آ ج کے بچے ہمارا آنے والا کل ہیں۔ مستقبل کے معمار ہمارا وقت مانگتے ہیں ،ہماری توجہ مانگتے ہیں ۔ اُن کی تعلیم و تربیت کرنا ہمارا فرض ہے ۔ والدین اور اساتذہ بچوں کو بیجاڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کرنے کی بجائے ہر وقت اُن کی حوصلہ افزائی اور انس و محبت کے ساتھ پیش آئیںتو یقینا بچے کامیاب زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں ۔والدین کا غلط انداز تربیت اور اساتذہ کا نامناسب طرز تعلیم بچوں کو احساس کمتری کا شکار کردیتا ہے۔
ہم اکثر جانے انجانے بچوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈانٹتے رہتے ہیں اور کبھی کسی موقع پر بھی اُن کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ،ہمیشہ کی ڈانٹ ڈپٹ بچوں کوچڑچڑا اور نالائق بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔بچے تو بچے ہوتے ہیں غلطی بھی کریں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ پہلے اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اُن سے سرزد ہونے والی غلطی کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کریں اور آخر میں غلطی کرنے سے اس انداز میں منع کریں کہ وہ ہم سے خوف زدہ نا ہونے پائیں ۔
اگر آپ اپنے بچوں کی بہتر پرورش کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں یا یوں کہہ لیں کہ بات بے بات ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے حوصلہ افزائی کیا کریں اور اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر اُن کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیا کریں اور ہاں ہروقت نصابی گفتگوبھی بچوں کو تعلیم کا باغی بنادیتی ہے۔بچوں سے ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھا کریں جن سے ہمارا روز واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
بچوں کو سوالات کرنے کا نہ صرف حق دیں بلکہ اُن کے سوالات کے جوابات دینا اپنا فرض سمجھیں اور اگر کسی وقت اُن کے کسی سوال کا جواب نہ آئے تو سچ بولتے ہوئے تسلیم کریں کہ آپ کو اُن کے سوال کا جواب نہیں معلوم ،اور اس بات کا وعدہ کریں کہ اُن کے سوال کا جواب تلاش کرکے بتائیں گے ۔بچوں کو ذمہ دار اور کامیاب انسان بنانے کے لئے چھوٹی عمر سے ہی مناسب یعنی چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں سونپا کریں۔
Children
اور اُن ذمہ داریوں کوپورا کرنے میں اگر اُنھیں مدد کی ضرورت ہوتو ضرور کیا کریں ،کام مکمل ہونے پر ساراکریڈٹ بچوں کودیا کریں ،اُن کی پسند کی چیزیں انھیں گفٹ کیا کریں تاکہ اُن کی حوصلہ افزائی ہو۔ بچے بہت معصوم ہوتے ہیںچھوٹی چھوٹی سی بات پرخوش اور چھوٹی سے چھوٹی بات ناراض ہوجاتے ہیں لیکن اُن کی نارضگی عارضی ہوتی ہے۔
ابھی آج ہی کی بات ہے کہ میں نے اپنے چار سالہ بیٹے کوخوب ڈانٹا وہ مجھ سے ناراض ہوکرروتے روتے سو گیا لیکن جب نیند سے جاگہ تو سب کچھ بھول چکا تھا ۔ہمیشہ کی طرح میری گود میں بیٹھا میٹھی میٹھی باتیں کررہا تھا۔اگر ہماری ڈانٹ ڈپٹ لگاتارجاری رہے تو بچو ں کے ذہن میں نقش ہوجاتی ہے اور بچے آہستہ آہستہ والدین سے دور ہوتے جاتے ہیں۔بچوں کو مسلسل جسمانی سزائیں دینا یا ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ احساس کمتری کا شکار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بچا ڈرا ،ڈرا سا رہنے لگتا ہے اور ذہین ہونے کے باجود نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں سے دور چلا جاتا ہے ۔اُسے سکول اچھا لگتا ہے نا گھر وہ مسلسل چڑچڑے پن کا شکا ر رہنے لگتا ہے ۔ ایسے بچے کسی بھی بات کا جواب مثبت نہیں دیتے ڈر اُن کے اندر تک رچ بس کر اُن کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔
کہ وہ ہر معاملے میں اپنے بچائو کی خاطر جھوٹ کا سہارا لینے لگتے ہیں۔اکثر ایسے معاملات میں جھوٹ بول کر اپنا کریڈٹ پرباد کرلیتے ہیں۔جس کام کی وجہ سے اُن کی حوصلہ افزائی ہونی ہوتی ہے جھوٹ بول کر اپنے لئے ڈانٹ ڈپٹ کااہتمام کرلیتے ہیں ۔بچے والدین کے یااساتذہ کے سخت روئیو ں کی وجہ سے سہم جاتے ہیں ،والدین کو مطمن کرنے کی کوشش میں اکثر جھوٹ بول کروقت پاس کرتے ہیں تاکہ ڈانٹ ڈپٹ نہ ہوجائے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com.03154174470