جسم زخمی نہیں، روح بھی گھائل ہے

Religious

Religious

آج ہم جس افراتفری کے دور سے گزر رہے ہیں اس میں ذہنی سکون ناپید ہو کرر ہ گیا ہے۔ سماجی، معاشی، اخلاقی، مذہبی، روایتی قدروں کی دیواریں گرتی جا رہی ہیں۔ جدھر بھی نگاہ دوڑاتے ہیں خونخوار بھیڑیوں کے پنجے گوشت پوست کے بنے ہوئے انسانوں کی آنکھوں میں گڑے ہوئے ہیں۔ ان کی آنکھوں سے خون بہہ رہا ہے اور عزمتوں کی سولی پر لٹکی ہوئی لاشوں کو گدھ نوچ رہے ہیں۔

بے ضمیر اور بے رحم درندوں کی نظریں حواء کی بیٹیوں پر جمی ہوئی ہیں۔ جو بنت ہوا کی عزتیں تار تار کرنے پر تلے ہوئے ہیںاورموقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ظلم و زیادتی پر صنف نازک کے لب سلے ہوئے ہیں۔ اگر لب کھول بھی لیں تو فریاد سننے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ اسکی آنکھوں میں خون کے آنسو ہیں ۔ایسے سمے کون کسی کا ہے۔۔۔۔۔ ؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے چہروں پر خول چڑھائے لوگ پھر رہے ہیں۔ ایسے عالم میں انصاف تلاش کرنا ، کڑوی اور تلخ حقیقتوں کی جگہ سچی اور کھری بات کرنا بڑے دل گردے والوں کا کام ہے۔

پاکستان میں معصوم کلیاں اپنے گھروں میں بھی محفوظ (SAVE) نہیں ہیں۔ میں آپکی توجہ پنجاب کے دارلحکومت اور زندہ دلان شہر لاہور کے علاقہ مغل پورہ میں جمعہ کی شب رونما ہونے والے ایک المناک واقعہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ مغل پورہ کی غوثیہ کالونی کے رہائشی نہایت ہی شریف النفس انسان ، واپڈا ملازم شفقت کی پانچ سالہ بیٹی سنبل جسے ہوس کے پجاری نے گھر کے باہر اس کے چھوٹے کزن سمیت اغواء کر کے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور اسے نیم مردہ حالت میں گنگارام ہسپتال کے باہر بیدردی سے پھینک دیا اور خود فرار ہو گیا۔

بدقسمت سنبل اس وقت سروسزہسپتال کے آئی ، سی ، یو میں زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی ہے۔ پانچ روز گزرنے کے بعد بھی سنبل کی حالت نہ سنبھل سکی۔ وہ اتنی دہشت زدہ ہے کہ کبھی کبھی آنکھیں کھولتی ہے۔ جب کوئی اسے وقوعہ کے بارے میں پوچھتا ہے۔ تو وہ آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ اور رونے لگ جاتی ہے۔ بچی سہمی ہوئی ہے۔ اسکی ذہنی کیفیت ایسی نہیں ہے۔ کہ کسی سے بات کرے یا پولیس کو بیان دے۔ تاہم ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سنبل کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔ آئندہ دو ہفتوں تک مزید چار آپریشن ہوںگے۔

Crime

Crime

پانچ سالہ سنبل کے ساتھ رونما ہونے والا المناک اور درد ناک واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ یہ معصوم بچی گھر سے گلی تک اکیلی نہیں جا سکتی۔ اسے گھر سے گلی تک کوئی تو لایا ہو گا۔۔۔۔۔؟ گلی کے سامنے ایک ہوٹل ہے اور بائیں جانب ایک نالہ ہے جہاں پہ دن ، رات جرائم پیشہ ، اوباش، شرابی اور جواریوں کا جمگھٹا رہتا ہے۔ سنبل کے والد کے قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ چند روز قبل ہم نے اوباشوں کو یہاں بیٹھنے سے منع کیا اور ایک سرکردہ اوباش کو مارا پیٹا تھا کہ یہاں سے ہماری مائیں اور بہنیں گرزرتی ہیں مگر وہ پر بھی باز نہ آئے ہمارا شک انہیں پہ جاتا ہے۔

یہ وقوعہ جتنا المناک تھا اس کے برعکس پولیس کا ردعمل اتنا ہی سست ہے۔ پولیس افسران اے سی کمروں میں بیٹھ کر کئی کئی گھنٹوں کی میٹنگ کرنے کے باوجود بھی ملزم نہ دھر سکے۔ بلکہ گرفتار کئے گئے دس کے قریب مشتبہ افراد کو ہفتہ کی شام بھاری رشوت لے کر چھوڑ دیا اور مکینوں کے احتجاج پر پھر گرفتار کر لیا گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے گرفتار کیا جانے والا ملزم بھی پولیس حراست میں ہے۔

اپنی تجوری بھر کر چار مشتبہ افراد کو چھوڑنے والے انوشٹی گیشن ونگ مغلپورہ کے اے ایس ائی کو بھی تحویل میں لیکر تفشیش کے لیئے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیاہے۔ وزیر قانون ثنااللہ کا کہنا ہے کہ پولیس تیزی سے کام کر رہی ہے ۔ بہت جلد ملزموں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ جبکہ پولیس کے دعوے ٹھس اور خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی۔وزیراعلیٰ پنجاب اور چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس گھنائونے وقوعہ کی رپورٹ آئی جی خان بیگ سے طلب کر لی، سنبل ہم سب کی بیٹی ہے۔

یاد ہے پولیس ذرائع کے مطابق اڑھائی سالوں میں بچیوں سے زیادتی کے 17کیسز درج ہو چکے ہیں۔ بٹیا رانی کی زباں پر ابھی بمشکل نرسری کی نظمیں ہوں گی ابھی تو اس کے گڑیوں اور کھلونوں سے کھیلنے کے دن تھے مگر بے رحمی اور بے ضمیر درندوں نے اسے بے دردی سے مارڈالا اور معصوم بچی سے اسکا بچپن چھین لیا۔ اس کی جسمانی زخموں کی یہ اذیت صرف ایک دن کی اذیت نہیں یہ زخم ہمیشہ رستے رہیں گے۔ اور بیچاری سنبل اس ناکردہ گناہ کی سزا پوری عمر بھگتے گی ۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک معصوم ذہن کیا سوچتا ہو گا۔۔۔۔۔؟سنبل کا جسم زخمی نہیںہوا اس کی روح بھی گھائل ہوئی ہے۔

اس جرم کی دفعات 376/375 کے تحت سزا ، سزائے موت رکھی ہے۔ مگر ایسا کب ہو گا۔ کب ملزم گرفتار ہوں گے۔ اگر ملزم گرفتار ہو بھی جائیں تو مقدمہ چلے گا، فرد جرم عائد ہو گی، شہادتیں لگیں گی پھر عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی تب تک سنبل جیسی کئی سنبل سفاک اور بے ضمیر درندوں کے ہاتھوں لٹ کر ان کی ہوس کی بھینٹ چڑھ چکی ہو نگی۔ کیونکہ یہ بے رحم ، بے ضمیر ہوس کے پجاری آنسوئوں کی زبان نہیں سمجھتے۔ میری حکومت سے درد مندانہ اپیل ہے۔

ایسے مجرموں کے لیئے تیز ترین قانون عمل میں لایا جائے اور ان کیسز کے فیصلے بہت جلد کر کے ان درندہ صفت مجرموں کو قانون کی گرفت میںلاکر کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور کوڑے مارکر انہیں نشان ِعبرت بنایا جائے تاکہ سنبل جیسی معصوم کلیاں ان کے ہاتھوں مسلنے سے بچ جائیں۔آئو مل کر عہد کرتے ہیں کہ ایسے واقعات کو روکنے میں ہم سب اپنا ، اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے۔

Mubarak Shamsi

Mubarak Shamsi

تحریر:سید مبارک علی شمسی
ای میل۔۔۔۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com