لاہور (جیوڈیسک) محمد عامرکے ویزا مسائل نے پاکستانی کرکٹ حکام کے ماتھے پرپریشانی کی شکنیں بڑھا دیں،15روز گزرنے کے باوجود ’’ہاں یا ناں‘‘ میں کوئی جواب موصول نہ ہوسکا، حکام کو تینوں فارمیٹ میں پاکستان ٹیم کا اہم مہرہ سمجھے جانے والے پیسر سے محرومی کے خدشات ستانے لگے۔
چیئرمین بورڈ شہریار خان نے برطانوی ہائی کمیشن کو خط میں کارروائی جلد مکمل کرنے کی درخواست کردی، رخصتی کا پروانہ جاری کرنے سے انکار پر احسان عادل کی قسمت چمک سکتی ہے، اے سائیڈ میں شامل پیسرز بھی خلا پُر کرنے کیلیے دستیاب ہونگے،صورتحال چند روز میں واضح ہونے کا امکان ہے۔تفصیلات کے مطابق 2010 میں لارڈز ٹیسٹ کے دوران محمد عامر اور دیگر2 ساتھی کھلاڑیوں کپتان سلمان بٹ اور محمد آصف پر اسپاٹ فکسنگ کے الزامات ثابت ہوئے تھے۔
تینوں کرکٹرز کو انگلینڈ میں جیل کی ہوا کھانا پڑی اور آئی سی سی کی جانب سے 5،5 سالہ پابندی بھی عائد کردی گئی تھی، سزا پوری ہونے اور بحالی کا عمل مکمل کرنے کے بعد محمد عامر تو انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آ چکے جبکہ دیگر دونوں اس کیلیے کوشاں ہیں، پی سی بی کی کوششوں اور کیوی بورڈ کی معاونت سے پیسر کے دورئہ نیوزی لینڈ میں حائل رکاوٹیں دور ہوگئی تھیں اور انھیں وہاں سیریزکھیلنے کا موقع ملا، بعدازاں بنگلہ دیش میں ایشیا کپ اور بھارت میں ورلڈ ٹوئنٹی20میں بھی شریک ہوئے لیکن اب دورئہ انگلینڈ کیلیے سفری دستاویزات حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، بورڈ نے دیگر کرکٹرز کی درخواستیں معمول کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے برطانوی ہائی کمیشن میں جمع کرائیں اور ویزے بھی حاصل ہوگئے۔
محمد عامر کا خصوصی کیس تیار کرکے بعد ازاں الگ سے درخواست دی گئی،اس میں قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد پیسر کی آئی سی سی کلیئرنس اور دیگر متعلقہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا گیا، پی سی بی حکام نے انگلش بورڈ سے رابطہ کرکے معاونت کیلیے درخواست بھی کی، برطانوی امیگریشن قوانین کے مطابق اگرکسی بھی شخص یا ملزم کو ملک سے ڈی پورٹ کردیا جائے تو عموماً اسے دوبارہ ویزا نہیں دیا جاتا لیکن ایک صورت یہ بھی ہے کہ برطانوی ملکہ اس کی اجازت دیدیں، اگر کسی شخص کو12 ماہ سے4 سال تک کی سزا سنائی گئی ہو تو ویزا انٹری کلیرنس آفیسر آئندہ 10برس تک اس کی درخواست کو مسترد کرنے کا مجاز ہوتا ہے، جیل سے جلدی رہائی کی اسکیم کے تحت رہا ہونے والے افراد کو بھی قانون کی نظر میں ملک بدر ہی سمجھا جاتا ہے۔
وہ بھی سزا کی مدت ختم ہونے کے10سال بعد تک انگلینڈ واپس آنے کے اہل نہیں ہوتے، عدالت میں سب سے پہلے اعتراف جرم اور سزا کی مدت6ماہ ہونے کے وجہ سے محمد عامر کو رعایت مل سکتی ہے، پی سی بی نے بھی اسی امید پر ان کا کیس تیار کیا ، پاکستانی ٹیم کو 14جولائی سے ٹیسٹ سیریز میں شرکت کرنا ہے،طویل فارمیٹ کے 4میچز کھیلے جائیں گے، بعد ازاں 5 ون ڈے اور ایک ٹوئنٹی20 میچ شیڈول ہے،قبل ازیں انگلش ماحول سے ہم آہنگی کیلیے ہیمپشائر میں کنڈیشننگ کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، پریکٹس میچز بھی ہوںگے، اسکواڈ 18جون کو انگلینڈ روانہ ہوگا۔
سیمنگ کنڈیشنز میں تینوں فارمیٹ کا اہم حصہ سمجھے جانے والے محمد عامر پاکستان کا اہم مہرہ ثابت ہوںنگے، چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ان کی ٹیم میں شمولیت کو ویزے سے مشروط قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ایک ہفتے میں پاسپورٹ واپس مل جائے گا، ذرائع کے مطابق دیگر تمام منتخب کھلاڑیوں کے ویزے یکم جون کو ہی پی سی بی کو موصول ہوگئے تھے، محمد عامرکا کیس قدرے تاخیر سے جمع کرایا گیا لیکن ابھی تک ہاں یا ناں میں کوئی جواب موصول نہ ہونے پر سلیکٹرز اور بورڈ حکام تشویش میں مبتلا ہیں، پیسر نے کاکول اکیڈمی میں فٹنس کیمپ سے رخصت لے کر 20جون کو خود ہائی کمیشن جاکر درخواست دی تھی۔
چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے پیر کو برطانوی ہائی کمیشن کو لکھے گئے خط میں کہاکہ پاکستان ٹیم کی روانگی میں چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں لہٰذا کارروائی جلد مکمل کرلی جائے، ذرائع کے مطابق سلیکٹرز نے محمد عامر کے ویزا اور محمد حفیظ سمیت کھلاڑیوں کے فٹنس مسائل کو دیکھتے ہوئے ہی اسکواڈ 16کے بجائے 17رکنی رکھا، اس کے ساتھ احسان عادل بھی ریزرو کے طور پر موجود ہیں، قومی کرکٹرز سے قبل دورہ کرنے والی اے ٹیم میں کسی کی غیر معمولی کارکردگی بھی اسے گرین کیپ پہننے کا موقع فراہم کرسکتی ہے، اس حوالے سے صورتحال پر ہیڈ کوچ مکی آرتھر سے بھی بات ہوگی۔