ساڈے بال نہیں سکو لے جا ندے بھکھاں نال رہیندے کھیڈدے
کانوں سے محروم، آنکھوں سے نابینی،لنگڑی لولی جسمات، فرسودہ ذہن اور نسل درنسل غلامی کرنے والی قوم۔برسوں سے بادشاہی کا کیل زبان کے اندرہے کبھی سرکے بھی تووہی اولادوں تک نعرہ گوئی اور زندگی پھر انہی کے دربار پر کہیںmute تو کہیblock غلاموں کی نگری ہے نہ! پیدا ہوتے ہی منزل طے ہوتی ہے پروازوں کی حدود بھی متعین ہیں۔تحقیق نہیں بلا چوں چراں زندگی کے معنی سے بے خبر رہناہے ہوتو میں بھی اندھوں میں کانہ راجہ،مسکن میرا بھی وہی خانہ بدوشی،مجھے بھی تھوڑوں میں لپیٹا گیا ہے جسے کھولتے کھولتے میں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو پاتا،پر یہ زیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔ویسے بھی میں بنے بنائے راستوں پر چلنا بھی نہیں چاہتا، ہاں چل بھی سکتا ہوں اگر پاؤں کو گوارہ ہو۔
بات سیدھی کرتا ہوں پچانوے فیصد لوگوں کو یہ نہیں پتہ کہ ہمارا قانون تعلیم کی ذمے داری ارٹیکل25اے کہ تحت سٹیٹ پر ڈالتا ہے کوئی بچہ پانچ سال سے سولہ سال تک سکول سے باہر نہ ہو ان کی ذات پات رنگ نسل مذہب پر کوئی قدغن نہیں تعلیم سب کے لیے لیکن یہاں تو الٹی گنگاں بہتی ہے 22 ملین بچے سکول سے باہر ہیں۔43 فیصد گورنمنٹ سکولوں میں بنیادی سہولتیں نہیں ہیں۔21فیصد پرائمری سکولوں کا مستقبل ایک ٹیچر کے ہاتھ میں ہے سٹیٹ سوتیلی ماں کا رول ادا کر رہی ہے۔
مستقبل وہی غلامی اور مزدوری۔میرا کلیجہ پھٹ جاتا ہے جب کسی بچے کے ہاتھ میں قائدہ پکڑنے کی عمرمیں رینچ اور پانے دیکھتا ہو یا بھیک مانگتے۔ پیدا ہوتے ہی کوئی مزدور یا پائلٹ نہیں ہوتا بس فرق ماحول اور رسائی کا ہے۔ ادھر جہاز چلانے والے انجینئر،سائنسدان اور نئے جہانوں کی کھوج لگانے والے ننھے بچے مستقبل کے بل گیٹس بھٹوں پر اینٹیں نکالتے ہیں اور قبر کی لحد تک زندگی کی یہی منزل ہے۔انکی بہنیں خواب نہیں سوچتی کہ میرا بھائی مجھے ایسا جہیز دیں گا ماں نے کبھی نہیں کہا کہ میرا بیٹا آفسیر بنے گا اور نہ ہی انکی آن لائن کلاسوں کا مسئلہ ہے انکی خوشی غمی،بچپن،بڑھاپا انہی اینٹوں کے ساتھ ہے۔ جس ملک میں تعلیم نہیں دو گے وہاں ووٹ کی عزت کو خطرہ تو ہو گا کرپشن ایمان کا حصہ بنے گی۔انصاف عدالت کی دہلیز پر بار بار چکر، اور آنے والی نسلیں بھی اسی دہلیز پر انصاف کی دہائی دیتی دکھائی دیں گی یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
عدالت کی دیواروں پر آہوں اور سسکیوں کے نشان اگلے جہان میں بھی دیکھے جائے گے۔حضور ایک ہی تو پینٹ ہے جسکا رنگ خراب نہیں ہوتا اس پر سبھی آقاؤں کو سلام۔اللہ ہر دور میں ایسے بندے پیدا کرتا رہتا ہے جن کی زندگی کا مقصد وہ اپنی مخلوق کی خدمت کے ساتھ نتھی کر دیتاہے۔اس نے ہر دور میں ایدھی پیدا کیے اس دور میں بھی رضوانہ غضنفر جو ممبرپنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو ہے ایدھی کی صورت میں بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کی تعلیم کا زمہ اٹھا رہی ہے آئے دن وہ کسی نہ کسی بھٹے پر جاکر وہاں بچوں کو سکول بیگ،کتابیں اور سکول کی فیسوں کا ماں باپ سے وعدہ کر رہی ہے جنت تو لے جائے گی وہ عورت ہونے کہ ناطے مگر وہ تعلیم کی اہمیت سے بھی باخوبی واقف ہے کیونکہ عورت یہ اچھی طرح سمجھتی ہے کہ ایک عورت کی تعلیم پورے خاندان کی تعلیم ہے۔
مرد پڑھا تو فرد پڑھا خاتون پڑھی تو خاندان پڑھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ایسے بندے اور پیدا کرے جو میرے ملک میں تعلیم کہ لیے کچھ کریں کیونکہ ہم تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں آج تو ہواکے پر باندھے جا رہے ہیں،روشنی اور چاندنی کو نچوڑا جا رہا ہے،ہوا کا سانس روکا ہے،وقت کے ماتھے پہ پسینہ آیا ہوا ہے۔چاند کو پنجرے میں قید کیا جا رہاہے،تحقیق کی راہوں میں اتنا رش ہے کہ ساتھ چلنا خواب کی حد تک ٹھیک ہے اور ہم وہی کنکروں کے منتظر۔اندھیرے میں کالی عینک پہن کر کالی بلی تلاش کر رہے ہیں۔موم کی سیڑی لگا کر چاند پر چڑنے کی کوشس کر رہے ہیں غلیل سے جہاز گرانے کا عزم رکھتے ہیں آخر کب تک ایسے کب تک۔