ننھی زینب کے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں سزائے موت کے بعد دل کو کچھ حوصلہ ہو چلاتھا کہ اب میرے چمن کے پھولوں کو کوئی نہیں مسلے گا کیونکہ اب ان گلشن اجڑانے والوں کا انجام سے مزید جرم کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی ۔ افسوس ہمارے بچوں اور بچیوں کے ساتھ درندگی کا یہ کھیل ختم نہیں ہوا بلکہ ہر گزرتے روز کے ساتھ بچوں کے خلاف بھیانک جرائم کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے ۔ کیا ہمارا قانون خوابیدہ ہے اور اس سے متعلقہ اداروں کو کب ہوش آئے گی کہ ان معصوموں کو بچایا جا سکے ؟ یہ بچے نہیں ہمارا مستقبل مسلسل خطرے میں ہیں اور ہم ہیں کہ کانفرنسوں، میٹنگز، ہنگامی اجلاسوں کی کارروائیوں سے باہر ہی نہ آ سکے۔ ان بچوں کو کون تحفظ دے گا؟۔
ریاست مدینہ کی علمبردار حکومت بھی اس میں ناکام ہو چکی ہے ، وزیراعظم کی پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی صاف نیت سے انکار نہیں مگر کوئی عملی اقدامات تو کئے جائیں ۔ ہمارے بچوں پر ظلم ڈھانے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام حکومتی و سماجی ادارے اپنا اپنا کام نیک نیتی سے نبھائیں وگرنہ نہ جانے کتنی زینب اس وحشی پن کی بھینٹ چڑھتی رہے گیں۔ ہماری عوام نعروں اورحکمران بھاشن دینے اور خواب دکھانے میں مصروف عمل ہیں۔ ہمارا میڈیا ریٹنگ کے چکر میں الجھا پڑا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پورے ایشیا میں ہر برس 10 لاکھ سے زائد بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ ایک غیرسرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ہر روز 11 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں پیش آئے۔
بچوں میں جرائم میں ان کا اغوا، زیادتی و قتل اور گینگ ریپ جیسے گھنائونے واقعات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے ۔ جس میں اضافہ لمحہ فکریہ ہے ۔مختلف اداروں اور این جی اوز کی رپورٹوں پر نظر پڑتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ بچوں سے زیادتی، تشدد، ریپ کیسز میں مسلسل اضافہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ حکومت کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون بنا کر سخت ترین سزا کا اجرا کرنا ہوگا۔ زینب، اسما جیسے واقعات صرف سخت ترین سزا سے روکے جا سکتے ہیں۔
عبرتناک طریقہ سے سرِ عام پھانسی، سرِ عام قتل کرنا جس کی ایک صورت ہو سکتی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ معاشرے پر اس کے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ ہاں البتہ مثبت اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ جب اپنے مفاد کا قانون بن سکتا ہے تو عوام کے مفاد، بچوں کی حفاظت کے اقدامات، مجرم کے لیے سخت سزا کا قانون کیوں نہیں بن سکتا؟ ۔ماہرین کے مطابق ایسے واقعات میں وہ لوگ ملوث ہوتے ہیں جو بچپن میں جنسی تشدد کا نشانہ بنے ہوں۔ اب وقت ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت کریں۔ انہیں زیادہ وقت دیں۔ ان سے دوریاں ختم کر کے دوستی کے رشتے کو پروان چڑھائیں، ان سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھیں۔ کسی پر بھی اندھا اعتماد نہ کریں۔
بہت سے کیسز میں قریبی رشتہ دار، محلے دار، جاننے والے ہی ملوث پائے گئے ہیں ۔ بچوں کی بات پر توجہ دیں۔ وہ اگر کسی ایسی بات، یا کسی کی کسی حرکت کی آپ سے شکایت کریں تو آپ چپ رہنے یا نظر انداز نہ کرے ،الٹا بچے کو ہی ڈانٹنے پر اکتفا نہ کریں۔ بلکہ ایکشن لیں چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں تا کہ وہ ایسے کسی واقعے کا نشانہ بننے سے بچ سکیں۔ انہیں ابتدائی تعلیم سے آگاہی دیں۔ انہیں حفاظتی تدابیر سے روشناس کروائیں، تاکہ وہ کسی کی بھی لالچ میں نہ آ سکیں۔ کیوں کہ اکثر واقعات میں بچے کو کسی چیز کا لالچ دے کر، گھمانے پھرانے کا لالچ دے کر پھانسا جاتا ہے۔ فیصل آباد کے ایک گاؤں میں ایک درجن سے زائد بچوں سے زیادتی کا انکشاف ہوا۔ ایک ملزم پولیس نے گرفتار کیا جس کے قبضے سے متاثرہ بچوں کی نازیبا تصاویر اور ویڈیوز برآمد کی گئیں۔ ایک اور واقعے میں نو اور دس سالہ بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا جو پولیس کی گرفت میں بھی آگئے۔
سندھ میں جمنا نامی معصوم بچی کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا تھا۔جوان لڑکیوں کے علاوہ اگر ہم یہاں صرف کمسن بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے خوفناک واقعات ہی لکھنا شروع کردیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے گی جو ہمارے معاشرے میں انسانوں کے روپ میں چھپے بھیڑیوں کی سیاہ کرتوتوں کو چیخ چیخ کر بیان کرتی رہے گی ۔ یہ حکمران وقت کا اولین فرض بنتا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے ۔ ماہرین نفسیات، ڈاکٹرز، قانون دان، ماہرین تعلیم، اعلیٰ پولیس افسران اور تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کو اکٹھا کرکے ان سے مشاورت کی جائے اور انہی کی سفارشات پر مبنی ایسا قانون عمل میں لایا جائے جس سے بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات کا سد باب ممکن ہو سکے ۔ اگر فوری طور پر ایسا نہیں کیا گیا تو انجام انتہائی بھیانک ہوسکتا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ میں بچوں کی زیادتی شرمناک اعدادو شمار سامنے آئے ہیں پنجاب میں ستمبر2019 ء تک بچوں سے زیادتی کے کل 1024 مقدمات رجسٹر ہوئے،1024 میں سے 856 مقدمات کی تفتیش مکمل کرکے چالان عدالت میں جمع کرائے جاچکے ہیں، صرف لاہورمیں ستمبر 2018 ء سے مارچ 2019 تک بچوں سے زیادتی کے 152 مقدمات رجسٹرہوئے ۔پنجاب میں 905 بچے اور 411 بچیاں زیادتی کا نشانہ بنیں۔ ان میں سے 11 بچے اور 10 بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔پولیس ریکارڈ کے مطابق لاہور میں 105 بچوں سے بدفعلی 94 بچیوں سے زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ جبکہ 2 بچے اور 1 بچی کو قتل کر دیا گیا۔ 15 بچیوں سے زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ ایک بچی قتل ہوئی۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ایک ہزار انتالیس کیسز کو حل کر دیا گیا۔ لاہو کے بچوں سے زیادتی کے 3 کیسز تا حال حل نہ ہو سکے۔ پولیس حکام کے مطابق زیادہ کیس سامنے آنے والے علاقوں میں پولیس پیٹرولنگ بڑھا دی گئی۔ قصور اور چونیاں سمیت دیگر علاقوں میں ڈالفن فورس تعینات ہے۔جس خوفناک تعداد میں بچوں سے زیادتی کے کیسز سامنے آ رہے ہیں، لگتا ہے جیسے ہمارا معاشرہ بچوں کی پرورش کیلئے سب سے بھیانک معاشرہ بن چکا ہے۔
کوئی دن ایسا نہیں گذر رہا کہ جب کوئی واقعہ میڈیا پر رپورٹ نہ ہو۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھے مہینوں میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 1300 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ بہت بڑی تعداد ان کیسز کی بھی ہے جن کی رپورٹ درج نہیں کروائی گئی۔واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل سانحہ چونیاں میں 4 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا جس کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا۔ ملزم کا نام سہیل شہزاد تھا جس کی عمر 27 سال ہے، چاروں وارداتیں اسی ملزم نے سر انجا م دیں تھیں،ملزم سہیل شہزاد لاہور میں تندور پر روٹیاں لگانے کا کام کرتا ہے اور غیر شادی شدہ ہے۔
حکام کے مطابق ملزم نے چاروں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا،معاملے کی تحقیقات سائنسی بنیادوں پر کی گئیں، 1649 مشکوک افراد کی جیو فینسنگ کی گئی، بچے فیضان اور علی حسن کے کپڑوں سے ملنے والے نمونے ملزم سے میچ کر گئے تھے، ایک بچے کی لاش اور 3 بچوں کی ہڈیوں کے ڈی این اے سے ملزم کی شناخت کی گئی تھی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق بچوں سے زیادتی میں پنجاب پہلے نمبر پر ہے۔ قصور میں سینکڑوں متاثرہ بچے غریب اور ان پڑھ خاندانوں کے جبکہ مجرم بااثر تھے۔ پشت پناہی جاگیرداروں اور سیاستدانوں نے کی اورپولیس بھی بکاؤ نکلی۔ ان واقعات میں مجرموں کو سزا ملنے کی شرح ڈھائی فیصد ہی رہی۔ صرف قصور میں گذشتہ دس برس کے دوران واقعات کی شرح 6 فیصد سے بڑھ کر 16 فیصد سے زائد ہوگئی۔ نظام کی خرابیوں کے باعث 97 فیصد سے زائد مجرم سزا سے بچ نکلے۔