خیبرپختونخوا میں پرانا تعلیمی نصاب بحال

Student

Student

پشاور (جیوڈیسک) خیبرپختونخوا حکومت نے اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں تبدیلی لانے کا عمل شروع کر دیا ہے جس کے دوران سابقہ حکومت کے دور میں شامل کیے گئے اسباق کو بھی نکالا جائے گا۔

متعلقہ حکام نے بتایا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں قوم پرستی کے احساس کو تشکیل دینے والے مضامین کو شامل کرکے اسلامی تاریخ اور ثقافت کے مثبت تاثرات والے اسباق کو درسی کتب سے نکال دیا گیا تھا۔

صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے ڈان کو بتایا کہ موجودہ درسی کتب کو سابقہ حکومت کے دور میں شائع کیا گیا تھا اور موجودہ حکومت کو اس کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب انہیں دوبارہ اسکولوں اور کالجوں میں متعارف کرایا گیا۔ انہوں نے کہا”موجودہ حکومت نے نصاب میں قوم پرستی سے متعلق مزید تفصیلات، اسلام اور نظریہ پاکستان کا نوے فیصد حصہ دوبارہ شامل کیا ہے”۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ اگلے سال سے طالبعلموں کو تبدیل شدہ نصاب کے تحت تعلیم دی جائے گی۔ مختلف حکومتیں اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق تدریسی کتب کے مواد میں تبدیلیاں لاتی رہی ہیں اور مشتاق غنی کا کہنا ہے”ہم کتابوں کو اس انداز میں ڈیزائن کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے مقامی ثقافت اور مذہب کی عکاسی ہو اور طالبعلموں کو درست راستے پر چلنے میں رہنمائی ملے”۔

محکمہ تعلیم کے ذرائع نے بتایا کہ اسکولوں اور کالجوں کی کتب میں سابقہ دور کی کچھ تبدیلیاں مذہب، جغرافیہ اور نظریہ پاکستان کی عکاس نہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں اپریل 2012 سے پڑھایا جانے والا نصاب بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں کی معاونت سے متعارف کرایا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کشمیر کو پاکستان کے نقشے سے نکال دیا گیا ، جبکہ کچھ اسباق میں تو اسے ہندوستان کا حصہ دکھایا گیا” مطالعہ پاکستان کی چوتھی جماعت کی پرانی کتاب میں موجود پاکستانی نقشے کو ایک اور نقشے سے تبدیل کردیا گیا جس میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہیں دکھایا گیا، اسی کتاب کے صفحہ نمبر نو میں کشمیر کو پاکستان کی بجائے ہندوستان کا حصہ دکھایا گیا، اسی طرح صفحہ نمبر چوبیس میں موجود پاکستانی نقشے سے بھی کشمیر غائب ہے”۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، خلفائے راشدین اور صوفی بزرگوں کے مضامین کو مقامی عالموں، شاعروں اور سیاستدانوں سے تبدیل کردیا گیا، اسی طرح قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر بھی پانچویں کلاس کی سوشل اسٹیڈیز کی کتاب سے ہٹا دی گئی۔

ذرائع کے مطابق مسلم اور ہندو تہذیبوں کے درمیان فرق اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نطریہ پاکستان کو ہٹا دیا گیا اور صفحہ 46 میں مسئلہ کشمیر کو رکھا گیا جہاں اسے گول مول انداز میں ہائی لائٹ کیا گیا۔

اسی طرح پانچویں کلاس کے طالبعلموں کے لیے کمیونزم، ہٹلر اور مسولینی کے عالمی تاریخ پر اثرات کو شامل کیا گیا، جبکہ مارکو پولو، ابن بطوطہ اور نیل آرمسٹرنگ پر مضامین کو بھی کتاب میں شامل کیا گیا۔

نہم جماعت کی سائنس کی پرانی کتاب میں آٹھ مسلم سائنسدانوں کی سوانح حیات تھی مگر سابقہ دور میں کی گئی تبدیلیوں میں ان کی تعدادتین کردی گئی، جبکہ تین پاکستانی سائنسدانوں کے نام بھی اس میں شامل نہیں کیے گئے اردو کی پہلے سال کی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر کوئی مضمون نہیں رکھا گیا، جبکہ علامہ اقبال کی نظمیں بھی غائب ہوگئیں۔

سب سے دلچسپ چیز یہ تھی کہ ایک ریڈر نامی ہینڈ بک میں سر آغا خان کو تحریک پاکستان کا سب سے عظیم رہنماءقرار دیا گیا۔ تھا کہ ان کتابوں میں مسلم ثقافت کی نمائندگی کرنے والی تصاویر درحقیقت دیگر تہذیبوں کی عکاس تھی یہاں تک کہ بالغ اور بچوں کے ملبوسات بھی مغربی دکھائے گئے۔

اس بارے میں جب خیبرپختونخوا کے شعبہ نصاب کے سربراہ بشیر حسین شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہیں نے بتایا کہ نصاب میں تبدیلیاں 2006 سے 2009 کی گئی تھیں اور پھر نئی درسی کتب اپریل 2012 میں متعارف کرائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کتابوں میں کچھ دفتری غلطیاں ہیں جنھیں درست کیا جارہا ہے ان کا کہنا تھا کہ پرانا مواد اگلے سال سے پھر سے نصاب کا حصہ بنایا جارہا ہے۔