تحریر: ایم آر ملک ہم اسے بھوک ،قحط روزگار سے ہارے ہوئے لوگوں کی داستان الم کہہ سکتے ہیں معیشت کے زوال نے ہمیں پتھر کے زمانے کی یاد دلادی ہے معیشت کا یہ زوال ایک ایسے صنعتکار حکمران کی اختراع ہے جس نے معیشت دانوں کی انکھوں کو چندھیا کے رکھ دیا ہے۔ زرخرید میڈیا پر جس کے اندازِ حکمرانی کی بلے بلے کی جارہی ہے۔ 2013 کی الیکشن مہم میں جن کے پر فریب نعروں نے 18 کروڑ عوام کو مدہوش کردیا اُن کے ہاتھوں ملکی اداروں کے زوال اور خود ساختہ بحرانوں کی داستانیں اب اُن کے ”بکائو میڈیا ”پر سامنے آنے لگی ہیں اس مہم میں ترقیاتی منصوبوں کو مثال بنا کر ایک ایسی جنت کا خاکہ پیش کیا گیا جس کی بنیادیں مبینہ طور پر ایک بڑے صوبہ میں خاندانی پارٹی کی حکمرانی کے تسلسل میں رکھی گئی اس گڈ گورننس میں دودھ اور شہد کی نہروںکی جس جنت کا نقشہ کھینچا گیا اُس میں وہاڑی اور سرگودھا میں ہونے والی معصوم ہلاکتوں کا ذکر تک نہیں ملتا۔
پٹرول کے حالیہ بحران کے پس پردہ حقائق کو ہم ”صنعت کاروں کی حکمرانی ”کی بہترین حکمت عملی کی چالبا زی سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اپنے ہی لوگوں ،دھرتی کیلئے اس رویئے اور روش کو غیر مہذب قرار دینا کتنا مناسب لگتا ہے ۔بھوک ،قحط ،روزگار سے شکست خوردہ افراد کی کیفیت سننے والوں کے دل پگھل رہے ہیں مگر شہر اقتدار اور ایک بڑے صوبے کے حکمرانوں کو یہ دکھائی دیتا ہے نہ سنائی ،کیونکہ وہ میٹرو بس جیسے کارپوریٹ منافع کے بوجھ تلے دبتے جا رہے ہیں دو بڑی پارٹیوں کے مفاداتی اتحاد کے گُرو زرداری اور شریف اب نان ایشوز اور تعصب کو اپنی اپنی پارٹیوں کی بقا کیلئے استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ ایک بڑے انسانی المیئے کی علامات ہیں جو سرمایہ دار حکمرانوں کی استحصالی فطرت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
میڈیا پر دن رات بولتے ہی رہنے والوں میں سے کوئی بھی ایسے روزگار کی فراہمی کے بارے میں بات نہیں کر رہا جس میں پر کشش اُجرت کی فراہمی کے ساتھ مکمل روز گار کی ضمانت ملے ،دہرا نظام تعلیم بھی اسی نظام کی غلاظت ہے جہان ”ہڈ حرام ”اساتذہ اور اُن کی تربیت کے مراکز یونینز کے زیر انتظام و انصرام ہیںجنوبی پنجاب کے ساتھ روا رکھی جانیوالی ایک ناانصافی میرٹ ،میرٹ کی وہ رٹ ہے جو ان سرمایہ داروں کے محافظ نظام میں اثرو رسوخ کی بنیاد بنتی ہے تعلیم کے اس بیوپار میں طلباء کو اپنے جوہر دکھانے کے یکساں مواقع میسر نہیں اسے ہم دانستہ پسماندہ رکھے گئے خطہ کے غریب طلباء کے حقوق پر ڈاکہ زنی کا نام دے سکتے ہیں اس نام نہاد میرٹ پالیسی کے نام پر بالائی پنجاب کے انجینئرنگ ،میڈیکل ،اور پیشہ ورانہ یونیورسٹیز و کالجز میں محض بالا دست طبقات کے بچوں کیلئے نشستوں کا حق بلاشر کت غیرے محفوظ ہے میرٹ کے نام پر وہ خوش نما نعرہ جس میں اپر پنجاب کے طلبا کے حقوق کے نام پر تعصب کی چنگاری کو ہوا دی جارہی ہے۔
Creating Separate Province
علیحدہ صوبے کی تشکیل کا نعرہ اسی احساس محرومی سے جنم لے رہا ہے اسے ہم کور چشمی اور بے بصیرتی کی مثال اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ ن لیگی برادران کو حق حکمرانی چھن جانے کا خوف ہے انتہائی ہنر مند مزدور زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ سب کچھ سول آمریت کی شکل میں جمہوریت کے نام پر اس عہد سے نظریں چھپانے کا المیہ ہے جس میں مجرم یقیناً عوام بھی ہیں عمران اور قادری کو چھوڑیں مگر اس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں کہ ایک انقلابی تحریک اپنے ارتقا میں سیاسی ،طبقاتی ،نفسیاتی مراحل تیزی سے طے کر رہی ہے اسی کا شاخسانہ کہئے کہ ن لیگی حکومت کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت مختلف طبقات پر مختلف اثرات مرتب کر رہی ہے دھرنوں کے دوران دونوں پارٹیوں کی قیادتوں کی مصالحت پسندی ،ڈھونگ اور مفادات کیلئے یکجا ہونا عوام پر آشکارا ہو چکا جس نے توقعات کو احتجاج اور غصے میں بدل دیا عمران کی شکل میں یہ سحر انگیز شخصیت کا خلا تھا جس نے 1985سے لیکر آج تک عوامی توقعات کو طوالت بخشی عوامی حقوق کے تحفط کی خاطر ہی عوام نے عمران کی آواز پر لبیک کہا ۔چائنا کے صدر کے دورہ کا واویلہ بھی محض ڈی چوک میں دیئے گئے دھرنے کا وہ خوف تھا جو سامراج نواز حکمرانوں کے منافع اور شرح منافع کے آگے رکاوٹ کی شکل میں لاحق ہونے جارہا تھا اور اس وقت جس نوعیت اور شدت کے بحران میں ہم گھر چکے ہیں اُس نے حالات کو مزید دگرگوں کر دیا ہے۔
سانحہ پشاور کی ہولناکی جس نے عمران کو شہر اقتدار سے پسپائی پر مجبور کیا طنزو دشنام کا ایک طوفان ہے جو ذرائع ابلاغ پرقابض حکومتی دانش عوامی نفسیات پر مسلط کرنے میں کوشاں ہے اور انقلاب کا نام اُن کے نزدیک ایک مضحکہ خیز عمل کے سوا کچھ بھی نہیں مگر اس بات سے بے بہرہ مقتدر حلقے نہیں جانتے کہ انقلاب اُس وقت حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے جب برسوں اور عشروں پر محیط ایک سماجی معمول انسانی اعصاب کو سہل پسند اور صبر طلب بناتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہی سماجی معمول مہلک اور ناقابل برداشت بن کر انقلابی ضرورت بنتا ہے کیا ہم عصر ِ حاضر میں ایک ایسی ہی کیفیت سے نہیں گزر رہے افلاس ،بیروزگاری ،بیماری کی طرح کسی بھی تحریک ،بغاوت اور انقلاب کی کوئی زبان ،قوم اور ملک نہیں ہوتا خوشحال پاکستان اور تعمیر نو کے خواب اب عوام نہیں دیکھنا چاہتے 85ء کے بعد سیاست میں صنعت کار طبقہ کی جس نرسری کی پرورش ضیا ئی گملے میں ہوئی وہ اب حزر ِ جاں ہے اُس کی تجوریاں تو بھرتی جارہی ہیں۔
مگر عام آدمی کیلئے موت سستی اور زندگی مہنگی ہو رہی ہے تھرپار کر کی ہولناک کہانی میں ہلاکتوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور حکمرانوں کا واویلہ ان ہلاکتوں پر شرمناکی اور سفاکی کی تمام حدیں عبور کرتا دکھائی دے رہا ہے گڈ گورننس کا یہ حال ہے کہ صنعتوں کا پہیہ چلانے والے ہاتھ بیکار ہوتے جارہے ہیں سرد راتوں میں کھلے آسماں تلے ٹھٹھرتے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے علاج کی جدید ترین سہولیات ،ادویات موجود ہیں مگر ہر طلوع ہوتے سورج کے ساتھ وطن عزیز کے کثیر باسیوں کی تعداد قابل علاج بیماریوں سے سسک ،سسک کے مرتی ہے قاتل نظام کے ساتھ جڑی ہوئی یہی گڈ گورننس زندگیوں کے چراغ گل کرتی جارہی ہے