خادم حرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز جنہوں نے تقریبا نو سال پہلے اگست 2005 میں مسند اقتدار سنبھالی تھی، نو برسوں کے دوران سعودی عرب کو عالمی سطح پر قائم ایلیٹ کلب کا ممبر بنانے میں بڑی خوبی کے ساتھ کامیاب رہے ہیں۔ وہ مملکت السعودیہ کو ہر شعبہ زندگی میں مثالی اور عظیم الشان کامیابیوں سے ہمکنار کرنے میں غیر معمولی طور پر متحرک رہے ہیں۔ شاہ عبداللہ نے اپنی دور اندیشی، تدبر اور قوت متحرکہ کی بدولت دنیا بھر میں پذیرائی حاصل کی اور اسی بنیاد پر عالمی برادری میں بااثر ترین افراد میں شامل ہیں۔
شاہ عبداللہ پچھلے نو برسوں سے سعودی عرب کی تعمیر و ترقی اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک قافلے کا ہراول دستہ ہیں جس کا رستہ روکنا کسی کیلیے ممکن نہیں ہے۔سعودی عرب میں شاہ عبداللہ کی کامیابیوں کے حوالے سے ہر روز ایک نئے معیار کو چھونے کا ریکارڈ قائم ہو رہا ہے۔ اس ناطے ان کا دور حکمرانی شاندار حیثیت کا حامل ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل کے دوران جہاں شہریوں کی سہولت اور خدمت ان کی ترجیح اول رہی ہے وہیں ان کی اصلاحات کی اصل جدید اور متوازن ترقی ہے، تاکہ سعودی عرب کے سارے علاقے، قصبے اور شہر یکساں طور شاد و آباد نظر آئیں۔شاہ عبداللہ کی طرف سے سرکاری حکام کو جاری کی جانے والی ہدایات اور احکامات کی روح یہ ہوتی ہے کہ ” شہری سب سے پہلے ہیں۔” ان کے فیصلے شہریوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سامنے آتے ہیں جبکہ منصوبوں پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل کی ترقی بھی ان کے پیش نظر رہتی ہے، تاکہ ہر اہم شعبہ زندگی میں سعودی شہری آگے بڑھ سکیں۔اسی وجہ سے آج کا سعودی عرب تعلیم ، صحت، اور ہاوسنگ کے حوالے سے ان ملکوں کی صف میں آگے ہے جو ممالک اربوں خرچ کر کے تعلیم اور صحت کے میدانوں میں سرگرم رہتے ہیں۔
سعودی عرب بھی اربوں ریال خرچ کر کے عظیم جامعات اور صحت کی اعلی ترین سہولیات اور علاج گاہوں کی بنیاد پر شہر آباد کر رہا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران سعودی عرب نے صرف تعلیم اور صحت کے شعبوں پر اپنے سالانہ بجٹ کا 38 فیصد خرچ کیا ہے۔سعودی حکومت نے شاہ عبداللہ کی زیر قیادت ہاوسنگ کے شعبے کو بھی غیر معمولی توجہ دی ہے اور 250 ارب ریال کی خطیر رقم سے پانچ لاکھ نئے مکان بنانے کی منظوری دی۔ نیز ملک میں ”رئیل اسٹیٹ ڈویلپنگ فنڈ” قائم کیا گیا ہے۔ یہ سارے اقدامات شہریوں کے شاندار مسقبل کیلیے کیے جا رہے ہیں۔خادم حرمین الشرفین نے حج اور عمرہ کی ادائیگی کے سلسلے میں بہترین سہولیات کا اہتمام کیا ہے۔ حج کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ اس مبارک موقع پر دنیا کے مختلف حصوں سے تقریباً25 لاکھ حجاج مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں جن کی دیکھ ریکھ اور ان کے سفر و رہائش کا انتظام کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی حکومت کی تعریف کرنی ہوگی کہ اتنے بڑے مجمع کے نظم و نسق اور ان کی دیکھ بھال کے لئے بہترین انتظام کرتی ہے۔ ہر حاجی جب اپنے وطن کو لوٹتا ہے تو سعودی حکومت کی تعریف کئے بنا نہیں رہ پاتا۔ یوں تو حج پانچ دنوں میں ہی مکمل ہوجاتا ہے مگر عام طور پر حاجیوں کو 45 دنوں تک سعودی عرب میں رکنا پڑتا ہے۔ ان 45 دنوں میں حکومت اور وہاں کا انتظامیہ اتنا چاق و چوبندہوتا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے پوری مشینری حاجیوں کی خدمت پر ہی لگی ہوئی ہو۔
Saudi Arabia
رہائش سے لے کر سفر کرنے اور حرم میں عبادت کرنے تک حکومت کی طرف سے ہر طرح کی سہولت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔جب کبھی کسی حاجی کو کوئی معمولی پریشانی بھی ہوتی ہے تو اس کو دور کرنے کی فوری کوشش کی جاتی ہے اور ایسے انتظامات کئے جاتے ہیں کہ آنے والے سال میں دوبارہ اس طرح کی شکایت یا پریشانی نہ ہو۔سال رواں میں سعودی حکومت نے کئی ایسے اقدامات کئے ہیں جن کو دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ حکومت حجاج کو سہولت پہنچانے کے لئے ہمہ تن و من تیار رہتی ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کوتاہی قبول نہیں کرتی ہے۔حاجیوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے امسال سعودی حکومت نے تقریباً26 ہزار اضافی سیکورٹی اہلکار کو مکہ اور اس کے اطراف میں تعینات کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ یہ اہلکار کمزور،بوڑھے اور خواتین کے علاوہ زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے پریشان حال حاجیوں کو بر وقت لازمی تعاون پہنچا سکیں۔6900 آلات و ڈیوائس اور فضائی نگرانی کے لئے 19 ہیلی کاپٹر متعین کئے ہیں۔ دراصل مکہ سے عرفات اور وہاں سے مزدلفہ اور پھر تین دنوں تک منی میں قیام کے دوران حاجیوں کو پہاڑی راستہ ہونے کی وجہ سے بے شمار دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خاص طور پر منیٰ میں قیام کے دوران بہت سے حاجی پہاڑوں میں گم ہوجاتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ کسی کھوہ میں پھنس کر، لڑھک کر حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔چونکہ یہ پہاڑ انتہائی اونچے ہیں اس لئے وادی میں موجود ساتھی کو نہ تو ان کے بارے میں خبر ہوپاتی ہے اور نہ ہی وہ مدد کے لئے ان کو پکار پاتے ہیں۔ ایسے میں فضائی نگرانی ضروری ہوجاتی ہے۔اس کام کے لئے حکومت نے ان ہیلی کاپٹروں کو مقرر کیا ہے جو کسی بھی طرح کے حادثے کی صورت میں ان کی بر وقت مدد کرسکیں۔منیٰ میںرمی جمار (کنکری مارنا)کے وقت بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے بھگدرکا امکان رہتا ہے۔ اب تک کئی مرتبہ بھگدر کی وجہ سے لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں۔بھگدر اور دیگر ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے امسال حکومت نے 450 تجربہ کار عملہ مقرر کیے ہیں جو حادثے کی صورت میں فوری طور پر حاجیوں کی مدد کرسکیں اور انہیں خطرے سے باہر لاسکیں۔ اسی طرح دن بھر عرفہ کے میدان میں رہنا اور شام کے وقت عرفہ سے مزدلفہ کے لئے کوچ کرتے ہوئے خاص طور پر عورتیں اور بوڑھے پریشان ہوجاتے ہیں،مزدلفہ پہنچنے سے پہلے ہی ان کی طاقت جواب دینے لگتی ہے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے حکومت نے دونوں کے بیچ میں جگہ جگہ پر اسپتال اور آرام گاہ کا انتظام کیا ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پیائو بنا دیا ہے جہاں میٹھے ٹھنڈے پانی کا بہترین انتظام ہوتا ہے۔اگرچہ اس طرح کا انتظام پہلے بھی ہوا کرتا تھا مگر امسال اس میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ تھوڑی تھوڑی دوری پر ایمبولنس کا انتظام بھی ہے جو پریشان حال حاجیوں کو لے جانے کے لئے تیار کھڑی رہتی ہیں۔اس کے علاوہ فائر بریگیڈ عملہ اور راستے پر دیگر آلات نصب کئے گئے ہیں جن سے ان حاجیوں کی نگرانی ہوتی رہتی ہے۔جہاں بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے یہ عملہ فوراً حرکت میں آجاتے ہیں۔مسجد الحرام اور مسجد نبوی دوںوں میں توسیع کا سب سے بڑا منصوبہ رو بعمل ہے۔ ایک سو ارب ریال کی لاگت سے بیت اللہ کی وسعت تقریبا دوگنا ہو جائے گی۔ جس کے بعد بیس لاکھ شہری بیک وقت مسجد حرام میں نماز ادا کر سکیں گے۔شاہ عبداللہ کے دور قیادت میں تعلیمی شعبے میں بطور خاص عدیم المثال ترقی ہو رہی ہے۔ تعلیم اور ٹیکنالوجی کی ترقی شاہ کی اہم ترین ترجیح ہیں۔ تعلیمی منصوبوں کو وسعت ملی، تقریبا تمام بڑے شہروں میں نئی جامعات قائم کی جا رہی ہیں۔ نو سال پہلے مملکت سعودیہ میں صرف نو جامعات تھیں۔ اب ان کی تعداد 33 ہو چکی ہے۔ ان میں سے 28 جامعات سرکاری شعبے میں کام کر رہی ہیں۔2005 میں اقتدار پر فائز ہوتے ہی شاہ نے سعودی طلبہ کیلیے پوری دنیا میں تعلیم کا حصول آسان بنانے کیلیے تعلیمی وظائف کا اعلان کیا۔ گویا سعودی نوجوانوں کو تعلیمی میدان میں ہر ممکن سہولیت بہم پہنچانا شاہ عبداللہ کی پہلے دن سے ترجیح تھی۔ اسی طرح شہریوں کی صحت کیلیے اقدامات بھی اولین ترجیح ہے۔ اس مقصد کیلیے سعودی طلبہ و طالبات کو مختلف ممالک میں طبی تعلیم کیلیے بھجوانے کے منصوبے شروع کیے تاکہ سعودی ڈاکٹروں کی ایک کھیپ بھی تیار ہو سکے۔سعودی عرب میں میڈکل سٹیز قائم کرنے کی روایت آگے بڑھی، طبی تعلیم اور علاج معالجہ کیلیے سہولیات کو یکجا کر دیا گیا۔ ہر جگہ علاج معالجے کی سہولیات معیار کے ساتھ فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس میدان میں ایک انقلاب آفریں ماحول ہے۔ یہ شاہ عبداللہ کی قیادت کے بدولت ہے کہ مملکت میں اقتصادی اور معاشی میدان میں مثالی ترقی کا رجحان ہے۔ صرف نو سال کی مختصر مدت کے دوران سعودی عرب دنیا کے معاشی اعتبار سے نمایاں ممالک میں شامل ہے۔
اسی عرصے میں اسے گروپ 20 کی رکنیت حاصل ہوئی ہے۔ان نو برسوں کے دوران کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی غیر معمولی ترقی ہے۔ سڑکوں کا جال بچھانے کے ساتھ ساتھ ریل ٹریک کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا ہے۔ بائیس اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے میٹرو کے منصوبے شروع ہیں۔