تحریر: سجاد علی شاکر شوگر اور بلڈ پریشر کے امراض سے گردے متاثر ہو جاتے ہیں، مناسب کھانا، ورزش، سبزیوں اور پھلوں کے استعمال سے گردوں سمیت دیگر امراض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے، ملک میں 2 کروڑ کے قریب افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں، ہر سال 27000 ایسے نئے مریضوں کا اضافہ ہوتا ہے جن کے گردے کام چھوڑ دیتے ہیں، ایسے مریضوں کو زندگی گزارنے کے لیے مصنوعی طریقے سے اپنا خون صاف کروانا پڑتا ہے جسے ڈائلیسس کہتے ہیں۔
اگر ان تمام مریضوں کوڈائلیسس کی سہولت مہیا کی جائے تو 12.6 ارب روپے کا خرچ آئے گا، پاکستان جیسا غریب ملک جو اپنے بجٹ کا صرف 2 فیصد صحت اورتعلیم پر خرچ کرتا ہے وہ کبھی بھی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا،دریں اثنا اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں50 کروڑ افرادگردے کے ا مراض میں مبتلا ہیںجن میں سالانہ 8 فیصدکااضافہ ہورہا ہے،اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد بلڈ پریشر اور25کروڑ سے زائد شوگرکے مرض کا شکار ہیں،دنیا میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اس مرض کے بارے میں عام لوگوںکوآگہی دینے کے لیے انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرالوجی اورانٹرنیشنل فیڈریشن اْف کڈنی فاؤنڈیشن نے اس دن کی ابتدا 2006 میں کی۔پاکستان میںایسے مریضوںکی تعداد میں سالانہ 15 سے 20فیصداضافہ ہو رہا ہے،کیونکہ ملک میں اوسطاً20 لاکھ کی آبادی کے لیے گردوںکا صرف ایک ڈاکٹر موجودہے جس کے باعث اکثر افراد اس مرض کی تشخیص سے محروم رہتے ہیں اورعلاج نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض میں اضافہ ہورہا ہے، گردے کا مرض عام طور پر30 سے40 برس کی عمر میں ہوتا ہے تاہم طبی رپورٹوں کے مطابق اب یہ مرض بچوں کو بھی ہونا شروع ہوگیا، خواتین میں دوران زچگی خون کی کمی کے باعث بھی گردے فیل ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
ماہرین کا کہناتھا کہ گردوں کے بیشتر امراض کی بنیادی وجہ بلڈ پریشر اور شوگر کے مرض میں اضافہ ہے، بلڈپریشر دل کے فیل ہونے کی بہت بڑی وجہ ہے اور گردے خراب ہونے سے بلڈ پریشرکی بیماری لاحق ہوتی ہے اگر بروقت خون اور الٹراساؤنڈ کرالیا جائے تو ان تمام بیماریوں کی بروقت تشخیص سے علاج کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ امراض قلب اورگردوں کے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، اب تو نوجوانوں میں بھی یہ امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔یوں توجسم کا ہر اعضا انمول ہے لیکن ہارٹ اور کڈنی(گردے ) بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ دل اور گردوں کی کارکردگی متاثر ہونے کی زیادہ تر وجہ مریض کا شوگر کے مرض میں مبتلا ہو نا ہوتا ہے ہارٹ اٹیک میں دل انسان کو اتنی مہلت نہیں دیتا کہ وہ ہسپتال تک پہنچ جائے۔ یہی حال گردوں کا ہے اگر ان کا بر وقت علاج نہ کیا جائے تویہ آہستہ آہستہ کام کرنا بند کر دیتے ہیںکچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گندا پانی، پیسٹیسائیڈز یا کیڑے مار ادویات کا بہت زیادہ استعمال اور کھاد یا فرٹیلائزر اس موذی بیماری کی وجہ بن رہا ہے جب کہ یہ خیال بھی کیا جا رہا کہ غالباً غذا کی خرابی، بھاری دھات کا استعمال یا زہریلی کائی سے گردے کی یہ بیماری جنم لیتی ہے۔ متاثرہ گاؤں کے مکینوں کو جھیل کی مچھلی اور المونیم کے بنے ہوئے کھانا پکانے کے برتنوں کو ترک کرنے کی تاکید کی گئی ہے ساتھ ہی سب سے زیادہ زور گھر کی بنی ہوئی الکوحل کے استعمال سے پرہیز پر دیا جا رہا ہے تاہم کسی کو بھی اب تک اس پْراسرار بیماری کی حقیقی وجہ کا علم نہیں ہو سکا ہے بعد ازاں نوبت ڈائیلیسس تک جا پہنچتی ہے جو کہ بڑا مہنگا اور تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں ایجادات میں اضافہ ہواوہاں بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتے ہوئے امراض کے پیش نظر ہر کسی کوہر چھ ماہ بعد اپنا مکمل طبی چیک اپ کرواناضروری ہوگیا ہے۔
Government of Punjab
دکھی انسانیت کی خدمت اور عوام کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنا، سرکاری و غیر سرکاری ہسپتال اور ڈاکٹروں کی اہم ذمہ داری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پنجاب اپنی طرف سے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بھر پورکوشش کر رہی ہے لیکن میڈیکل کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کا ان سہولیات کو مریضوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنانا بھی ضروری ہے۔ عوام کو بہترین سہولیات کی فراہمی کے سلسلہ میں صوبے میں تمام ہسپتالوں کو جدید آلات سے آراستہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے قومی وسائل پر زیادہ حق غریبوں کا ہے تا کہ معاشرے کے کمزور طبقات میں احساس محرومی پیدا نہ ہووہ بھی تندرست اور توانا زندگی گزار سکیں۔اس سلسلہ میں صحت کے میدانوں میں مفت ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر ہسپتال میں فری ڈائیلیسس کی سہولت میسر ہونی چاہیے۔ صوبے کے دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کو صحت کی سہولیات مہیاکرنے میں سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں کو اہم کردار ادا کرنا چاہیے میڈیکل کے شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی انسانی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیں اورمریضوں کواولین ترجیح دیں۔انسانیت کی خدمت ایک عظیم جذبہ ہے ایسے لوگوں کو ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے میڈیکل کے شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین مواقع دیئے گئے ہیں وہ دکھی انسانیت کی خدمت کر کے اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں۔
صحت کے شعبہ میں سرکاری سطح پر کام ہو رہا ہے،صوبائی دار الحکومت میں سٹیٹ آف دی آرٹ کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے لئے با اختیار بورڈ آف گورنر تشکیل دے دیا گیا ہے منصوبہ کی تکمیل سے گردے اور جگر کے امراض کے حوالے سے جدید طبی سہولیات میسر آئیں گی۔ انسٹی ٹیوٹ کے لئے 50 ایکڑ قطعہ اراضی مختص کر کے حد بندی کر دی گئی ہے انسٹی ٹیوٹ میں نرسنگ سکول اور ریسرچ سینٹر بھی بنے گا۔پنجاب حکومت صحت عامہ کی سہولتوں کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے عوام کو معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں صحت عامہ کی معیاری اور جدید طبی سہولتوں کی فراہمی پر اربوں روپے صرف کئے جا رہے ہیں کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کا منصوبہ صحت عامہ کے شعبہ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا انسٹی ٹیوٹ میں بننے والا ہسپتال 750 بستروں پر مشتمل ہوگا انسٹی ٹیوٹ کے انتظامی معاملات کے لئے خود مختار بورڈ آف گورنر تشکیل دیا گیا ہے نالج پارک لاہور میں قائم ہونے والے پاکستان کے پہلے سٹیٹ آف دی آرٹ کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ اینڈ ریسرچ سینٹر میں غریب اور نادار مریضوں کا علاج مفت ہوگا۔ اس انسٹی ٹیوٹ کی تعمیر سے مریضوں کو ایک چھت تلے جدید ترین طبی سہولیں میسر آئیں گی۔ وزیراعلیٰ نے اس منصوبے کی جلد سے جلد تکمیل کی یقین دہانی بھی کرائی ہے لیکن اس کے لئے قومی جذبے اور محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے بورڈ آف گورنرز کے صدر ڈاکٹر سعید اختراس منصوبہ کو معیار کے ساتھ تیز رفتاری سے مکمل کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔ڈاکٹری کے اس مقدس پیشے میں ہرکسی کو اپنا کام دیانتداری سے سر انجام دینا چاہئے۔
Sajjad Ali Shakir
تحریر: سجاد علی شاکر تحریر: سجاد علی شاکر (فنانس سیکرٹری پنجاب )کالمسٹ کانسل آف پاکستان sajjadalishakir@gmail.com 03226390480 lahore