مغرب کا یوم عاشقاں(Valentine Day) اور مغربی تقلید میں اندھی قوم، تاریخ و حقیقت اور شاید میری قوم کو شرم آجائے عصر حاضر میں عیسائیوں کاسب سے مشہور تہوار عید حب (Valentine Day) ہے جسے ہر سال چود ہ فروری کو مناتے ہیں اور اس سے انکا مقصد اس محبت کی تعبیر ہے جسے اپنے بت پرست دین میں حب الہی کا نام دیتے ہیں۔ یہ عید آج سے تقریبا 1700 سال قبل ایجاد کی گئی تھی ، یہ اس وقت کی بات ہے جب اہل روم میں بت پرستی کا دور دورہ تھا چنانچہ جب ان میں سے والنٹائن نامی راہب نے جو پہلے بت پرست تھا نصرانیت قبول کر لی تو اس وقت کی حکومت نے اسے قتل کر دیا۔
پھر جب بعد میں اہل روم نے نصرانیت قبول کر لی تو اسکے قتل کے دن کو شہید محبت کا تہوار بنا لیا اور آج تک یورپ و امریکا میں یہ عید منائی جارہی ہے تاکہ اس موقعہ سے دوستی و محبت کے جذبات کا اظہار ہو اور شادی شدہ جوڑے اور عشق و معاشقہ کرنے والے افراد اپنے عہد محبت کی تجدید کرلیں، اسطرح انکے یہاں معاشرتی اور تجارتی طور پر اس عید کو خاص اہتمام حاصل ہوگیا ہے۔ اصل میں انکے یہاں عید محبت تین تہواروں کا مجموعہ ہے ، یا یہ کہئے کہ اس موقعہ پر تین وہ مناسبتیں جمع ہیں جن کی وجہ سے یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ (1 ) انکے عقیدہ کے مطابق ہر میلادی سال چودہ فروری کی تاریخ ” یونو ” UNOنامی دیوی کا مقدس دن ہے ، یہ دیوی جسے یونانی معبودوں کی رانی اور عورت و شادی کی دیوی کہتے ہیں۔ (2) 15 فروری کا دن انکے عقیدہ کے مطابق لیسیوس دیوی کا مقدس دن ہے ، درحقیقت یہ ایک مادہ بھیڑیا سے عبارت ہے جس نے اہل روم کے عقیدہ کے مطابق شہر روما کو آباد کرنے والے دوشخصوں رومیولوس ” اور ” ریمولس ” کو دودھ پلایا تھا ، آج بھی روما میں انکے بڑے مجسمے نصب ہیں جسمیں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ گویا ایک مادہ بھیڑیا انہیں دودھ پلارہی ہے ، اس عید کا میلہ ” ال لیسوم ” نامی عبادت گاہ میں لگتا تھا جس کا معنی ہے ” عبادت گاہ محبت ” اس عبادت گاہ کو یہ نام اس لئے دیا گیا کہ مادہ بھیڑیا نے ان دونوں بچوں کو دودھ پلایا اور ان سے محبت کی تھی۔
Rahab Statue
(3 ) رومانی بادشاہ ” کلاو دیوس ” کو ایک بار جب لڑائی کیلئے تمام رومی مردوں کو فوج میں شامل کرنے میں مشکل پیش آئی اور اس نے غور کیا کہ اسکا اصل سبب یہ ہے کہ شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر لڑائی کیلئے نہیں جانا چاہتے تو انہیں شادی کرنے سے روک دیا ، لیکن والنٹائن نامی ایک راہب نے شہنشاہ روم کے حکم کی مخالفت کی اور چوری چھپے کنیسہ میں لوگوں کی شادیاں کرتا رہا ،جب بادشاہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے اسے گرفتارکر کے٤١فروری ٩٦٢ کو قتل کر دیا ، اس طرح کنیسہ نے مذکورہ بالا بھیڑیا لیسیوس کی پوجا کی جانے والی عید کو بدل کر والنٹائن نامی شہید راہب کے پوجا کی عید بنا دیا ، آج بھی یورپ کے شہروں میں اسکا مجسمہ نصب ہے۔
پھر بعد میں ٩٦٩١ کو کنیسہ نے راہب والنٹائن کی عید منانے کو غیر قانونی قرار دے دیا کیونکہ انکے خیال کے مطابق یہ میلے ایسی خرافات سے عبارت ہیں جو دین و اخلاق سے میل نہیں رکھتے ، اسکے باوجود آج بھی عام لوگ اس عید کو مناتے اور اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس عید کے موقعہ پر کیا ہوتا ہے : (1) مرد و عورت کے درمیان ایک خاص قسم کے کارڈ کا تبادلہ ہوتا ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے : (Be My Valentine ) ” میرے والنٹائن محبوب بنو” ۔ (2)مرد و عورت کے درمیان سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ ہوتا ہے ۔ (3) مردو عورت کے درمیان مٹھائیوں، خاص کر سرخ مٹھائیوں کا تبادلہ ہوتاہے ۔ (4) خدائے محبت “Cupid”کی تصویر بنائی جاتی ہے ، جو ایک بچے کی شکل ہے جسکے ہاتھ میں ایک کمان ہے جس سے وہ اپنی محبوبہ کے دل میں تیر پیوست کر رہا ہوتا ہے۔
یہ تو تھی تاریخی حقیقت ویلینٹائین ڈے کی کہ جس سے یورپ کی نوجوان نسل کی اکثریت آگاہ نہیں ہے ان کے لیے یہ دن صرف اپنی بیوی یا گرل فرینڈ کو اپنے پیار کا احساس دلانے کے لیے کسی طریقے سے اظہار کرنا ضروری ہے۔ خواہ شام کو کام سے واپسی پر سرخ گلابوں کا گلدستہ ہو یا کوئی پسندیدہ تحفہ اور یا پھر کسی اچھے سے ریسٹورنٹ پر ڈ نر ، فرانس میں بھی نوجوان لڑکے ، لڑکیاں اور شادی شدہ مردوخواتین کا ویلینٹائین ڈے منانے کا یہی طریقہ ہے۔ نہ ہی بازاروں میں کوئی رش ہوتا ہے نہ ہی کالج و یونیورسٹیوں میں چھٹی ہے اور نہ ہی کوئی شخص دفتر یا کارخانے سے چھٹی کرتا ہے۔ روز مرہ کے دنوں کی طرح کا ایک دن ہوتا ہے جس کی خصوصی اہمیت صرف ان لوگوں کے دلوںمیں ہوتی ہے۔ جنکا کوئی افیئرہوتا ہے کوئی گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ ہوتا ہے یا شادی شدہ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص پاکستان سے فرانس میںچودہ فر وری کو وزٹ پر آئے تو شاید حیرت اور شرم سے بیہوش ہو جائے کہ اسے کہیں بھی دیلینٹائین ڈے نظر نہیں آئے گا۔
Valentine Pakistan
ویلینٹائین ڈے کے دنوں میں پاکستانی ٹی وی چینل دیکھیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ویلنیٹائین ڈے یورپ والوں کا تہوار نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے رہنے والے لوگوں کا قومی دن ہے یا کوئی مذہبی تہوار، نجی ٹی وی چینل ہر چند منٹ کے بعد ویلینٹائین ڈے کے حوالے سے محبت کے پیغام نشر کر رہے ہیں ۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے ویلینٹائین ڈے کے حوالے سے انٹرویو کئے جا رہے ہیں۔ بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کو الیکٹرانک میڈ یا کے ذریعے براہ راست پیغامات دئیے جا رہے ہیں ۔ بازاروں اور مارکیٹوں میں ہر طرف ویلینٹائین ڈے کے بینرز ، اشتہارات ، غبارے اور قسم قسم کے کارڈز نظر آتے ہیں۔ یا خدایہ کیا ماجرا ہے۔ہم فرانس میں بیٹھے ہیں پیرس کی سڑکوں پر ڈرائیور کر رہے ہیں لیکن یہاں تو زندگی اپنے معمول پر ہے ہر شخص اپنے کام پر مگن ہے۔
گفٹ شاپس اور پھولوں کی دکانوں کو دیکھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ کوئی خاص دن ہے لیکن اپنے پیارے دیس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جو تصاویر ہمیں نجی چینل دکھا رہے ہیں اور اخبارات میں ملٹی نیشنل کمپنیاں جس طرح کے اخلاق باختہ اشتہارات دے رہی ہیں، جس طرح نئی نسل کے کچے ذہنوں کو پلاننگ کے ساتھ فحاشی اور گمراہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے ، کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے پاس اس کا تدارک کرنے یا قوم کو اس قباحت سے آگاہ کرنے کا وقت نہیں ہے۔
Valentine In Pakistan
پاکستان میں رمضان المبارک میں اشیائے خور د نوش کی قیمتیں آسمان تک پہنچانے والے منافع خور اور بے ایمان تاجر ویلینٹائین ڈے سے پہلے مختلف چیزوں پر ویلینٹائین سیل لگا دیتے ہیں اور بازاروں میں ویلینٹائین شاپنگ کا رش دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ کیا ہمارے اندر سے ایک خوددار اور اپنی معاشرت پر فخر کرنے والی قوم ہونے کا احساس ختم ہو چکا ہے،کیا ہمارے اند رجو اسلام کی روح تھی وہ بے جان ہو گئی ہے۔ کیا ہمارے اساتذہ، والدین اور علمائے کرام نے یہی تعلیم اور تربیت د ی تھی۔ اہل مغرب کی ہر وہ رسم جو بے راہ روی ، بیہودگی،فحاشی اور مادہ پرستی کو فروغ د یتی ہو ، آنکھیں بند کرکے ہم فورا اسکی تقلید میں چل پڑتے ہیں۔ خواہ وہ ہماری قومی حمیت پر سوالیہ نشان ہو ، یا ہماری معاشرت اور اسلامی روایات سے متصادم ہو۔
لیکن اہل مغرب کے اچھے اور درست اقدمات انکے عدل و انصاف کے معیار، قانون کی حکمرانی ، وقت کی پابندی ، ملک و قوم سے وفاداری اور سب سے بڑھ کر محنت اور صفائی جیسے اقدمات سے ہم دور بھاگتے ہیں اور اگر کوئی کہے کہ ہم لوگ ان اچھے کاموں میں اہل مغرب کی پیروی کیوں نہیں کرتے تو ڈ ھٹائی بھرا جواب ہوگا کہ ہم کیوں عیسائیوں اور یہودیوں کی پیروی کریں۔لیکن ویلینٹائین ڈے ہو یا سال نو کی بدمست تقریبات ہمارے لوگ اہل مغرب کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔قوم کے د رد میں صبح شام ٹی وی اسکرینوں پر گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے وا لے دانشورں اور خود ساختہ تجزیہ کاروں کو جانے کب احساس ہوگا کہ ہماری نئی نسل کو اجتماعی طور پر ناکارہ اور بے راہ رو کیا جارہا ہے اور کب وہ اس مسئلے کے لئے آواز اٹھائیں گے اور کب ان لغویات سے بچائو کے لیے عوام کی رہنمائی کریں گے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت ہماری نئی نسل کو تباہ کرنے اور بے راہ روی کی طرف دھکیلنے والی رسومات کے خلاف بھی کوئی د ھرنا اور ملین مارچ کرے گی، یا پھر د ھر نے ا ور ملین مارچ صرف لالچ اقتدار یاذ اتی نمود و نمائیش اور یا پھر بیرونی آقاں کے اشارے پر ہی کئے جاتے ہیں۔