تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور دنیا میں کبھی بھی کسی بھی وقت کوئی بھی تہلکا خیز انکشافات کر سکتا ہے، سچ ،جھوٹ کون دیکھتاہے؟کس کے پاس اتنی فرصت کہ صاحب اقتدار اور صاحب اختیار ہوکربھی حقائق کی روشنی میں تحقیقات کرے ؟کب ،کہاں ،کون کس کی جان لے لے کوئی نہیں جاتنا۔طاقتورقاتل ہمیشہ آزاد رہتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو قتل ہوجائیں یاپھرماڈل سانحہ میں 14نہتے پاکستانی اپنے ہی ملک کے سکیورٹی اداروں کی گولیوں کانشانہ بن جائیں ہمیں تو فقط سیاست کرناہے، سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007ء کو اس وقت فائرنگ اور بم دھماکے میںشہید کر دیا گیا تھا جب وہ 2008ء میں ہونے والے عام انتخابات کی مہم کے سلسلے میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے اختتام پر اپنے گاڑی میں جلسہ گاہ سے واپس جارہی تھیں۔
دنیا جانتی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں سابق صدرپرویز مشرف کو عدالت مفرور ملزم قرار دے چکی ہے۔گزشتہ ماہ 31 اگست کو راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بے نظیر بھٹو کے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے دو پولیس افسروں کو سترہ، سترہ سال قید کی سزا سنائی تھی اور سابق صدر پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا تھا۔بے نظیر بھٹو کے قتل کے تقریباً 10سال بعد اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیاہے جب عدالت انہیں اسی مقدمے میں مفرورقراردے چکی ہے، نہ صرف قتل کی سازش رچانے کا الزام بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری پر لگادیا بلکہ اس گھناونے جرم کی ذمہ داری بھی انہیں پر ڈالی ہے۔انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل ہی نہیں بلکہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں بھی آصف زرداری ملوث ہیں۔پرویز مشرف کا کہنا تھاکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ بے نظیر کے قتل کا فائدہ کس کو ہوا؟ کس نے بے نظیر کو ٹیلی فون کر کے گاڑی سے باہر نکلنے پر اکسایا؟ سابق صدر نے کہا کہ بے نظیر کے قتل کا فائدہ ایک ہی شخص کو ہوا، جبکہ بیت اللہ محسود کو سازش کرکے استعمال کیا گیا۔پرویز مشرف نے الزامات کومضبوط دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کیلئے بہت سارے سوالات بھی اٹھائے۔
ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹوکی گاڑی کا راستہ کس کے کہنے پر بدلا گیا؟ بم پروف گاڑی کی چھت کٹوا کر کس نے سن روف بنوائی؟ بینظیر بھٹو کو کس نے فون کر کے کہا کہ سن روف سے باہر نکلو؟ کس نے پھر وہ فون غائب کر دیا؟ خالد شہنشاہ اور رحمان ملک کو سیکیورٹی کا ذمہ دار کس نے بنایا؟ اور پھر خود ہی ان سوالوں کا جواب دے دیا کہ جتنے بھی سوال اٹھائیں اس کے پیچھے ایک ہی آدمی نکلے گا وہ ہے آصف زرداری۔انہوں نے کہا کہ خالد شہنشاہ کو بینظیر بھٹو کا سکیورٹی انچارج آصف زرداری نے بنایا، وہ قتل کے وقت بینظیر بھٹو کی گاڑی میں دوسرے لوگوں کے ساتھ موجود تھا پھر کچھ دن بعد کراچی میں خالد شہنشاہ کو بھی مشتبہ حالات میں مروا دیا گیا۔پرویز مشرف نے کہا کہ تحقیقات ہونی چاہیے کہ بے نظیر بھٹو کی گاڑی کا واپسی کا روٹ کس نے اور کیوں بدلا، رحمان ملک دھماکے کے بعد بھاگ کر اسلام آباد کیوں نکل گئے،؟تحقیقات ہوں تو اصلی قاتل مل جائے گا اور وہ ایک ہی آدمی ہوگا۔کمانڈونے جوسوالات اٹھائے اورپھرخود ہی جوابات بھی دیئے ان سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بینظیربھٹوکے قاتلوں کواچھی طرح پہچانتے ہیں،سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب پرویزمشرف جواُس وقت صدر پاکستان تھے نے سب کچھ علم ہونے کے باوجود قاقلوں کوگرفتار کیوں نہ کیا؟آخر دس سال گزرجانے کے بعد جب عدالت نے ان کو بینظیر بھٹو قتل کیس میں مفرورقراردے دیاتب ہی کیوں وہ اچانک بول اٹھے ؟دس سالوں میں انہیں کیوں خیال نہ آیاکہ وہ بینظیربھٹوقتل کیس کی تحقیقات کرنے والے اداروں کومعلومات فراہم کرتے؟ سابق صدرپرویزمشرف کی ایک دلیل بہت مضبوط ہے کہ آخرسابق صدر آصف زرداری نے اپنے پانچ سالہ دور صدارت میں بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کیوں نہ کروائیں ؟آخر کیوں قاتلوں کوکیفرکردار تک نہ پہنچایا؟اور تواور الیکشن 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران جیالوں کی سیاسی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے بینظیربھٹوکے قاتلوں کو پکڑے کے دعوے کرنے والے بینظیربھٹوکے سیاسی بھائی سابق وزیراعظم میاں نوازشریف بھی آج تک کچھ نہیں کرپائے۔پرویزمشرف عام آدمی نہیں بلکہ سابق آرمی چیف ہیں ۔
سابق وزیراعظم بینظیربھٹوکے قاتلوں کے بارے میں جاننے کیلئے عوام آج بھی منتظر ہیں کہ ان کے اصل قاتل کون ہیں ؟آج بھی کروڑوں عوام سوالیہ نظروں سے حکمرانوں کے چہرے دیکھ رہے ہیںکہ اصل قاتل کون ہے ؟پیپلزپارٹی اور سابق صدر آصف زرداری اپنی صفائی میں کچھ بھی کہیں کم از کم ایک سوال ان کا پیچھاتب تک نہیں چھوڑے گاجب تک محترمہ کے اصل قاتل سامنے نہیں آتے۔پیپلزپارٹی اپنے پانچ سالہ دوراقتدارمیں اپنی قائد اورقومی لیڈرکے قاتلوں تک کیوں نہ پہنچ سکی؟حقائق تب ہی چھپائے جاتے ہیں جب دال میں کچھ کالاہو۔جوحالات ہوچکے ہیںان کو دیکھ کر لگتاہے دال میں کچھ نہیں ساری دال ہی کالی ہوچکی ہے۔سانحہ ماڈل ٹاون ہی کودیکھ لیں ۔برائے راست حکمرانوں پرالزام ہے اور حکمران اصل ذمہ داران کوسامنے لانے سے قاصر ہیں۔ حکومت اپنے ہی ادارے کی تیارکردہ رپورٹ منظرعام پرلانے سے انکاری ہے۔نہتے شہریوں پرگولیاں برسانے والے بہادرشیرایک رپورٹ کے منظرعام پرآنے سے اس قدرکیوں خائف ہیں؟ایسے حالات کیوں پیداہوگئے کہ طاقتوراداروں نے کمزوراور نہتے شہریوں کوگرفتارکرنے کی بجائے گولیاں چلادیں؟حالات واقعات مختلف ہیں توحکومت سامنے لائے تاکہ لوگ حقائق جان سکیں ۔لاہورہائیکورٹ کے سانحہ ماڈل ٹاون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے حکم کے بعدپنجاب حکومت کا سانحہ ماڈل ٹاون کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے فیصلے کے خلاف لاہورہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنایہ ظاہرکرتاہے کہ پنجاب حکومت کسی بھی طرح معاملے کودباناچاہتی ہے۔محترمہ بینظیربھٹوقتل ہویاسانحہ ماڈل ٹائون میں 14نہتے شہریوں کاقتل ،مقتولین کاخون تب تک گرم رہے گاجب تک قاتلوں کوسزا نہیں دی جاتی۔عوام تب تک منتظررہیں گے جب تک یہ معلوم نہیں ہوجاتاکہ اصل قاتل کون ہیں؟
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com . 03134237099