اسلام آباد (جیوڈیسک) اگر بادشاہ باغ سے ایک سیب لے گا تو اس کے لشکری سارا باغ اجاڑ دیں گے، جسٹس جواد ایس خواجہ اور اب بات سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف دور کے ترقیاتی فنڈز کیس کی۔اس کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 100 سے زاید افراد کو بغیر سمری کے فنڈز دیئے گئے۔
کوئی جاننے والا ہو گا تبھی پیسے دیئے گئے ورنہ وزیراعظم کے گھر میں تو کوئی داخل بھی نہ ہواگر بادشاہ باغ سے ایک سیب لے گا تو اس کے لشکری سارا باغ اجاڑ دیں گے، جسٹس جود ایس خواجہ نے یہ ریمارکس راجہ پرویز اشرف ترقیاتی فنڈز کیس میں دیئے، چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے سامنے درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیئے کہ بجٹ میں منظور نہ ہونے والی سکیموں کے لیے پیسے نہیں دیئے جا سکتے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عوامی نمائندوں کو فنڈز دینے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، 18 ویں ترمیم کے بعد بہت سے شعبے صوبوں کو چلے گئے، راجہ پرویز اشرف کے وکیل وسیم سجاد کاموقف تھاکہ جن اخراجات کی منظوری پارلیمنٹ دیتی ہے وہ آئینی اور قانونی ہیں، چیف جسٹس نیریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کو پتہ تھا کہ ان کی مدت ختم ہو رہی ہے۔
وزیراعظم کو اس لیے نہیں بٹھایا جاتا کہ وہ اس طرح بے دریغ فنڈز کا استعمال کرے ، آج ساڑھے 6 ارب روپے سے زائد رقم ان لوگوں کو دی گئی جو ارکان پارلیمنٹ نہیں تھے، وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 84 میں اس کا میکنزم دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹ کے اختیار کے حوالے سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
سو سے زائد افراد کو بغیر سمری کے فنڈز دیئے گئے، پارلیمنٹ نے 22 ارب روپے کی گرانٹ منظور کی، الیکشن کے قریب اس گرانٹ کو 52 ا رب روپے تک بڑھا دیا گیا، ساڑھے 6 ارب روپے اس لیے پرائیویٹ لوگوں کو دیئے گئے کہ آگے الیکشن آ رہے تھے، آپ نے ساڑھے چھ ارب روپے دیئے اب آنے والا بارہ ارب دے گا، اسے کیسے روکیں گے۔