کلر روبوٹس پر پابندی لگائی جائے، ہیومن رائٹس واچ

Killer Robots

Killer Robots

ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جو ’کلر روبوٹس‘ پر پابندی کی خواہش رکھتے ہیں۔ پاکستان سمیت تیس ممالک نے کھلے عام ان روبوٹک قاتلوں کے خلاف آواز بلند کر دی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے مطالبہ کیا ہے کہ ‘کِلر روبوٹس‘ (قاتل روبوڑس) پر پابندی عائد کرنے کے لیے ایک عالمی معاہدہ طے کیا جائے۔ اس تناظر میں کہا گیا ہے کہ تمام ممالک اس حوالے سے مذاکرات میں حصہ لیں۔ ایک بیان کے مطابق کم ازکم تیس ممالک نے کھلے عام ان ‘خودمختار ہتھیاروں‘ پر پابندی عائد کرنے کی حامی بھر لی ہے۔

امریکی شہر نیو یارک میں قائم غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس واچ نے پیر کے دن ایک رپورٹ جاری کی، جس میں ایسے ستانوے ممالک کی پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا ہے، جنہوں نے ’کلر روبوٹس‘ کے بارے میں عوامی سطح پر مباحث کیے ہیں۔ ہیومن رائٹس کونسل نے پہلی مرتبہ سن 2013 میں اس حوالے سے اپنی ایک مہم کا آغاز کیا تھا۔

اس رپورٹ کا نام ‘سٹاپنگ کِلر روبوٹس‘ (قتل کرنے والے روبوٹس کو روکا جائے) ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہتھیاروں کی کیٹیگری میں ایسی ٹیکنالوجی بنی نوع انسان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی زور دیا گیا ہے کہ ایسے ممالک کی تعداد بڑھی ہے، جو ان روبوٹس کے حق میں نہیں ہیں۔

‘کِلر روبوٹس‘ کے خلاف پہلی مرتبہ سن 2013 میں مہم شروع کی گئی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر ایک سو ساٹھ تنظیموں نے آواز اٹھائی تھی کہ انسانوں کو قتل کرنے والی آٹومیٹک مشینوں پر عالمی سطح پر پابندی لازمی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میری ویرہام کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق، ”اب واضح ہو چکا ہے کہ طاقت کے استعمال میں انسانی کنٹرول کا دخل نکال دینا، انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلوں کی طرح اس معاملے پر بھی بین الاقوامی سطح پر ایکشن لینا لازمی ہو گیا ہے۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا، ”مکمل آٹو میٹک ہتھیاروں کے اس سنجیدہ چیلنج سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر پابندی کا ایک معاہدہ ہی مؤثر ہو سکتا ہے۔‘‘

اس رپورٹ کے مطابق جو ممالک ان خطرناک ہتھیاروں کے خلاف ہیں، ان میں الجزائر، ارجنٹائن، آسٹریا، بولیویا، برازیل، چلی اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ یہ رپورٹ مہلک آٹو میٹک ہتھیاروں کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔ دس اگست کو ہونے والی یہ کانفرنس کورونا بحران کی وجہ سے مؤخر کر دی گئی تھی۔