تحریر : وقار احمد اعوان ایک طرف ملکی حالات دگرگوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں تو دوسری جانب احتجاج اور دھرنے اپنے زوروں پر ہیں، جیسے اپنے جائز یا ناجائز مطالبات منوانے کے لئے کسی بھی قومی شاہراہ کو بند کر کے دیا جائے یاپھر احتجاج کر کے قوم کے قیمتی وقت کو ضائع کیا جائے، بہرکیف احتجاج یاپھراپنے حق کیلئے پرامن آوازاٹھانا کسی بھی ریاستی باشندے کابنیادی حق ہے،جسے دبانا یا ان کے ساتھ زیادتی کرکے انہیں دیوارسے لگانا ملک وقوم سے غداری کے مترادف مانا جاتاہے،لیکن جیسا ہم ذکر کرچکے کہ بعض احتجاجوں میںچند ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے مطالبات بروقت پورے نہ کئے جائیں تو آنے والے وقتوں میںاس کا خمیازہ ضروربالضرورقوم کوبراہ راست بھگتنا پڑتا ہے، یہاںچند باتیں پہلے عرض کردوںکہ قومی اداروں میںناقص پالیسیاں بھی قومی خزانے اورعوام کے وقت کے ضیاع کے اسباب ہیں،جیسے بعض پالیسیاں کچھ اس انداز سے بنائی جاتی ہیںکہ جن سے قوم کویکجا کرنے کی بجائے ان میںدراڑ پیداکرنے کی ایک ناکام سازش کی بو آرہی ہوتی ہے۔
کچھ ایسی ہی پالیسیاں ہمارے صوبہ میںدیکھنے کومل رہی ہیں،مثال کے طورپر کسی ایک ادارے کے اہلکاروںنے احتجاج یا ہڑتالوںکا راستہ اپنایا تو ان کی مانگیں پوری کرکے ایک ہی گریڈ یا سکیل میں اپنے فرائض سرانجام دینے والے حکومتی اہلکاروں میںواضح فرق پیداکردیاجاتاہے،جیسے گزشتہ 28دسمبر 2017 سے محکمہ تعلیم کے مینجمنٹ کیڈرافسران قلم چھوڑ ہڑتال پرہیں،ان کی مانگیں جائز کہاں تک ہیں؟ذراملاحظہ کیجیے ،یادرہے کہ محکمہ تعلیم کے مینجمنٹ کیڈرافسران کی تقرری صوبہ بھر کے پرائمری سکول میںچیک اینڈبیلنس کے لئے کی جاتی ہے،ان کی ذمہ داریوں میںسکول کے انتظامیہ امور،اساتذہ کی حاضری،شرح خواندگی کو بڑھانا،گھوسٹ سکولوںکی آبادکاری وغیرہ شامل ہیں،کہ جنہیں مذکورہ کیڈرافسران احسن طریقہ سے انجام دے رہے تھے،لیکن صوبائی حکومت نے بجائے ان کے جائز مطالبات تسلیم کرنے انہیں یکسردیوار کے ساتھ لگا دیا،ساتھ ان کے ہوتے ہوئے صوبہ بھرمیں (IMU)قائم کرکے انہیں ”ممنون حسین”بنادیا،یہاںیہ ذکر کرتا چلوں کہ مذکورہ کیڈرافسران باقاعدہ پبلک سروس کمیشن کے ایک طریقہ کار کے ذریعے بھرتی کئے گئے ہیں،جبکہ (IMU) کی تقرری صرف این ٹی ایس جیسے ادارے کے ذریعے عمل میںلائی گئی کہ جس کے ڈائریکٹر ،نیب میں اپنی صفائیاں پیش کرتے پھررہے ہیں۔
اس پرظلم کہ صوبہ بھرمیں میٹرک یا ایف اے پاس کلرکوں کو اپ گریڈ یاپروموٹ کرکے انہیں گریڈ سترہ دے دیاگیا،جبکہ مذکورہ کیڈرافسران محکمہ قانون،فنانس سے بل منظوری کے باوجود بھی اپ گریڈیشن اورپروموشن سے محروم ہیں،ماناکہ ”آوے کا آواہی بگڑاہے”مگر اتنی”اندھیر نگری یا چوپٹ راج ”بھی نہیں کہ آنکھ بندکرکے سب کچھ آرام سے برداشت کرلیاجائے،جہاںترقی یافتہ ممالک میں ایک پرامن احتجاج یا قلم چھوڑہڑتال کسی بھی سیاسی حکومت کی بنیادیں ہلا کررکھ دیتی ہے،وہاںملک خداداد میںکئی کئی روز اوربعض اوقات تومہینوں چلنے والے احتجاج یاہڑتال کوئی معنی نہیںرکھتے،کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے نزدیک سرکاری ملازم قومی خزانے پر ایک بوجھ سے کم نہیں،ان کا بس چلے تو اس حدتک جائیں کہ قومی اداروں کوبیچ کھاکرقوم کے مستقبل کا بیڑہ غرق کردیں۔بہرکیف بات ہوچلی تھی محکمہ تعلیم کے کیڈر افسران کی جوگزشتہ ایک ہفتہ سے قلم چھوڑ ہڑتال پر مجبورہیں،کہ جس براہ راست اثرمحکمہ تعلیم کے دفتری امورپر پڑے گا۔مذکورہ کیڈرافسران کی قلم چھوڑ ہڑتال سے قوم کے معماروں کے چھوٹے موٹے کام دنوں کی بجائے ہفتوں تک چلے جائیںگے،اورپھر مجبوراً صوبائی حکومت کو ان کے جائز مطالبات ماننا پڑیںگے۔توکیوں قبل اس سے ان کے جائز اوردیرینہ مطالبات پورے نہیںکئے جاتے۔
یا پھر یوں کہیے کہ ہرانسان کو آئینے میںاپنا آپ دکھائی دیتاہے،کیاہم اتنے نالائق ،ناسمجھ اور نہ جانے کیا کیا ہیں؟کہ قومی اداروں کے لئے موثر اوردیرپا پالیسیاں بنانے سے قاصرہیں۔کیاہمارے ہاںپڑھے لکھے اورسمجھ داروں کی کمی ہے یاپھر یوںکہیے کہ ہم خود قومی اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھنا نہیںچاہتے۔خیرچھوڑیے جب انسان خود کسی گرداب میںپھنستا ہے،تب جاکر اسے اپنی اوقات اوراپنی حیثیت معلوم ہوجاتی ہے،یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیںکیونکہ ہمارے ہاں اس قسم کے کارنامے ہرروز دیکھنے کومل جاتے ہیں۔لیکن ان باتوں سے بھی ہرگز منہ نہیںموڑ اجاسکتا کہ جلدبازی یاپھر اپنی ”جے جے کار”کرنے کے لئے اپ گریڈیشن یاپروموشن کردی جائے۔اس کے لئے تو باقاعدہ بلیک اینڈوائٹ میںکاغذی کاروائی ہونی چاہیے،باقاعدہ آئن لائن سسٹم کے ذریعے ہر حکومتی اہلکا رکومعلوم ہونا چاہیے کہ اس کی ذمہ داریاں کیاکیا ہیں؟او ر اس کا مستقبل کیا ہے؟کہ جس کو سامنے رکھتے ہوئے ہر نیا آنے والا سرکاری ملازم حکومتی ذمہ داریوں کو قومی فریضہ سمجھ کر انجام دے سکے۔بصورت دیگر حکومتی اہلکار کبھی ایک تو کبھی دوسرے ادارے میں اپنا محفوظ مستقبل تلاش کرتاپھرے گا۔
اسے معلوم ہونا چاہیے کہ فلاں ادارے میں تقرری ،اپ گریڈیشن اورپروموشن کن کن مراحل سے ہوکر گزرے گی۔ورنہ تو مذکورہ صورتحال دیکھنے کو ہرروز ملتی رہے گی اوریوں ہڑتالوں ،احتجاج وغیرہ معمول بن جائیںگے۔کہ جس کا براہ راست اثر قومی خزانے اورقوم کے وقت پڑے گا۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ صوبائی حکومت عرصہ سے پڑی محکمہ تعلیم کے کیڈر افسران کی فائل جلدازجلد صوبائی اسمبلی میںلائے،تاکہ مذکورہ افسران سکھ کا سانس لے سکیں اورمعاشرہ میںانہیں ان کا جائز مقام مل سکے،کیونکہ یہ باتیں اذکار رفتہ ہوچکی کہ آپ اس جدید اور ترقی یافتہ دور میںکسی کی آواز کودبا جاسکے گا۔محکمہ تعلیم کے کیڈر افسران کی آواز پر صوبہ بھر میں کام والی اساتذہ برادری بھی لبیک کہہ چکی ہے۔یوں جیسا ان کی قلم چھوڑ ہڑتال سے دفتری امور ٹھپ ہوکر رہ جائیںگے،وہاں دوسری جانب مستقبل میں سکولوںکی تالہ بندی کابھی خدشہ ہے۔اس لئے ”چڑیوں کے کھیت چگ جانے” سے پہلے ہی مثبت اقدامات کی اشدضرورت ہے، ورنہ ”بلی کو تھیلے سے نکلنے ”ذرا بھی دیر نہیں ہو گی۔