واشنگٹن (جیوڈیسک) الفاظ کی حرمت، اس کے چناؤ اور استعمال پر زور دیتے ہوئے، خضر خان نے کہا ہے کہ بولے اور لکھے گئے الفاظ امانت کا درجہ رکھتے ہیں، جنھیں سوچ سمجھ کر ادا کیا جانا چاہئے، کیونکہ اِن کا سوچ اور مستقبل کے دھارے پر بے حد اثر پڑتا ہے۔
عراق میں ملک کے لیے جان کا نذرانہ دینے والے امریکی فوجی، ہمایوں خان کی والدہ، بیگم غزالہ خان بھی موجود تھیں۔ ساتھ ہی، خضر خان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دینِ اسلام کی روشن خیالی کے پہلو کے درس کو ہمیشہ ذہن میں تازہ رکھا جائے۔
خضر خان نے ہارورڈ لا کالج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی، جب کہ بیگم غزالہ خان فیصل آباد میں تعلیم و تدریس سے وابستہ رہ چکی ہیں۔
خضر اور غزالہ خان مسلسل چار روز سے امریکی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہیں اور ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے جوابی بیان کے بعد کئی بڑے سیاست دانوں نے ان کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔
ریاست ایریزونا سے منتخب سینیٹر اور 2008ء میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مک کین نے خضر اور غزالہ خان کے خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان پر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جان مک کین، جو خود بھی سابق فوجی ہیں 1960ء کی دہائی میں جنگِ ویتنام کے دوران قیدی رہ چکے ہیں، نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ امریکی عوام ڈونالڈ ٹرمپ کے جوابی بیان کو ری پبلکن پارٹی اور اس کے ذمہ داران کے خیالات کا نمائندہ نہیں سمجھیں گے۔
اس سے قبل دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں، خضر خان نے بتایا کہ ’’تنقید امریکی جمہوری عمل کا حسن ہے۔۔۔ جس میں تنقید کی جاتی ہے، اسے سنا جاتا ہے، برداشت کیا جاتا ہے، جو طریقہٴ کار اچھا اور بہت ہی صحت مند ہے‘‘۔
’گولڈ اسٹار مدرز‘ کے مقام کے بارے میں سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ میں گولڈ اسٹار مدرز کا بہت بڑا مقام ہوتا ہے، اور یہ کہ شہیدوں کی ماؤں نے غزالہ خان کے بارے میں بیان پر ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ کے انداز کو درست قرار نہیں دیا۔
اپنے بیٹے کی یادوں کے بارے میں ایک سوال پر، کیپٹن ہمایوں خان کی والدہ، غزالہ خان نے بتایا کہ ’مدرز ڈے‘ کے موقعے پر اُنھوں نے عراق سے ٹیلی فون کیا تھا جس مین اُنھوں نے اُن کے محفوظ رہنے کی تاکید کی تھی۔
بقول غزالہ خان، ’’اِس پر اُنھوں نے کہا تھا کہ ماں میرے سر پر ذمہ داری ہے جو مجھے پوری کرنی ہے۔ مجھے میرے سپاہیوں، میرے لوگوں کی ذمہ داری ہے، جو مجھے پوری کرنی ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ اُور بیٹے نے وہی کیا‘‘۔
والد نے بتایا کہ جب ہمایوں کی عراق تعیناتی ہو رہی تھی تو اُنھوں نے بیٹے سے دریافت کیا تھا کہ ’’سوچ میں کوئی اخلاقی الجھن تو حائل نہیں‘‘، جس پر، بقول والد، ’’اُنھوں نے بتایا تھا کہ ہرگز نہیں‘‘؛ اور یہ کہ ’’میں لوگوں کی حفاظت کروں گا، کسی کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا‘‘۔
عراق جنگ کے بارے میں ایک سوال پر خضر خان نے کہا کہ ’’اس قوم کی قیادت مان چکی ہے کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا‘‘۔
پاکستان میں ڈرون حملوں کے بارے میں سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ ’’اِس پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیئے‘‘؛ چونکہ، بقول اُن کے، ’’اس سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ ڈرون کے استعمال کا مقصد انتہا پسندی کا خاتمہ ہے، جب کہ یہ انتہا پسندی کو ہوا دیتی ہے‘‘۔ ادھر، اِس ضمن میں، امریکہ کی واضح پالیسی یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے اور شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے دنیا میں کہیں بھی اور کسی وقت بھی درکار فضائی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اس تنقید پر کہ فلاڈیلفیا میں منعقدہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنوینشن میں اپنے شوہر کی تقریر کے دوران وہ اُن کے ہمراہ کھڑی تھیں؛ لیکن اُنھوں نے کوئی بات نہیں کی، غزالہ خان نے کہا کہ دراصل اس کی اور کوئی وجہ نہیں، ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے بیٹےکے بارے میں زیادہ دیر بات نہیں کر پاتیں۔ اس ضمن میں، خضر خان نے کہا کہ اسٹیج پر وہ ایک امریکی مسلمان کی حیثیت سے کھڑے تھے۔
خضر خان نے بتایا کہ ری پبلیکن پارٹی کے رہنماؤں نے اُن سے رابطہ کیا ہے۔