تحریر : شاہ بانو میر حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں :” پہلی اُمتو ں میں ایک بادشاہ تھا ۔ خوب شان وشوکت سے اس کے دن رات گزر رہے تھے۔ ایک دن اس کی قسمت کا ستارہ چمکا اور وہ اپنی آخرت کے بارے میں غور وفکر کرنے لگا، اور سوچنے لگا کہ میں جن دنیاوی آسائشو ں میں گم ہو کر اپنے رب عزوجل کو بھول چکاہوں عنقریب یہ ساری نعمتیں مجھ سے منقطع ہوجائیں گی، میری حکومت وباد شاہت نے تو مجھے اپنے پاک پروردگار عزوجل کی عبادت سے غافل کر رکھا ہے چنانچہ وہ رات کی تا ریکی میں اپنے محل سے نکلا،اور ساری رات تیزی سے سفر کرتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو وہ اپنے ملک کی سر حد عبور کر چکا تھا۔ اس نے ساحلِ سمند ر کا رخ کیا اور وہیں رہنے لگا۔وہاں وہ اینٹیں بنابنا کر بیچتا، جو رقم حاصل ہوتی اس میں سے کچھ اپنے خر چ کے لئے رکھ لیتااور باقی سب صدقہ کر دیتا۔ اسی حالت میں اسے کافی عرصہ گزر گیا۔
بالآخر اس کی خبراس ملک کے بادشاہ کو ہوئی ،تو اس بادشاہ نے پیغام بھیجا: ” مجھ سے آکرملو۔”لیکن اس نے انکار کر دیا، اور بادشاہ کے پاس نہ گیا ۔ بادشاہ نے پھر اپنا قاصد بھیجااور اسے اپنے پاس بلوایا اس نے پھر انکار کر دیا، اور کہا:” بادشاہ کو مجھ سے کیا غرض ،اور مجھے بادشاہ سے کیا کام کہ میں اس کے پاس جاؤں ۔”جب بادشاہ کو یہ بتایا گیا تو وہ خود گھوڑے پر سوار ہو کر ساحلِ سمندر پر آیا۔ جب اس نیک شخص نے دیکھا کہ بادشاہ میری طرف آرہا ہے تواس نے ایک طر ف دوڑ لگا دی۔ بادشاہ نے جب اسے بھاگتے دیکھا تو وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگا لیکن وہ بادشاہ کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ جب بادشاہ اسے نہ ڈھونڈ سکا تو بلند آواز سے کہا: ”اے اللہ عزوجل کے بندے !میں تجھ سے کچھ بھی نہیں کہوں گا، تو مجھ سے خوف زدہ نہ ہو (میں تجھ سے ملا قات کرنا چاہتا ہوں )۔” جب اس نیک شخص نے یہ سنا تو وہ بادشاہ کے سامنے آگیا ۔
بادشاہ نے اس سے کہا:” اللہ عزوجل تجھے بر کتیں عطا فرمائے، تو کون ہے ؟ اور کہاں سے آیا ہے ؟” اس نے اپنا نام بتا یا اور کہا :” میں فلاں ملک کا بادشاہ تھا ، جب میں نے غور وفکر کیا تومجھے معلوم ہوا کہ میں جس دنیا کی دولت میں مست ہوں، یہ تو عنقریب فنا ہوجائے گی،اور اس دولت وحکومت نے
تو مجھے غفلت کی نیند سلارکھا ہے۔ وہ ہے عیش وعشرت کا کوئی محل بھی جہاں تاک میں ہر گھڑی ہو اجل بھی بس اب اپنے اس جہل سے تو نکل بھی یہ جینے کا انداز اپنا بدل بھی جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
Mulana Jalal ul Din
چنانچہ میں نے اپنے تمام سابقہ گناہوں سے توبہ کی اور تمام دنیاوی آسائشوں کو چھوڑکر دنیا سے الگ تھلگ اپنے رب عزوجل کی عبادت شروع کردی، اللہ عزوجل میری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے۔ جب بادشاہ نے یہ سنا،تو کہنے لگا: ”میرے بھائی !جو کچھ تو نے کیا میں تو تجھ سے زیادہ اس کا حق دار ہوں۔یہ کہتے ہوئے وہ گھوڑے سے اتر ا ،اور اسے وہیں چھوڑ کر اس نیک شخص کے ساتھ چل دیا۔ چنانچہ وہ دونوں بادشاہ ایک ساتھ رہنے لگے،اور اب وہ ہر وقت اپنے رب عزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے ، اور انہوں نے دعا کی:” اے ہمارے پرور دگار عزوجل! ہمیں ایک ساتھ موت دینا ۔”
چنانچہ ان دونوں کا ایک ہی دن انتقال ہوا اور ان کی قبریں بھی ایک ساتھ ہی بنائی گئیں۔ یہ حکایت نقل کرنے کے بعد حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ”اگر میں مصر میں ہوتا تو ان کی قبروں کی جو نشانیاں ہمیں اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بتائی ہیں مَیں ان کی وجہ سے انہیں ضرور پہچان لیتا اور تمہیں وہ قبریں ضرور دکھا تا۔
” (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبد اﷲ بن مسعود، الحدیث: ۴۳۱۲، ج۲، ص۶۶ا۔۱۶۷) (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم) عُیُوْنُ الْحِکَایَات (مترجم) (حصہ اوّل) مؤلف : امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی المتوفیٰ ۵۹۷ ھـ