تحریر: طارق محمود پہاڑ جہاں سورج کی تمازت تیز ہو جائے اور گرمی بڑھ جائے تو وہاں ابر رحمت ضرور برستا ہے اور جہاں حبس ہو جائے وہاں ٹھنڈی اور تیز ہوائیں ضرور چلتی ہیں۔ کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں علاقہ تھل کے لق و دق صحرا میں جہاں انسانیت کی روح پیاس سے تڑپ رہی تھی جہاں پر کفر زار ِہند کسی اجل عظیم کا منظر تھا جو مدتوں سے رچے بسے زنگ آلود عقائد دلوں سے نکال باہر پھینکے اور ایمان کے نور سے منور کر دیے۔
پیر مہر علی شاہ گولڑوی۔ پیر جماعت علیشاہ کا ہم عصر قتل کا ایک ملزم عدالت کے کٹہرے میں کھڑا تھا جس کی پیشانی سے سجدوں کا نور پھوٹ رہا تھا۔ باریش چہرے پر نور ایمان کا نقاب جگمگا رہا تھا۔ عدالت کھچا کھچ جم غفیر سے بھری پڑی تھی۔ کرسی پر ہندو شیشن جج بیٹھا تھا اور اس کا ریڈر بھی ہندو تھا جبکہ استغاثہ کی طرف سے پیش ہونے والا تھانیدار بھی ہندو ۔ اسی دوران ایک اور استفاثہ پیش کیا گیا جس پر الزام لگایا گیا تھا کہ یہ شخص جادوگر ہے اور جادو کے اثر سے سینکڑوں افراد کو مسلمان کر چکا ہے۔ ابھی استفاثہ پڑھ کر سنایا جا رہا تھا کہ اس عظیم و جلیل ملزم کے چہرے پر جلال کی نورانی شعاعیں چمکنے لگی اور جوش ایمان کی امواج نے دل میں طوفان برپا کر دیا اور ساتھ ہی قتل کے اس ملزم نے عدالتی جج سے لیکر ریڈر تھانیدار کی طرف باری باری انگشت شہادت اٹھا کر اشارہ کیا کہ کیا اس کو بھی میں نے مسلمان کیا ۔اس کو بھی میں نے کلمہ پڑھایا۔ جیسے جیسے ان سب کی طرف شہادت کی انگلی اٹھتی گئی سب کی زبان پر کلمۂ طیبہ کا ورد ہونے لگا۔
Sahibzada Ahmed Hassan
عدالت میں موجود دیگر سینکڑوں افراد ورطہ حیرت میں ڈوب گئے اور مسلمان ہو گئے ملزم کا کوئی بال بھی بانکا نہ کر سکا۔ یہ تھے قتل کے ملزم چودھویں صدی کے عظیم روحانی پیشواء خواجہ و خواجگان حضرت غلام حسن سواگ جن کے دست مبارک پر ہزاروں افراد مشرف با اسلام ہوئے۔ مقدمہ قتل کا پس منظر یہ تھا کہ آپ نوپور تھل میں اسلام کی تبلیغ کو اشاعت کیلئے جایا کرتے جہاں پر کچھ افراد نے ایک مسجد میں آپ کی تقریر کے دوران کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے عرش معلی پر تشریف لے گئے۔ یہ سنتے ہی آپ جلال میں آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مسجد کی دیوار سے باہر گئے اور واپس آگئے اور فرمایا کہ جیسے میں دیوار سے گیا اور آیا ہوں۔یہاں بھی سینکڑوں افراد آپ کی کرامات دیکھ کر مسلمان ہو گئے جس سے ہندوئوں کو پریشانی لاحق ہوئی اور آپ کو دھوکے سے بلا کر قتل کا مقدمہ بنوا دیا تا کہ آپ کو قید و بند کی صعوبتیں دے کر اسلام کی اشاعت سے روکا جا سکے۔ 1849 ء میں تھل کی عظیم ہستی خواجہ غلام حسن سواگ نے کروڑ لعل عیسن کے قریب گاڑے کھوہ کے مقام پر ملک لعل کے گھر جنم لیا۔
آپ بچپن میں والدین کے سایہ سے محروم ہو گئے اور آپ کی پرورش سواگ خاندان کی نیک اور پاکیزہ خاتون نے کی۔ آپ مویشی چراتے تھے۔ اسی دوران اﷲ تعالیٰ کی رحمت نے جوش مارا اور آپ علم کی تلاش میں ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لے گئے جہاں پر مختلف مدارس میں فیض یاب ہو کر چکڑالہ ضلع میانوالی میں مولانا نور خان سے جو کہ حضرت خواجہ عثمان کے خلیفہ تھے سے تکمیل علم کے مندارج طے کیئے اور استاد محترم کے ہمراہ حضرت خواجہ محمد عثمان کی خدمت میں حاضر ہوکر سلسلہ نقشبندیہ میں داخل ہو گئے۔ حضرت خواجہ محمد عثمان نے آپ کی پختگی باطنی پاکیزگی دیکھ کر سلسلہ کی ترویج کیلئے خلافت عطا فرما دی۔
Sahibzada Haji Mohammad Hassan
خواجہ محمد عثمان موسیٰ زئی کے انتقال کے بعد قطب عالم حضرت خواجہ محمد سراج الدین نے آپ کو بیعت کی اجازت بخشی۔ خواجہ غلام حسن سواگ کے کشف و کرامات کے باعث سرحد، بلوچستان اور پنجاب میں مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہو گئی۔ آپ کی آخری آرام گاہ حسن آباد سواگ شریف کروڑ میں موجود ہے جس کے باعث یہاں روحانیت کا ظہور ہوتا ہے اور یہ جگہ عقیدت مندوں کیلئے عجیب طلسماتی جگہ ہے۔ حضرت خواجہ غلام حسن سوگ کا عرس خالصتاً مذہبی اجتماع ہوتا ہے۔ جس میں ملک بھر سے ہزاروں زائرین و عقیدت مند شرکت کرکے آپ سے اپنی روحانی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ تین روزہ عرس میں ملک بھر سے علمائے کرام اور مشائخ شرکت کر کے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں اولیاء کرام نے ملت اسلامیہ کی صحیح تعبیر پیش کر کے محمدۖ عربی کے نظام کو روشناس کروایا۔خدمتِ خلق اور ہر ایک سے محبت اس کی بنیادی وجہ تھی۔ ان کے ہاں قول و فعل میں یکسانیت اور سچائی کے علاوہ علم و عمل کو بھی بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ اب انہی افکار سے روگردانی نے امتِ مسلمہ کو زوال پذیر کر دیا ہے۔ بقول خواجہ احمد حسن سجادہ نشین اولیاء کرام کے حالات زندگی پر روشنی ڈالنا مشائخ اور خانقاہوں کو مربوط کرنے کے ساتھ ساتھ خانقاہوں کو ایسی روحانی تربیت گاہ بنانا جہاں پر درد مند متلاشی کیلئے ظاہری اور باطنی اصلاح کا جامع انتظام ہو۔ اس مقصد کیلئے پیر سواگ لجپال ٹرسٹ کی ضرورت محسوس کی گئی۔
صاحبزادہ خواجہ احمد حسن سواگ کی زیر سرپرستی مین دربار شریف پر گزشتہ سال پیر سواگ لجپال ٹرسٹ قائم کیا گیا ہے۔ جس کے سنگ بنیاد کی ایک بڑی تقریب منعقد ہوئی۔ پیر سواگ لجپال ٹرسٹ میں دینی و اصلاحی مرکز کا قیام، حفظ و ناظرہ، درس نظامی، دورہ حدیث تک کلاسز، مڈل، میٹرک، ایف اے اور بی اے تک کلاسز، عربی فاضل، فارسی فاضل کی کلاسز، خواتین کیلئے جدید فنی و دستکاری سنٹر کا قیام، طلباء و طالبات کیلئے جدید ٹیکنیکل تعلیم کی کلاسز، بیرون ملک کیلئے سکالر شپ، کمپیوٹر لیب، لائبریری، طلباء کی رہائش کیلئے ہاسٹل، زائرین کی سہولت کیلئے مہمان خانہ، لنگر خانہ، فری ڈسپنسری، فری ایمبولینس سروس اور جنریٹر روم کا قیام شامل ہے۔ پیر سواگ لجپال ٹرسٹ کا چیئرمین صاحبزادہ محبوب الحسن کو بنایا گیا ہے۔
عرس مبارک کی تین روزہ تقریبات کی صدارت سجادہ نشین خواجہ محمد حسن، خواجہ احمد حسن ، MNA صاحبزادہ فیض الحسن، سابق چیئرمین ضلع کونسل صاحبزادہ نور الحسن، تحصیلدار (جھنگ) صاحبزادہ محمودالحسن اور صاحبزادہ منظورالحسن، صاحبزدہ محبوب الحسن چیئر مین لجپال پیر سواگ ٹرسٹ، صاحبزادہ وسیم الحسن فرمائیں گے۔
Sahibzada Noor ul Hassan,Sahibzada Faiz-ul Hassan
تحریر: طارق محمود پہاڑ tariq.mehmood.pahar@gmail.com