تحریر: روشن خٹک صوبہ خیبر پختونخوا میں قائم گزشتہ چار سالہ پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں صوبے کے عوام میں مِلا جلا تائثر پایا جاتا ہے۔بعض کے نزدیک تبدیلی کی دعویدار جماعت اپنے دورِ حکومت میں کو ئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں لا سکی جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت مجموعی طور پر اور خصوصا بعض شعبہ جات میں گزشتہ حکومتوں کے مقابلہ میں نمایاں کارکردگی کی حامل رہی ۔مثلا پولیس اور صحت کے میدان میں ان کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔حقیقت بھی یہی ہے اوراگر ہم جانبداری اور پارٹی کی عینک اتار کر پی ٹی آئی حکومت کا جائزہ لیں تو ان کے بعض اقدامات کو سراہے بغیر چارہ نہیں،توصیف کی تعریف ایک کالم نویس کے فرائض کا حصہ ہے، بایں وجہ محکمہ پولیس میں موجودہ حکومت کی طرف سے کی گئی اصلاحات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔اِسی سال یعنی 2017میں خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے ایک بِل ” خیبر پختونخوا پولیس ایکٹ 2017 ” پاس کیا ہے۔جس میں پولیس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے،اسے غیر سیاسی بنانے ،اندرونِ محکمہ بہتر نظم و ضبط قائم کرنے اور عوام کو بہتر خدمات مہیا کرنے کے بڑی عرق ریزی کے ساتھ قانون سازی کی گئی ہے۔کالم ہذا کی تنگ دامنی پولیس ایکٹ 2017کا تفصیلی جائزہ پیش کرنے کی متحمل تو نہیں ہو سکتی مگر صرف اس کا ایک جز ” پبلک سیفٹی کمیشن ” جسے اس ایکٹ کا روحِ رواں کہا جاسکتا ہے، کا ذکر کروں گا۔
اس ایکٹ کے مطابق صوبائی اور ضلعی سطح پر ایک ایک ‘ پبلک سیفٹی کمیشن ” قائم کئے جائیں گے۔دونوں قسم کے کمیشن میں کل 13ارکان ہوں گے۔صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن میں چار ارکان صوبائی اسمبلی کے ممبران ہوں گے،جس میں دو حکومتی بنچ سے جبکہ دو کا چناوئ سپیکر اپوزیشن لیڈر کے مشورہ سے کرے گا ۔آٹھ ارکان بشمول ایک خاتون اور اقلیتی رکن کا انتخاب صوبائی سکروٹینی کمیٹی کرے گی۔
صوبے کے تمام اضلاع میں ” ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن ” کا نتخاب عمل میں لایا جائے گا۔جو کل 13ارکان پر مشتمل ہوگا۔ جس میں دو ارکان ڈسٹرکٹ اسمبلی کے حکومتی بنچ سے جبکہ دو ارکان اپوزیشن سے ہو نگے ۔باقی نو ارکان کا انتخاب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی صدارت میں قائم ایک سکروٹنی کمیٹی کرے گی۔ جس میں چار ارکان سِول سروس سے ریٹائرڈ گریڈ 19یا اس سے اوپر گریڈ کے افسران بشمول ایک آرمی آفیسر ہوں گے۔جبکہ پانچ ارکان کا انتخاب سیول سوسائٹی سے کیا جائے گا،جس میں ایک خاتون کا ہونا لازمی ہے۔سکروٹینی کمیٹی پر لازم ہو گا کہ وہ سِول سوسائٹی سے ایسے افراد کا انتخاب کرے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں اور وہ کسی سیاسی پارٹی کے متّحرک رکن نہ ہوں۔
ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن کے لئے باقاعدہ ایک سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا۔ جس میں وہ باقاعدگی کے ساتھ اجلاس منعقد کرے گی۔ پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لیا کرے گی اور اس کی رپورٹ اعلیٰ حکام تک بھیجی جائے گی۔ سماجی برا ئیوں کی نشان دہی کر کے پولیس کی توجہ اس طرف مبذول کرے گی۔پولیس کو کسی بھی اضافی حکومتی مدد کی ضرورت ہوگی تو اس کا جائزہ لے کر صوبائی حکومت کو اس کی سفارش کرے گی۔کمیشن کرائم کنٹرول کرنے میں پولیس کی ہر ممکن مدد بھی فراہم کرے گی۔پبلک سیفٹی کمیشن پولیس کے خلاف عوام کے شکایات سن سکے گی ۔اس کی باقاعدہ انکوائری کر کے رپورٹ اعلیٰ حکام تک بھیجی گی جو تیس دن کے اند ر کمیشن کے سفارش کردہ ایکشن پر عمل کرنے کی رپورٹ دے گی۔ کمیشن کا چیئرمین اپنے کسی بھی ممبر کو کسی تھانے کی انسپکشن کرنے یا تھانے میں بغیر کسی قانونی جواز کے محبوس شخص کو برآمد کرنے کے لئے مقرر کر سکے گی۔ گویا خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی کی قانون سازی کی تاریخ میں ”خیبر پختونخوا پولیس ایکٹ 2017” ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ کیونکہ یہ ایکٹ صوبے کی پو لیس کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے بشر طِ یہ کہ حکومت اس کے نفا ذ کو یقینی بنائے ،سیاسی اثر و رسوخ سے اسے دور رکھے۔ہمارے ہاں عموما یہ ہوتا ہے کہ قانون قلم و قرطاس کی زینت تو بن جاتا ہے مگر اس پر صحیح معنوں میں عمل در آمد کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔
مناسب ہو گا کہ خیبر پختونخوا میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت جتنا جلد ممکن ہو سکے، اس ایکٹ کو عملی جامہ پہناتے ہو ئے صوبائی اور ضلعی سطح پر مجوزہ ” پبلک سیفٹی کمیشن ” قائم کرے اور ان کو ممکنہ سہولتیں فراہم کر کے پولیس اور عوام دونوں کو مستفید ہونے کا موقع عطا فرمائے اگر ایسا ہوا تو یقینا اسے موجودہ حکومت کے دورِ حکومت میں ایک سنہرہ باب تصور کیا جائے گا۔۔۔۔