خیبر ایجنسی (جیوڈیسک) پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں مقامی انتظامیہ نے منشیات کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود ایک عرصہ تک منشیات فروخت کرنے والوں کی آماج گاہ رہی ہے۔
پشاور شہر سے ملحق وزیر ڈھنڈ کے علاقے میں پہلے سینکڑوں دکانیں قائم تھیں جہاں چرس، افیون، شراب اور ہیروئن کی کھلے عام خرید و فروخت کے علاوہ اس کی دوسرے شہروں کو سمگلنگ بھی ہوتی تھی۔
تاہم مقامی انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں اس مارکیٹ میں منشیات کی چار سے زائد دکانوں کو بند کردیا ہے۔ یہ علاقہ پشاور شہر کی حدود سے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے۔
جمرود تحصیل کے وزیر ڈھنڈ علاقے کے ایک دکاندار محمد امین تین سال پہلے تک اپنی دکان میں ہر قسم کی منشیات فروخت کرتے تھے لیکن اب انھوں نے اسے ایک جنرل سٹور میں تبدیل کر دیا ہے۔
محمد امین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے منشیات کی فروخت پر پابندی سے اب یہاں کھلے عام منشیات فروخت نہیں ہو سکتی۔انھوں نے کہا کہ مقامی انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں منشیات فروشوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائیاں کیں ہیں۔
ان کے مطابق علاقے کے زیادہ تر دکانداروں نے چرس اور افیون کے کاروبار کو بند کر دیا ہے۔ ’پہلے حکومت کی جانب سے اتنی سختیاں نہیں تھیں لیکن اب تو ایک تولہ چرس برآمد ہونے پر جرمانے کے علاوہ دکان بھی سیل کی جاتی ہے اور جیل بھی جانا پڑتا ہے۔‘
فاٹا میں منشیات کی خرید و فروخت اور اس کے استعمال پر ابتدا ہی سے کوئی پابندی نہیں رہی ہے۔ اب بھی ملک کے زیادہ تر قبائلی علاقوں میں بھنگ کی فصل کاشت کی جاتی ہے جس سے چرس بنتی ہے۔ ان علاقوں میں اورکزئی اور خیبر ایجنسیاں قابل ذکر ہیں۔
چرس کا کاروبار کرنے والے بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر منشیات افغانستان سے سمگل ہوکر آتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 90 فیصد افیون اور ہیروئن سرحد پار سے آتی ہے اور پھر فاٹا کے مختلف علاقوں سے ہو کر یہ ملک کے دیگر شہروں اور بیرونی ممالک سمگل ہوتی ہے۔
لیکن اب کچھ عرصہ سے فاٹا کے حالات بدل رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ کی بحالی کے بعد اب منشیات فروشوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ جمرود کے تحصیلدار عصمت اللہ وزیر کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ نے ان علاقوں میں نگرانی کا عمل تیز کردیا ہے جہاں لوگ چوری چھپے منشیات کا کاروبار کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جن علاقوں میں منشیات کی دکانوں کو بند کیا گیا ہے وہاں تمام دکانداروں سے تحریری طور پر باقاعدہ ضمانت لی گئی ہے کہ وہ پھر منشیات کا کاروبار نہیں کریں گے۔
عصمت اللہ وزیر نے کہا کہ خلاف ورزی کرنے پر دکان کو گرانے اور بھاری جرمانے کے علاوہ جیل کی سزا بھی دی جاتی ہے۔
سرکاری اہلکار نے تسلیم کیا کہ پہلے فاٹا میں پہلے منشیات کا کھلے عام کاروبار ہوتا تھا لیکن اب حالات میں کافی حد تک تبدیلی آ رہی ہے۔