گمشدہ جنت

Sons

Sons

تحریر :انیلہ احمد

ایک زمانے سے لوگ بیٹوں کے لئے دعائیں کرتے چلے آ رہے ہیں٬ منتیں مرادیں ننگے پاؤں مزارات پے جانا یہ ہم سب کے لئے کوئی اچنبھے کی بات نہیں٬ بیٹے کی پیدائش کے بعد ناجائز پیار محبت بیٹیوں کے مُنہ سے نوالے چھین کر بیٹے کے مُنہ میں ڈالنا ہمارے کلچر کا خاص حصّہ ہے ایسے والدین اپنے بیجا لاڈ پیار نازو نعم میں پروان چڑھانے اور بیٹوں کے غلط رویوں کو نظر انداز کر کے ہر ناجائز خواہش پوری ہونے کی صورت میں جلد ہی اپنے ہی لختِ جگر کو بے راہ روی کا شکار کر دیتے ہیں ٬ اس میں قصور وار بچےّ کو کہیں٬ یا اُن والدین کو جن کی غلط تربیت کی وجہ سے وہ بُرا راستہ اختیار کر لیتے ہیں٬
خورشید صاحب کی وفات کے بعد زورو شور سے چیخ و پُکار کرنا اُن کے گھر کا وطیرہ بن چکا تھا٬

روز نت نئی کہانی جھگڑے کا باعث ہوتی ٬ وجہ یہی تھی خورشید صاحب اور بیگم خورشید صاحب کے بیٹے کے بے جا ناز نخرے اور ہر ناجائز خواہش بلاچوں چراں پورا کر لینے سے چار بہنوں کا اکلوتا بھائی جاوید اپنے فرائض بھول چکا تھا ٬ اپنے فائدے کے لئے وہ کسی حد تک بھی جا سکتا تھا٬ صد شکر کہ خورشید صاحب اپنی زندگی ہی میں چاروں بیٹیوں کے فرائض سے سبکدوش ہو چکے تھے ٬ آخری ایاّم تک وہ اپنی پینشن سے ہی گزرواوقات کے ساتھ ساتھ گھریلو اخراجات کا بوجھ بھی اٹھاتے رہے٬

اس عمر میں بھی آسانی سے گھر کے اخراجات برداشت کرتے دیکھ کر جاوید بیماری کا بہانہ بنا کر آرام فرماتا باپ کے سمجھانے پر ماں درمیان میں بیٹے کی طرفداری کرتی ٬ جس سے وہ اور بگڑ گیا اُن کی وفات کے بعد بیوگی کی صورت میں ملنے والی پینشن کو دیکھ کر جاوید اور آرام طلب ہوگیا کیونکہ گھر کا خرچ معمول کے مُطابق چل رہا تھا٬ اس لئے اسے محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہ پڑی شادی کے بعد بیوی بھی خود غرض لالچی اور مطلب پرست نکلی ٬ بڑے کروّفر سے ساس پر حُکم چلانا اور شادی شدہ نندوں کو زرخرید غلام سمجھنا تو جیسے اسکی سرشت میں شامل ہوگیا٬ نندوں کا ماں کو آکر ملنا دونوں کو ایک آنکھ نہ بھاتا ٬ آخر کار اپنی مُنافقانہ سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہویے آپریشن کا، بہانہ بنا کر تمام جائیداد کے کاغذات پر سائن کروا لیے

بیگم خورشید پڑہی لکھی نہ ہونے کی وجہ سے نہ جان سکیں کہ اپنے سگے بیٹے نے ہی ان پر شبِ خون مارا٬ ان کے جھوٹ مکرو فریب نے ماں کی آنکھوں پر جھوٹی پیار کی پٹّی باندھ رکھیّ تھی٬ بیٹیاں ماں کی حالتِ زار پر کُڑہتیں جلتیں تسلی دلاسہ دیتیں سوائۓ بھائی کو سمجھانے کے اور کچھ نہیں کر سکتی تھیں٬ کیونکہ ان کے اپنے ہی والدین نے بیٹی ہونے کی پاداش میں بچپن سے ہی یہ حق اُن سے چھین لیا تھا٬

Allah

Allah

اسی اثنا میں جاوید اور اسکی بیوی تمام جائیداد اپنے نام منتقل کروا چکے تھے٬ بہنوں کو یہ کہہ کر جائیداد سے بیدخل کر دیا گیا٬ کہ جہیز کی صورت میں باپ نے انہیں بے تحاشہ حقِ وراثت دے دیا اب اس جائیداد میں مزید ان کا کوئی حصّہ نہیں٬ بہنوں کو پتہ چلا تو وہ صبر کے گھونٹ بھرکر رہ گئیں ایسے انگنت بیٹے اللہ تعالیٰ کی مقرر کی گئی جائز حدوں کو پھلانگ کر زبردستی اُسے دین میں شامل کر رہے ہیں٬

وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں ماں اور بہنوں کا حق کھانا اور انہیں وراثت سے ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے ذاتی سوچ پے مبنی اصول وضع کر کے انہیں حقِ وراثت سے محروم کرنے والے اللہ سے ڈریں ٬ مزید ستم یہ ہوتا ہے کہ بات بار بار کی جائے گی اس لئے ہمیشہ کے لئے قطع تعلق بھی کر لیا جاتا ہے٬ یہ نادان نہیں سمجھ سکتے کہ بروزِ قیامت یہ دنیاوی چند ٹکے کتنے بھاری ہوں گے٬ اسی طرح جاوید کی آنکھوں پر پڑی حرِص ولالچ کی دبیز چادر نے اُسے اندھا کر دیا تھا٬ چند دنوں بعد ماں کو بہانے سے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ چند دن بعد آکر لے جاؤں گا٬

لیکن اُسے دوبارہ آنا نصیب نہ ہوا٬ جائیداد کے ساتھ ساتھ دوکانیں پلاٹس جو ہاتھ لگا بیچ کر بیوی بچوں کے ساتھ کہاں جا بسا کسی کو کچھ پتہ نہ چل سکا٬ اور وہ ماں جو منتوں مُرادوں اور دعاؤں سے لیے گئے بیٹے کو اپنے بُڑہاپے کا آسرا اور سہارا سمجھ بیٹھی تھی٬ اور بیٹیوں کو بوجھ آج وہی اُن بیٹیوں کے در پے پڑی ہے جِن کے فرائض سے آنکھیں چُرا کر بیٹے کو مُرغِ ِ مُسّلم اور راتوں کو چھپا چھپا کر دودھ جلیبیاں کھلاتی رہیں٬ اور وہی بیٹا جھوٹ بول کر اور دھوکہ دہی سے ہمیشہ کیلیے ماں کو بُڑھاپے میں دردر ٹھوکریں کھانے کے لیۓ اکیلا چھوڑ گیا٬ یہ کہانی نہیں ہمارےمعاشرے کا وہ رِستا ہوا ناسور ہے٬ جو رگوں میں پھیلتا قریبی رشتوں کا خون سفید ہوتے دِکھا رہا ہے٬

Parent

Parent

بیجا حمایت لاڈ پیار اور اکھڑ پن کی وجہ سے بیٹے سمجھدار نہیں بلکہ ہٹ دھرم اور اپنے فرائض سے کوسوں دور ہو جاتے ہیں والدین کو چاہیے کہ اپنے بیٹوں کو اچھی تربیت سے فرماں بردار بیٹا مُحافظ بھائی اور اچھّا شوہر اور ایک مہذب شہری بنائے ورنہ بیگم خورشید کی طرح لاکھوں کروڑوں مائیں منتوں سے مانگے بیٹوں کی ہر ناجائز خواہش پوری کرنے کا خمیازہ یونہی بھگتیں گی٬ ایسی شیطانی سوچ رکھنے والے بیٹوں نے کبھی سوچا کہ مُکافاتِ عمل کا سامنا جب وہ خود کریں گے٬ تو وہ آنسو جو اُن کی کوتاہیوں سے ماں کی آنکھ سے نکلے ٬ جب اُن کی اپنی آنکھوں سے ندامت کے آنسو رواں ہوں گے تو معافی کے لیےکس در پر جائیں گے کیونکہ وہ ماں جس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی وہ شائد اب دنیا میں موجود نہ ہو٬ اور اب کبھی وہ اپنی اس گمشدہ جنت کو نہیں پائے گا کہ جس سے معافی مانگ کر دلی اور ذہنی سکون حاصل کر سکے

تحریر :انیلہ احمد