تحریر : پروفیسر رفعت مظہر یوں تو بوستانِ سیاست کے سبھی ”باغباں”ہمہ وقت سہانے سپنوںکی دوکانداری ہی چمکاتے رہتے ہیںلیکن ایک باغباںنے توخوابوںکا ایسا الف لیلوی گلستاں سجایاکہ قعرِ مذلت میںگھری قوم نے سمجھا، یہ تووہی مسیحاہے جوکوہِ الم کی تسخیرکے لیے آسمانوںسے اتراہے ۔تب دامانِ الفت وا ہوئے اوروطنِ عزیز کی فضائیںلبیک لبیک کی صداؤںسے گونج اُٹھیں۔ لکھاریوںکے قلم متحرک ہوئے اور مدح سرائی کے سارے ریکارڈٹوٹ گئے۔ اُس ”مسیحا”کی باتوںپریقین کایہ عالم کہ ایک مدح سرانے تویہاںتک لکھ دیا”نوازشریف اورزرداری توکیاقومیںجب عزم اورولولے کے ساتھ اُٹھیں تونمرود وفرعون بھی ہارگئے ۔روااور نارواکی تفریق سے بے نیازمحترم لکھاری نے محترم میاںنوازشریف اورمحترم آصف زرداری کااستعارہ باندھابھی توکِس سے ۔۔۔۔ نمرود وفرعون سے۔
آجکل وہی لکھاری ایک نیوزچینل پربیٹھ کرقوم کو”درسِ بیداری” دیتے ہوئے متواتر فرماتے رہتے ہیںکہ کپتان کوتو سیاست کی الف بے بھی نہیںآتی (پیپلزپارٹی کے پچھلے دَورِحکومت میںیہی لکھاری محترم آصف زرداری کے بارے میںکہاکرتے تھے کہ جوشخص ”کونسلر”بننے کی اہلیت نہیںرکھتا ، اُسے ہم نے صدرِ مملکت بنادیا۔ محترم لکھاری کے ”کالمی درویش ”زرداری حکومت کے خاتمے اورمِڈ ٹرم الیکشن کی تاریخ پہ تاریخ دیتے رہے لیکن پیپلز پارٹی نے اپنی مدت پوری کی اورآصف زرداری صاحب نے بھی)۔ ہم سمجھتے ہیںکہ کپتان صاحب اب بھی ملک وقوم کااثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ انتھک ہیں اورچمن زارِ دہرمیں وہی کامران ٹھہرتاہے جوانتھک اورراہِ عمل پہ گامزن ہو۔
خالقِ کائینات کافرمان ہے ”اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کونہیں بدلتاجب تک وہ خوداپنے آپ کونہیں بدلتی”۔ کپتان صاحب کی انتھک سعی کسی شک وشبے سے بالاتر لیکن یہ تبھی بارآور ہوسکتی ہے جب وہ اپنالہجہ درست اوراندازِ سخن بدل لیں،ضِد، ہٹ دھرمی اورنرگسیت کو جھٹک دیںلیکن عریاںحقیقت یہی ہے کہ خاںصاحب کی فطرت جس سانچے میںڈھل چکی ہے ، اُس کومدِنظر رکھتے ہوئے وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ ایساہونا ممکن نہیں۔ کپتان صاحب کی ساری تگ ودَوکا محورومرکز اقتدارکی سب سے اونچی ”مسند”ہے اور یہ اسی ہوسِ اقتدارکا شاخسانہ ہے کہ خاںصاحب کے دیوانوں ،پروانوں ،مستانوںکے خوابوںکا گلستاںاُجڑ کے رہ گیااور اب حالت یہ کہ بَر مزارِ ما غریباں نَے چراغے نَے گُلے نے پَرِ پروانہ سوزد نے سراید بلبلے
Imran Khan
بتقاضۂ عقل ،خاںصاحب کوچاہیے تویہ تھاکہ جوکچھ ملااُسی پرقناعت کرتے ہوئے اپنی تمامتر توانائیاں خیبرپختونخوا کوماڈل صوبہ بنانے میںصرف کردیتے لیکن اُنہوںنے احتجاج کاراستہ اپنایاجو اُن کے لیے بہترثابت ہوا نہ تحریکِ انصاف کے لیے اورنہ ہی ملک وقوم کے لیے ۔آج اُن کی حکومت ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے اورپارٹی میںواضح انتشار ۔30 مئی کوہونے والے بلدیاتی انتخابات نے جونہاں تھاوہ بھی عیاںکر دیا۔ خیبرپختونخواکے بلدیاتی انتخابات کواِس لحاظ سے خونی کہاجا سکتاہے کہ یہ اب تک سترہ افرادکی جانیںلے چکے ہیں۔19 اضلاع میںتشددکے 100 سے زائد واقعات ہوئے ،پورے صوبے میںہر جگہ انارکی ہی انارکی دکھائی دی اورشایدہی کوئی پولنگ سٹیشن ایسابچا ہوجہاں پُرتشدد واقعات نہ ہوئے ہوں۔
اکثر پولنگ سٹیشنوںپر وقفے وقفے سے پولنگ رکتی رہی ،چارسدہ میںاُمیدوار قتل ہوا ،ڈیرہ اسماعیل خاںمیں بیلٹ بکس جلائے گئے ،زنخے عورتیں بن کرووٹ ڈالتے رہے ،پولیس ٹھپے لگاتی رہی اورووٹر سرِعام مہریں لگاکر ووٹ کاتقدس پامال کرتے رہے ۔ تحریکِ انصاف کے ایک وزیرباتدبیر توبیلٹ بکس ہی اٹھاکر بھاگ گئے ،ہتھکڑی تواُس وزیرکو لگنی چاہیے تھی لیکن لگ گئی انتہائی دیانتدار اور مرنجاںمرنج میاں افتخارحسین کو۔یہ سب کچھ الیکٹرانک میڈیاکے کیمروںنے محفوظ کرلیا۔ تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی سمیت سبھی سیاسی جماعتوںنے اِن انتخابات کوبدترین دھاندلی کاشاہکار قراردیا۔ آصف زرداری صاحب نے کہا”قوم نے دھاندلی دیکھ لی ،عمران خاںکے خلاف ایکشن لیاجائے ”۔
الطاف حسین نے کہا”الیکشن کمیشن انتخابات کالعدم قراردے کرنئے انتخاب کروائے”۔ نوازلیگ نے کہا” نئے پاکستان کاخواب دکھانے والے کے پی کے میںعملی طورپر ناکام رہے اورملکی تاریخ کی بدترین دھاندلی دیکھنے میںآئی”۔ فیئراینڈ فری الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی رپورٹ ہے کہ ”بلدیاتی انتخابات میں 26 فیصد دھاندلی ہوئی ۔ عام انتخابات کی نسبت زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے نکلے لیکن بے قاعدگیوں ،ناقص انتظامات ،پرتشدد واقعات اوردھاندلی کی وجہ سے ٹَرن آؤٹ بہت کم رہا ۔ لیکن خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک نے کہاکہ بلدیاتی الیکشن میںحلقہ چھوٹاہوتا ہے اِس لیے جس کازور چلتاہے ،وہ کرگزرتا ہے ۔گویا پرویزخٹک صاحب یہ کہناچاہتے ہیںکہ محتشم ہی کامیاب وکامران ،باقی سب بیکار۔
Pervez Khattak
خیبرپختونخواکے بلدیاتی انتخابات اِس لحاظ سے منفردتھے کہ یہ ”نئے خیبرپختونخوا” کے بلندبانگ دعووںکی گونج میںکروائے جارہے تھے لیکن 30 مئی کوسارا پول کھُل گیااور لوگ یہ کہنے پرمجبور ہوگئے کہ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دِل کا جو چیرا تو اِک قطرۂ خون نکلا دھاندلیوںاور الیکشن کمیشن کے مقررکردہ ضابطۂ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوںکے باوجودبھی محترم عمران خاںپریس کانفرنس میںاپنی حکومت کی ستائش میںمصروف رہے۔ وہ پُرجوش اندازمیں یہ کہہ رہے تھے کہ بلدیاتی انتخابات اُن کی حکومت کابہت بڑاکارنامہ ہے
(حالانکہ یہ بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کے حکم پرکروائے گئے) ۔ اُنہوںنے یہ بھی فرمایاکہ مسلم لیگ کی حکومت نے چھ ،چھ باریاں لینے کے باوجود ایک مرتبہ بھی بلدیاتی انتخابات نہیںکروائے ۔حقیقت یہ ہے کہ نوازلیگ نے اپنی حکومت کے اِن ادوارمیں تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات کروائے لیکن یہ نہ توخونی تھے اورنہ ہی دھاندلی زدہ۔ اگرانتخاب اسی کانام ہے جس کانظارہ قوم نے خیبرپختونخوا میںکیا توایسے انتخاب سے مفرہی بہتر۔ محترم خاںصاحب اوروزیرِاعلیٰ پرویزخٹک صاحب یک زبان ہیںکہ جس کوکوئی اعتراض ہے وہ الیکشن کمیشن میںجائے۔
حیرت ہے گزشتہ دو سال سے غیرجانبدار تجزیہ نگاروںکے حلق یہی کہتے کہتے خشک ہوگئے کہ اعتراضات کافورم صرف الیکشن کمیشن ہے لیکن پوری تحریکِ انصاف اِس پرکان دھرنے کوتیار نہیںتھی لیکن آج وہ خودبھی یہی کہہ رہے ہیں۔ کیااُس وقت تحریکِ انصاف غلط تھی یااب؟۔