خیبر سے بولان تک

Khyber-Bolan

Khyber-Bolan

تحریر : شکیل مومند
قبائلی پٹی کے حوالے سے قدیم تاریخ کے محدود شواہد موجود ہے جسکے مطابق دیگر بہت سے فاتحین یا تو یہاں سے گزرے ہیں یا پھر اس علاقے کو اپنے زیر تسلط رکھ چکے ہیں۔ ان میں 500ء قبل مسیح کے آرین سے لیکر مارین 222 — 313قبل مسیح اور 97قبل مسیح نے ساکا،کشانوں، ساسانیوں، ہنوں اور ترکوں کا تذکرہ ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ آفریدیوں کو یونانیوں کی کڑی سمجھا جاتا ہے غزنوی اور غوریوں کے دور میں اسلام لاہور سے دہلی تک اپنی دستریں قائم کرچکا تھا جبکہ قبائلوں علاقوں میں اسلام کی آمد اس سے بھی قبل بیان کی جاتی ہے۔ قبائلیوں نے ہندوستان میں اسلام کی ترویج اور فتوحات کیلئے ہمیشہ ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن بہت کم مواقع ایسے ہیں کہ قبائلیوں نے کسی شہنشائیت کی مکمل اطاعت قبول کی ہوںحتیٰ کہ مغل سلطنت کے بانی شہنشاہ بابر نے ہی تصدیق کی ہے کہ لودھی حکمران جو بائوجود اسکے خود افغان پشتون قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ قبائلی علاقوں پر اپنا تسلط قائم نہ رکھ سکے۔

شہنشاہ بابر نے خود مختلف قبائل کے ناموں اور خصوصیات کا تذکرہ کیا 1848ء میں جب انگریزوں نے پنجاب فتح کرلیا تو چترال اور بلوچستان کے درمیان پٹھانوں کے سخت گیر قبائل سے اُن کا واسطہ پڑاجو سکھوں اور عیسائیوں کے سامنے سخت مزاحمت کرچکے تھے امیر افغانستان سکھ اور انگریز تینوں خطوں کے پہاڑوں پر اپنا تسلط چاہتے تھے۔ روسی غزائم کے خلاف انگریزوں نے حفاظت کیلئے خیبر، کرم ، بولان کے دروں پر کنٹرول حاصل کیا۔ لیکن وہ اس قبضے کو برقرار نہ رکھ سکے انگریزی افواج میدانی اضلاع کا مناسب دفاع تو کرہی لیتی تھی۔ لیکن پہاڑی علاقوں میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس سے ہلاکتوں اور اشیاء کی فراہمی کے خرچے اور قبائلیوں کے مزاحمت میں اضافہ ہوجاتا ہے کئی ہزار نفوس پر مشتمل دستہ زیادہ سے زیادہ ایک خالی قلعے یا کسی غیر آباد گائوں کو ہی تباہ وبرباد کر پاتا۔

پہاڑی قبیلوں کو مکمل آزادی تھی کہ وہ اپنی آزادی برقرا رکھے۔ دروں کو کھلا رکھنے کیلئے انگریزوں نے جو پیچیدہ طریقہ اختیار کیا وہ مغلیوں کے طریقے سے مشابہت رکھتا تھا۔ یقنی رعائتیں دینا۔ قبیلوں کو آپس میں لڑانا ، مستقبل میں درست رویے کی ضمانت کیلئے گرفتاریاں افغانستان اور اُسکے ملحقہ قبائلی علاقے کئی بادشاہتوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ جس میں برطانیہ ،روس،جرمنی اور ایران شامل ہیں۔ شروع میں ہندکی برطانوی سرکار شمال مغربی سرحدی علاقے کیلئے کوئی مربوط اور واضح پالیسی ترتیب نہ دے سکیں۔

Quaid e Azam

Quaid e Azam

جارحیت سے لیکر لاتعلقی تک مختلف مواقع پر مختلف پالیسیاں اپنائی گئی جن میں سوچی سمجھی لاپرواہی،مشاورتی اور پرُامن مداخلت سرحدوں کی بندش پالیسیاں شامل ہیں۔ تاہم آہستہ آہستہ برطانوی حکومت نے اس بات کو اچھی طرح محسوس کرلیا کہ نیم جارحانہ پالیسی یعنی پُر امن اور غیر محسوس طور پر آہستہ تسلط ہی انکی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کرسکتا ہے۔ 1922ء میں انگریزوں نے سرحد کیلئے اپنی ایک سوسالہ پالیسی کا خلاصہ یوں بیان کیا کہ ہماری سرحد کا پالیسی طویل المیعاد مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کو محفوظ بنایا جائے۔ اس کا فوری اور مختصر مقصد سرحدی اضلاع میں جان ومال کی تحفظ کیلئے قبائلی علاقوں کو قابو میں رکھنا ہے۔

پاکستان 14اگست 1947ء کو عمل میں آیا پاکستان نے مشرقی بنگال مغربی پنجاب ،سندھ ،شمال مغربی سرحدی صوبہ ،ریاست قلات موجودہ بلوچستان اور آزاد قبائل یعنی فاٹا شامل ہیں۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 15جنوری1948ء کو لنڈی کوتل میں ایک قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے قبائلی جوانوں کی کشمیر سے واپسی کی درخواست کی قائداعظم محمد علی جناح نے پشاور میں200قبائلی ملکوں کو ایک جرگے کی صدارت کی جنہوں نے مسٹر جناح سے درخواست کی کہ قبائلی علاقوں کو مرکزی حکومت کے براہ راست نگرانی میں رکھا جائے یہ درخواست منظور کی گئی۔ اور 4جولائی 1948کو مسٹر جناح نے ریاستوں اور سرحدی علاقوں کی وزارت بنائی اور ذاتی طور پر اس کا چارج سنبھالا۔ بانی پاکستان نے گورنر جنرل آف پاکستان کے حیثیت سے قبائل کو واضح یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کے ساتھ شمولیت کے بدلے قبائل کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائیگی۔

تمام قبائل کے ساتھ معاہدے پر دستخط 22 نومبر 1948ء کے دوران قائداعظم کی ایماء پر انکے پولیٹیکل سیکرٹری مسٹر A.S.B.Shah نے کئے۔ معاہدوں پر دستخط کے طریقہ کار اور قبائل کی پاکستان کے ساتھ مسلسل وفاداری کے بدلے قبائل کے مختلف مفادات کا تحفظ اوردیگر معاملات طے کرنے کیلئے پولیٹیکل ایجنٹوں اور دوسرے اہم شخصیات نے مختلف سطحوں پر رابطے اور اجلاس منعقد کیے۔ مثال کے طور پر خیبر میں 12سے 15جنوری 1948اور 10مئی 1953ء کے دوران این اے فاروقی نے کاغذات پر دستخط کئے۔ کرم ایجنسی میں 15نومبر سے 21دسمبر تک پاکستان کے ساتھ الحاق اور پاکستان کی مفادات پر مشتمل معاہدات اور دستاویزات تیار کی گئیں۔ اور A.S.B.Shahنے ان معاہدات پر دستخط کئے۔

Shakeel Momand

Shakeel Momand

تحریر : شکیل مومند