں شائد ہی کوئی اور محکمہ ہو مگر بدقسمتی سے ان کے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگ ہی انہیں انکے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہونے دے رہے یہ پنجاب کے ایک ایسے شہر کے تعلیمی ادارے کی کہانی ہے جو لاہور سے سینکڑوں میل کی مسافت پر ہے اسے پڑھنے کے بعد باقی اداروں اور ان کے اندر بیٹھے ہوئے چوروں کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں خواجہ فرید کالج رحیم یار خان میں واقع ہے اور اسے پورے وسیب میں احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کی وجہ صرف اس کا نام نہیں بلکہ اس کامعیار تعلیم ہے۔
آج دنیا بھرمیں بلخصوص امریکہ میں اس کے فارغ التحصیل طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے اس ادارہ کی بنیاد رحیم یار خان شہر سے باہر تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے رکھی یہی وجہ ہے کہ اسے شہر سے منتخب ایم این ایز اور ایم پی ایز نے کبھی اہمیت دی نہ فنڈز دیے جس کی وجہ سے یہ کالج آج بھی اپنے تشنگان علم کو اپنے لان اور سبزہ زار میں بٹھانے اور تعلیم جاری رکھنے پر مجبور ہے اگرچہ اب اس کی کوکھ سے خواجہ فرید یونیورسٹی بھی جنم لے چکی ہے مگر اس کی اہمیت پھر بھی ختم نہیں ہوئی جس کی وجہ اس کالج کے اساتذہ اور پرنسپل صاحبان کی محنت بتائی جاتی ہے کہ آج اس کے طلبہ کی تعداد سات ہزار سے زائد ہے اتنی زیادہ تعداد میں کالج کے سابق پرنسپل اجمل بھٹی کی پانچ سالہ محنت کا نتیجہ بتائی جارہی ہے مگر اس مرد مجاھد کو جس طرح اساتذہ کے قومی دن بھونڈے انداز سے کالج سے نکالا گیا یہ خود ایک داستان ہے اس کالج کی کہانی کچھ یوں ہے کہ رحیم یار خان ہی کے گرلز کالج کو انگلش لیکچرر کی ضرورت پڑتی ہے تو ڈائریکٹر کالجز خواجہ فرید کالج کے پروفیسر ارشد بیگ کو عارضی کلاسز کے لئے نزدیکی کالج پابند کر دیتے ہیں۔
جہاں انہوں نے مسز فرخ چوھدری نام کی لیکچرر سے دوستی شروع کر دی بات پھیلتے پھیلتے پورے کالج میں پھیل گئی جس سے تنگ آکر کالج کی انتظامیہ نے گرلز کالج میں ارشد بیگ کا داخلہ بند کردیا مگر خاتون لیکچرراور ان کا معاشقہ چلتا رہا بلکہ حد سے بڑھ گیا جس سے خاتون پروفیسر کو اپنا تبادلہ میاں والی قریشیاں میں کروانا پڑا مگر اپنے دوست ارشد بیگ کا پیچھا نہ چھوڑا کبھی کبھی بلکہ ارشد بیگ نے گرلز کالج میاں والی قریشاں بھی جانا شروع کردیا اور ان کے چرچے وہاں بھی شروع ہوگئے جس سے تنگ آکر مقامی لوگوں نے اس کا کالج میں داخلہ بند کروادیا مگر عشق کے ہاتھوں مجبور دونوں نے خواجہ فرید کالج ہی کو اپنا ڈیٹنگ پوائنٹ بنا لیاآئے روز کی ملاقاتوں اور کالج میں اکٹھے گھومنے پھرنے کے باعث کالج کا ماحول بھی متاثر ہونے لگا جس سے تنگ آکر کالج کے پرنسپل اجمل بھٹی نے ایک نوٹس کے ذریعے خاتون پروفیسر کا کالج میں داخلہ بند کر دیااسی نوٹس کو لیکر خاتون نے سکریٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو شکایت کردی یہاں سے کالج اور کالج کے پرنسپل اجمل بھٹی کی بدقسمتی شروع ہوگئی کہ اس خاتون نے اپنے عورت ہونے کا خوب فائدہ اٹھایا اور انکوائری اپنے حق میں کروالی جسکے بعد پرنسپل کی شامت آگئی اور انہیں پرنسپل شپ سے ہٹا کر لاہور پابند کردیا گیا۔
یوں کالج کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک لے جانے والے محنتی انسان کو رسوا وخوار کردیا گیا۔یہاں ایک اور انسان بھی خاتون لیکچرر کی مفت میں مدد کے لیے کود پڑتا ہے جسے ماضی میں اجمل بھٹی پر رنج تھا اسکا قصہ بھی پڑھ لیں جب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا رحیم یار خان کیمپس خواجہ فرید کالج میں شروع ہوا اورکئی سال گزرنے کے بعد کیمپس کی اپنی بلڈنگ بننے کے بعد اس وقت کے ڈائریکٹر کیمپس کالج کی بلڈنگ سے شفٹ نہیں ہورہے تھے جس پر کالج کے طلباء نے شدید احتجاج شروع کردیاا اس وقت کے ڈی سی سقراط امان رانا نے شدید برامنایاآج کل یہی سقراط امان رانا سکریٹری کوارڈی نیشن ٹو سی ایم پنجاب ہیں اور ہائر ایجوکیشن کے ڈیپارنمنٹ کو بھی دیکھتے ہیں کہا یہی جاتا ہے کہ مبینہ طور پر انہوں نے سکریٹری ہائر ایجوکیشن کو حکم دیا کہ اجمل بھٹی کو پرنسپل کی سیٹ پر نہیں ہونا چاہیے یوں اساتذہ کے قومی دن پر اجمل بھٹی کو انعام دینے یاعزت دینے کے بجائے بے عزت کرکے ہٹا دیا گیا کئی سالوں کی محنت اور کالج کے ماحول کو گندہ ہونے سے بجانے کے چکر میں اپنی عزت اورشہرت بھی گنوا بیٹھے کہ آج کئی ماہ بعد خواجہ فرید کالج ایک شفیق اور محنتی پرنسپل سے محروم ہے اورہزاروں طلبا وطالبات کے ذہنوں میں کئی سوال جنم لے چکے ہیں۔
ایک طرف موجودہ حکومت ریاست مدینہ بنانا چاہتی ہے تو دوسری طرف حکومت کے ہرکارے ریاست مدینہ کے لئے عملی طور پر کام کرنے اور بے حیائی کو روکنے والے اجمل بھٹی کو نشان عبرت بنا چکی ہے جواس وقت اپنی ریٹائر منٹ سے چند ماہ کی مسافت پر ہے باریش پروفیسر اپنے بیوی بچوں سے دور تخت لہور کے دھکے کھا رہا ہے کچھ دن پہلے وزیرہائر ایجوکیشن یاسر ہمایوں کا انٹرویو سنا جس میں موصوف ہائر ایجوکیشن ڈیپاٹمنٹ میں عمران خان کے ویژن کے مطابق تبدیلیوں کی نوید سنا رہے تھے امید ہے وہ اس تبدیلی کی بنیاد اجمل بھٹی کے کیس میں سکریٹری ہائر ایجوکیشن جاوید اقبال بخاری سے بھی زرور باز پرس کرینگے اجمل بھٹی کو احترام کے ساتھ دوبارہ ان کی سیٹ پر بٹھا کر کالجوں کا ماحول خراب کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کا حکم دیکر عمران خان کے ویژن ریاست مدینہ کی جانب قدم بڑھائیں گے۔