اسلام آباد (جیوڈیسک) خیبر پختونخوا حکومت نے روس کی کمپنی سے تیل ریفائنری کا معاہدہ کر لیا۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کہتے ہیں شہباز شریف کہتے تھے کے پی میں ایک یونٹ بجلی پیدا نہیں کی، ہم اس کا جواب دے رہیں، سستی اور ماحول دوست بجلی کی راہ میں یہ لوگ رکاوٹ ہیں۔
کے پی حکومت اور روسی کمپنی کے درمیان کوہاٹ میں 20 ہزار گیلن کی آئل ریفائنری لگانے کیلئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر دیئے گئے۔ دستخط کی تقریب سے خطاب میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے پاس 74 میگا واٹ پانی سے تیار ہونے والی بجلی کا منصوبہ تیار ہے مگر وفاقی حکومت این او سی نہیں دے رہی، حکومت جان بوجھ کر کوئلے اور فرنس آئل سے بجلی بنا رہی ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے، سیاسی مخالفین صوبائی محکمے کی کارکردگی پر خوامخوا سوال اٹھا رہے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اجازت کے بغیر جو من میں آئے کرتے ہیں لیکن وفاقی حکومت نے کے پی کا سستی بجلی کا منصوبہ این او سی کے نام پر روک رکھا ہے۔
وزیر اعلیٰ کے پی پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ روسی کمپنی بیس ہزار گیلن تیل صاف کرنے کا منصوبہ شروع کرے گی۔ پرویز خٹک نے بھی وفاقی حکومت پر ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کا الزام لگایا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آج کل صوبوں کی پولیس کی کارکردگی پر بحث چل رہی ہے، 2013ء میں کے پی میں دہشتگردی تھی، ہماری پولیس نے صوبے میں امن کئلیے بے پناہ قربانیاں دیں، ہم نے سسٹم میں بہت زیادہ اصلاحات کیں، 2014ء سے ہم پولیس میں اصلاحات لے کر آئے اور 2002ء کے پولیس ایکٹ میں وہ ترمیم کی جو کسی نے نہیں کی۔
پرویز خٹک نے مزید کہا کہ اب صوبائی حکومت پولیس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی، کے پی کی پولیس پر کسی کا دباؤ نہیں ہے، کے پی میں کرائمز میں اور دہشتگردی میں کمی آئی ہے اور وہاں کی پولیس اپنی کارکردی دکھا رہی ہے، میرے پاس صرف ایک اختیار ہے کہ پولیس کی کارکردگی کو چیک کرنے کیلئے کمیٹی بناؤں، کے پی میں تھانہ کلچر تبدیل ہو چکا ہے۔
وزیر اعلیٰ کے پی نے دعویٰ کیا کہ کے پی کی پولیس پنجاب پولیس سے بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس میں سیاسی مداخلت کو ختم کرنے سے پولیس بہتر ہو گی، ہم نے صوبائی حکومت کے طور پر پولیس کے کسی کام میں مداخلت نہیں کی، کے پی میں پولیس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہے، ہماری حکومت سے پہلے صوبے میں کوئی انٹیلی جنس ادارہ نہیں تھا، ہم نے آ کر انٹیلی جنس شیئرنگ کا باقاعدہ نظام بنایا، اگر کوئی ایک آدھ کیس پولیس حل نہیں کر پائی تو اس کا سبب کیس کا بلائنڈ ہونا ہوتا ہے، سیاسی دباؤ نہیں ہوتا۔