خیبر ایجنسی (جیوڈیسک) پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے مطابق ملک کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں پاک افغان سرحد سے متصل وادی راجگُل میں شروع کیے جانے والے آپریشن میں 14 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی نے آئی آیس پی آر کے حوالے سے بتایا کہ زمینی اور فضائی کارروائی میں 11 شدت پسند زخمی بھی ہوئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فضائی اور زمینی کارروائی میں شدت پسندوں کے اہم ٹھکانوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور دروں کی گذرگاہیں تباہ کی ہیں جبکہ شدت پسندوں کے نو ٹھکانوں کو فضائی حملوں اور زمینی آپریشن کے دوران تباہ کیا گیا ہے۔
اس سے قبل منگل کی صبح پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کا کہنا تھا کہ ملک کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں تیراہ کی وادی راجگل میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
ٹوئٹر پر شائع کیے جانے والے پیغام کے مطابق اس آپریشن کا مقصد خیبر ایجنسی کے بلند و بالا پہاڑی علاقوں اور ہر موسم میں استعمال ہونے والے دروں میں شدت پسندوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنا ہے۔
پیغام میں بتایا گیا ہے کہ اس آپریشن کے دوران خیبر ایجنسی میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں تعینات فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنائے جانے والے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔
اس کمیٹی کی سربراہی قومی سلامتی کے امور کے لیے وزیرِ اعظم کے مشیر جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ کو سونپی گئی ہے۔ اس اجلاس میں سول آرمڈ فورسز کے مزید 29 ونگز کی تشکیل کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ سرحدی انتظام اور ملک میں سکیورٹی کی داخلی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔
گذشتہ ہفتے کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں ہونے والے خودکش حملے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی جانی نقصان کے بعد فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ملک بھر میں ’کومبنگ آپریشن‘ کا حکم دیا تھا جس کے بعد قبائلی علاقوں سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں شروع کی گئی ہیں۔
ان کارروائیوں کے دوران 12 اگست کو خیبر ایجنسی ہی کے علاقے شاہ کس میں ایک کارروائی میں مبینہ طور پر سرحد پار سے آئے چار خودکش حملہ آوروں کو بارود سے بھری پانچ جیکٹوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔
خیبر ایجنسی سے ہمارے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق یہ دشوار گزار سرحدی علاقہ ہے جس کا بڑا حصہ گھنے جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس کی سرحد افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ملتی ہے۔ اس علاقے میں کوکی خیل قبائلی آباد ہیں۔
اس دور افتادہ علاقے میں کئی شدت پسند تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں جن میں لشکرِ اسلام، تحریکِ طالبان پاکستان اور دوسری تنظیمیں شامل ہیں جن کے ارکان علاقے کے جغرافیے سے فائدہ اٹھا کر آسانی سے سرحد کے پار آتے جاتے رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ آرمی پبلک سکول حملے کے بعد فوج نے فروری 2015 خیبر ایجنسی میں خیبر ٹو کے نام سے فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ یہ آپریشن سرحدی علاقوں وادی تیراہ اور دیگر ان علاقوں میں کیا گیا جہاں پہلے سکیورٹی فورسز کی کوئی عمل داری نہیں تھی۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق اس آپریشن کے نتیجے میں کالعدم تنظیموں لشکر اسلام اور تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کو علاقے سے نکال کر افغانستان کی جانب دھکیل دیا گیا۔
وادیِ تیراہ اونچے پہاڑی سلسلوں اور دشوار گزار دروں پر مشتمل ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ کارروائیوں کے دوران ان اہم مقامات پر بھی قبضہ کر لیا گیا جہاں پہلے اکثر اوقات مشکل آنے کی صورت میں شدت پسند سرحد پار کر کے دوسرے علاقوں میں فرار ہوجایا کرتے تھے۔
آپریشن خیبر ٹو کے دوران 50 کے قریب سکیورٹی اہلکار ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ آپریشن جولائی 2015 میں کامیابی کے اعلان کے ساتھ ختم کر دیا گیا تھا، تاہم میڈیا کو اس علاقے تک آزادانہ رسائی نہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ سکیورٹی فورسز اپنے اہداف حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہیں۔