ایران (جیوڈیسک) شاہ ایران کے بیٹے پرنس رضا محمد رضا پہلوی نے سعودی روزنامے “الوطن” کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بیرون ملک ایرانیوں کی صورت حال، ایرانی اپوزیشن اور اس کی توقعات کے بارے میں بات چیت کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ولایت فقیہ کے نظام کی کھیل جیتنے کے لیے قابلِ اعتراض مگر قواعد کے مطابق طریقے استعمال کَرنے کی عادت اور مداخلت پر بھی روشنی ڈالی جن کا مقصد داخلی بحرانوں سے راہ فرار اختیار کر کے اپنے مسائل کو دوسرے ملکوں میں پہنچانا ہوتا ہے۔ پرنس رضا نے اپنی تفصیلی گفتگو میں بہت سے ایسے رازوں پر سے پردہ اٹھایا جو قابل غور ہیں۔
شاہ ایران کے بیٹے کا کہنا تھا کہ “ولایت فقیہ کا نظام اصلاحات کے نام پر ایرانیوں کو مسلسل دھوکا دے رہا ہے۔ اس نظام کے سائے تلے کوئی بھی تبدیلی یا اصلاح ناممکن ہے۔ تہران کا موجودہ نظام محض نعروں کا نظام رہے گا۔ اس میں بدعنوانی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور اس پر انٹیلی جنس مافیا کا پوری طرح کنٹرول ہے۔ معاشی مسائل حدوں کو پار کرچکے ہیں جس کا نتیجہ غربت، فحاشی اور خودکشی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ قوم کے بہترین اور باصلاحیت دماغ پوری دنیا میں ہجرت کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بچے الرجی اور آلودگی کے ساتھ ساتھ سیٹلائٹ چینلوں پر انتشار کی لہروں کے سبب دماغ کے سرطان میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں کیوں کہ نظام سیٹلائٹ ڈشوں کے استعمال کو روکنا چاہتا ہے۔
ایرانی نظام کی جمہوریت کے لیے نہیں محض قانونی حیثیت کے لیے انتخابات پر توجہ پرنس رضا نے کہا کہ ایرانی عوام بتدریج اپنے قانونی حقوق کے حصول کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بات روز اوّل سے واضح ہے کہ ولایت فقیہ کا نظام اور اس کے مختلف حلقے عوام کی جانب سے منتخب کردہ نہیں اور وہ کسی بھی لمحے تمام قوانین کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔ یہ نظام کسی کو بھی کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ایرانی نظام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جانب عوام کے خلاف کریک ڈاؤن کرتا ہے تو دوسری جانب اپنے انقلابی نظریے کو پھیلانے کے ذریعے پورے خطے پر دباؤ ڈالتا ہے۔ یمن، عراق، لبنان اور شام میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔
آخری انتخابات میں ہم نے دیکھ لیا کہ عوام کی شرکت کا تناسب کم ترین سطح پر تھا۔ میں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ اس طرح کے نظام میں ووٹنگ اس نظام کو قانونی حیثیت دینے کے سوا کچھ نہیں۔ ووٹنگ کے عمل کا لوگوں کے انجام کار کو متعین کرنے میں کوئی کردار نہیں۔
دوسروں کے امور میں مداخلت کے لیے تہران کو بحران تخلیق کرنے کی اشد ضرورت ایرانی نظام کے کئی مقاصد ہیں جن میں ایک مقصد اپنے نظریے کو پھیلانا ہے تاکہ نظام باقی رہ سکے۔ اس کا علاقائی رسوخ اور دوسروں کے امور میں مداخلت صرف بحران زدہ اور غیرمستحکم فضاؤں میں ہی ممکن ہے۔ اس نظام کی سوچ عصری خلیفہ کے پرچم تلے علاقائی کنٹرول حاصل کرنے پر مبنی ہے۔ اس کے نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا مطلب ضروری نہیں کہ وہ اسرائیل پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ یہ اس لیے ہے تاکہ نیوکلیئر دھمکی کے ذریعے وہ روایتی عسکری محاذ قائم کرسکے جس کا کوئی مقابلہ نہ کرپائے۔
خامنہ ای نے قدامت پسندوں کے وجود کی تردید کر کے سروں پر ٹھنڈا پانی انڈیل دیا کچھ عرصہ قبل خامنہ ای نے یہ کہا کہ “ایرانی نظام کے تمام فرزند اصلاح پسند ہیں اور قدامت پسندوں کا کوئی وجود نہیں ہے”۔ اس طرح انہوں نے سب کے سروں پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا۔ تاہم خامنہ ای کے مطابق “ہر کوئی نظام کے تحفظ کا عہد کرتا ہے خواہ وہ روحانی ہو، خاتمی ہو یا پھر احمدی نژاد”۔ لہذا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی نظام کی مخالفت کی بات نہیں کرسکتا!
عوام بھوک کے مارے ہوئے ہیں جب کہ نظام دوسرے وعدے پیش کر رہا ہے آپ خود کو ایران میں کسی یونی ورسٹی پروفیسر، عام انجینئر یا اور کسی ملازم کی جگہ رکھیں جس کی ماہانہ تنخواہ 300 سے 400 ڈالر کے درمیان ہے جب کہ سرکاری طور پر غربت کی اعلان کردہ حد 500 ڈالر ہے۔ ایک طرف ہمیں لوگ بھوک کے مارے ہوئے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف نظام لبنان میں لڑنے والوں یا اسرائیلی مفادات پر حملے میں مارے جانے والوں کے گھر والوں کو 7 ہزار ڈالر کی پیش کش کررہا ہے جو ایک استاد کی کئی تنخواہوں کے برابر ہے۔ تو پھر آپ کی ترجیحات کہاں گئیں؟ ایران میں لوگوں کو درپیش مسائل کی ایک طویل فہرست ہے۔ ریاست کے تمام اقتصادی زاویوں پر پاسداران انقلاب کی مافیا قابض ہے۔ لوگوں کے پاس گزر اوقات کے لیے وسائل نہیں، انہیں وقت پر تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ معاملے میں نظام کی نسل پرستی ملک کو تقسیم کرنے کی راہ ہموار کررہی ہے۔
خمینی کے انقلاب سے دہشت گردی پھوٹی اور مسلک کی آگ بھڑکی 1979 تک خطے کے ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات میں سنی یا شیعہ مسلک کا معاملہ درپیش نہیں تھا اور نہ ہی قومیتوں کے درمیان کوئی اختلاف تھا خواہ وہ کرد ہوں، بلوچی ہوں یا پھر عرب۔ ترکی اور پاکستان کے ساتھ اتحاد کی تشکیل کے وقت ہمارے ان ملکوں سے تعلقات اچھے تھے جب کہ کچھ ماہ قبل پاکستان نے ایران کو باور کرایا ہے کہ اگر اس نے خطے میں تنازع بھڑکایا اور سعودی عرب اور دیگر ممالک کو اشتعال دلایا تو وہ ایران کے مقابلے پر کھڑا ہوگا۔ کیا اس دوران ایرانی عوام تبدیل ہوگئے یا پھر نظام ان بحرانوں کا سبب ہے؟ ماضی میں سنیوں اور شیعوں کے درمیان مقابلہ ناممکنات میں سے تھا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس نظام کے زوال کے بعد ہی ایران میں اصلاح ہوسکتی ہے۔
نظام کی جانب سے عوام کے خلاف شدید کریک ڈاؤن کی صورت حال نے تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تبدیلی ایک شہری مزاحمتی تحریک کے ذریعے آنا چاہیے جو تشدد سے دور ہو اور اس کی قیادت عوام کو اپنے چاہت پوری ہونے کے حوالے سے قائل کرسکے۔ بہرکیف میں فوجی مداخلت کے ذریعے تبدیلی کو قطعا مسترد کرتا ہوں۔
تبدیلی کے لئے تیار میں سمجھتا ہوں کہ ایرانی عوام بنیادی تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ روز بروز ان کا خوف کم اور صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرے کے تمام طبقے جن میں خواتین ، اساتذہ ، مزدور اور اسی طرح سیاسی قیدیوں اور موت کے گھاٹ اتارے جانے والے افراد کے خاندان سب ہی مسلسل آوازیں اٹھا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمارے ملک میں طاقت ور شہری حلقوں کے نمودار ہونے کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔
تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے.. مگر کیسے؟ اس کے لیے شہری مزاحمتی تحریک کو نظام پر اندورونی طور پر دباؤ ڈال کر اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنا ہوگا اس کے ساتھ ساتھ نظام پر بیرونی طور دباؤ ڈالنے والے فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
مماثل تحفظات مشرق وسطی کی معاصر تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ خطے کے ممالک کے تحفظات میں اس حد تک مماثلت پائی جارہی ہے۔ خطے کے مرکزی ممالک مثلا سعودی عرب، پاکستان، ترکی، مصر اور بہت سے مغربی ممالک مثلا فرانس اور جرمنی. ان سب کی انگلیاں ایران کی جانب ہیں!
مسلح افواج کا اضطراب ہم مسلح افواج کے اہل کاروں سے کہتے ہیں کہ ایران کے مستقبل میں آپ لوگوں کی جگہ محفوظ رہے گی اور نظام کی تبدیلی کے بعد آپ کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ بے شک ہر نظام کے پیروکار ہوتے ہیں مگر ایران میں مسلح افواج کی اکثریت آج عدم اطمینان کا شکار ہے۔ وہ لوگوں کی گالیاں بھی کھاتے ہیں اور ان کو کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچتا، ان کی اجرتیں ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
فرقہ وارانہ جنگوں کا خاتمہ موجودہ ایرانی نظام مسلک کے فلسفے کی بنیاد پر خلافت کی تاسیس چاہتا ہے جب کہ میں اپنے ملک کا مستقبل ایسا دیکھنا چاہتا ہوں جہاں قانون کے سامنے سب برابر ہوں۔ ہم ان کی قومیت، رنگ، نسل اور مذہب اور مسلک کو نہ دیکھیں۔ جب تمام شہری برابری کی بنیاد پر زندگی گزاریں گے تو پھر فضائیں پرامن ہوں گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی، معاشی استحکام، انفرادی اور اجتماعی امن و امان کا گہوارہ بنے اور یہ قانون کی بالادستی کے بغیر نہیں ہوگا۔
نظام فقیہ کا اپنے مفاد میں کام آنے والی لابی پر خطیر رقم بہانا گزشتہ دو ڈھائی سالوں کے دوران ایران میں دی گئی سزائے موت کی تعداد تقریبا دو ہزار رہی جو احمدی نژاد کے دور حکومت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔
مغربی دنیا میں ولایت فقیہ کے نظام کے مفاد میں کام کرنے والی لابی سرگرم ہے۔ ایرانی نظام یورپ اور امریکا میں اپنے ہم نوا پریشر گروپوں پر خطیر رقم خرچ کرتا ہے۔ یہ لابی بتدریج تبدیلی اور اصلاحات واقع ہونے کا پروپیگنڈہ کرتی ہے تاکہ موجودہ نظام کو برقرار رکھا جاسکے۔
ایرانی نظام داعش کا ناخدا ہے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ داعش کا مقابلہ کرنے میں ایران ان کا حلیف ہوسکتا ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اس “بوجھ” کا ناخدا ہی ایرانی نظام ہے پھر اس کے ساتھ اتحاد کس طرح ممکن ہے؟ جس نظام کی بنیاد ہی دہشت گردی کے لیے رکھی گئی ہو وہ آپ کا اتحادی کیسے ہوسکتا ہے؟ اس مسئلے کی وسیع پیمانے پر وضاحت کی کی جانی چاہیے اور اس کے لیے ذرائع ابلاغ کے ذریعے گہری آگاہی کی ضرورت ہے اور یہ تیز ترین راستہ ہے۔
امریکیوں سے قربت دباؤ اور درمیانی ایجنٹوں کا نتیجہ ہے میں نے جن بعض پریشر گروپوں کی جانب اشارہ کیا تھا ان کا موجودہ امریکی حکومت کی بعض شخصیات پر اثر و رسوخ ہے۔ ان کے علاوہ بعض “درمیانی بروکر” بھی ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ تعلقات کے قیام کے لیے راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ بہرکیف جو معاہدہ ہوا ہے وہ مکمل نہیں ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ نیوکلیئر معاہدے کے نتیجے میں واپس ملنے والی رقم کہاں خرچ ہوگی ؟ یہ ایرانی عوام پر خرچ ہوگی یا پھر نظام اس کو ملیشیاؤں پر لٹائے گا؟ میرے خیال میں پابندیوں کے اٹھنے کے بعد کے منظرنامے کے حوالے سے غیرحقیقی رجائیت پسندی کا اظہار کیا جارہا ہے۔
تہران کا نظام بربریت اور انسانی جرائم کے ارتکاب پر قائم ہے ایرانی نظام کا مقصد خطے کے استحکام کو خطرے سے دوچار کرنا ہے۔ یہ نظام جب لوگوں کو اپنا ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور کرتا ہے تو یہ مہاجرین دیگر ممالک پر بہت بڑا دباؤ ثابت ہوتے ہیں اور یہ امر ایک انسانی جرم شمار کیا جاتا ہے۔ اگر ایرانی نظام ان عوام سے ہمدردی رکھتا تو کبھی ایسا نہ کرتا۔
شام کا مستقبل؟ شام کا مستقبل بڑی حد تک ایرانی نظام کے مستقبل سے مربوط ہے۔ ایران میں صورت حال کی تبدیلی کے نتیجے میں یقینی طور پر شام میں حالات تبدیل ہوں گے۔ اگر ہم ذمہ داری کی حد تک حکومت پانے میں کامیاب ہوگئے تو ایک طرف ہم نیوکلیئر اندیشوں کا خاتمہ کریں گے اور دوسری طرف دہشت گرد جماعتوں کے ساتھ تمام تر تعلقات کو ختم کر ڈالیں گے جن کو ایرانی نظام سپورٹ کرتا ہے۔ ہمیں مشترکہ ویژن کے ذریعے مسائل سے نمٹنا چاہیے۔ جب یورپ والوں کی مشترکہ منڈی ہوسکتی ہے تو پھر اسی طرح ہماری کیوں نہیں ہوسکتی؟
ایرانی نظام اپنی بقاء کے لیے دوسروں کے زوال کا قائل مشرق وسطی میں چار دارالحکومت ہیں جن پر ایرانی نظام کا کنٹرول ہے۔ ایرانی نظام نے پہلے روز سے ہی سعودی عرب کے خلاف مقابلہ آرائی شروع کی مگر سعودی حکومت نے اس وقت مماثل طریقے سے سامنا نہیں کیا تاکہ بلا وجہ اشتعال نہ پھیلے۔ اس دوران حجاج کی آمدورفت جاری رہی۔ موجودہ ایرانی نظام کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا دنیا کے ساتھ باہمی بقاء ممکن نہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کی بقاء دوسروں کے زوال کے مرہون منت ہے۔ اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کے امور میں مداخلت نہ کرے۔ صدام حسین نے 1982 میں اعلان کیا تھا کہ وہ ایران کو جنگ کا خسارہ ادا کرنے کے لیے تیار ہے ، اقوام متحدہ نے بھی اس کا اعلان کیا مگر خمینی نے اس کو مسترد کرتے ہوئے کاہ کہ جنگ کو جاری رہنا چاہیے کیوں کہ بیت المقدس کا راستہ کربلا سے گزر کر جاتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ہمارا طویل المیعاد مقصد دنیا پر کنٹرول حاصل کرنا اور اس کو ایرانی نظام کے آگے سرنگوں کرنا ہے۔
ایرانی عوام نہیں بلکہ ایرانی نظام خطے کی دیگر اقوام کا دشمن ہے ایران کی جانب سے سعودی عرب اور بحرین کو مسلسل دھمکیوں کا سامنا ہے۔ میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ خطے کے ممالک بالآخر مداخلت پر مجبور ہوجائیں گے۔ لہذا میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ مشاورت کی جائے تاکہ ہم خطے کے ممالک کے ساتھ مشترکہ موقف کے حوالے سے تعاون کرسکیں ۔ ہمارا ایک مشترکہ دشمن ہے جس کا نام “ایرانی نظام” ہے۔
ایرانی عوام کسی ملک کے عوام کے معاند نہیں ہیں۔ ایرانی نظام کے زوال کے ساتھ ہی اس کی پیدا کردہ تمام تر عداوتیں اور نفرتیں ختم ہوجائیں گی۔ ہم دیکھیں گے کہ ایرانی عوام دیگر مسائل کی طرف توجہ دے گی جس میں غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ اور ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کا حصول شامل ہیں۔ ایران کسی طور غریب ملک نہیں ، ہمارے پاس مختلف قسم کے قدرتی وسائل ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ خدانخواستہ ایران کی خطے کے ممالک کے ساتھ جنگ چھڑجائے مگر ایرانی نظام کے خاتمے کے لیے ہمیں عوام کا براہ راست ساتھ دینا ہوگا۔
خطے کو بحرانوں سے بچانے کا راستہ مشترکہ عمل ہے ولایت فقیہ کے نظام کے بغیر مستقبل میں ایران کے خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر مختلف نوعیت کے اور ماضی کے مقابلے میں بہتر ہوں گے۔ بہرکیف میں ایک بار پھر متنبہ کروں گا کہ خطے کے لیے آئندہ 30 سے 40 سال عملی طور پر مشکل ہوں گے۔ مراکش سے لے کر پاکستان تک ہمیں پانی کے بحران کا بھی سامنا ہوگا اور یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر 21 ویں صدی میں جنگ ہوئی تو وہ تیل نہیں بلکہ پانی کی وجہ سے ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں ابھی سے منصوبہ بندی کرنا چاہیے اور یقینا اس سلسلے میں جدید ٹکنالوجی اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان تمام امور پر غور کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے دور اندیشی پر مبنی فیصلہ نہ کیا تو گویا ہم اس معاملے کو تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہونے دیں گے۔
میرے نزدیک ایرانی نظام خطے میں بحران کا مرکزی سبب ہے۔ اس کے زوال سے خطے کی حالیہ 90 فی صد مشکلات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ خطے میں ہمارے دوست ایرانی عوام کو آزاد کرانے کے لیے اپنی مدد پیش کریں گے۔