یہ بگ تھری نہیں ٹھگ تھری ہیں

India

India

دوستو! وقت بدل جاتا ہے لیکن گھوڑیاں، ٹھگ ،چودھری ہمارے دائیں بائیں اسی طرح موجود رہتے ہیں۔ ہمارے قیمتی ایٹمی اثاثے ٹھگنے کے لئے عالمی ٹھگ بھارت اسرائیل اور امریکہ کی صورت میں موجود ہیں اللہ نہ کرے کہانی مکمل طور پر ایسی ہو جائے جو میں نے بیان کی ہے ابھی بادشاہ نور جہاں کے مقبرے کے پاس ہے ابھی مریدکے اور کامونکی آنا ہے ایمن آباد باقی ہے۔اب یہ ہمارے رستم چودھریوں کا کام ہیں کہ وہ آنکھیں کھول کر دوست اور دشمن میں پہچان کریں پگیں اور شملے تب ہی اچھے لگتے ہیں کہ سوار کے نیچے سواری بھی اچھی ہو اور وہ اپنی ہو۔ہماری اچھی سواری ہماری ایٹمی قوت تیرا اللہ نگہبان۔یہ بگ تھری نہیں ٹھگ تھری ہیں۔

گئے وقتوں کی بات ہے ایک تھا ملک اور اس کے بہت او سے بادشاہ تھے ان میں اچھے بھی تھے اور میرے جیسے بھی۔بادشاہ رعایا کے ساتھ بہت پیار کرتا تھا اور رعیت اپنے شہ کی شاہ سے زیادہ وفادار تھی۔اسے بہت شوق تھا کہ اس کی رعایا خوش وخرم رہے۔اس نے اپنے وزیروں سے کہہ رکھا تھا کہ نئے افکار نئی سوچ اور آئیڈیے سامنے لائے جائیں۔ وہ چاہتا تھا کہ اس ملک میں لوگ خوش وخرم رہیں اس نے دودھ کی نہریں بنانے کا سوچ رکھا تھا اونچے نیچے پل بس خرابی یہ تھی کہ وہ اس نیک کام میںپوری فیملی کو ساتھ رکھا کرتا تھا۔ونڈ کھائیے تے کھنڈ کھائیے اور شیرینیاں انھوں کی طرح بانٹا کرتا تھا اس کاخیال تھا کہ لوگ خوش ہوں گے تو اس کی حکومت بہت اچھی چلے گی لوگوں سے مراد اپنے لوگ تھے اور اپنون سے مراد اپنا خاندان۔بادشاہ کو طرح طرح کے شوق تھے۔ایک بار اس نے ایک بہت خوبصورت گھوڑی خریدی۔اس گھوڑی کی قیمت مارکیٹ میں موجود گھوڑیوں سے دس گنا تھی۔بادشاہ کے ایک کارندہ ء خاص نے اسے بتایا کہ اگر یہ گھوڑی خرید لی جائے تو دنیا میں ہمارا ڈنکا بجے گا۔آس پاس کے لوگ ڈر جائیں گے انہیں جب معلوم ہو گا کہ پڑوسی ملک کے پاس بہترین سواری ہے تو وہ اپنے بھاڑے کے ٹٹوئوں سے اور بھی نالاں ہوں گے اور حقیقت بھی یہی تھی کے پڑوسی ملک کے پاس جو ٹٹو تھے وہ انتہائی نالائق تھے۔

وہ دوڑتے تو ضرور تھے مگر کسی بھی میدان میں وہ کامیاب نہ ہوتے تھے۔پڑوسی ملک کے بادشاہ کو پڑوسی ملک کے بادشاہ کی گھوڑی سے جیلیسی سی پیدا ہو گئی تھی۔پڑوسی ملک کو بادشاہ کے ملک سے چڑ تھی اصل میں وہ اس ملک کو سرے سے غائب کر دینا چاہتا تھا۔اسے جب بھی چودھری رستم بادشاہ کی کامیابیوں کی کہانیاں سننے میں ملتیں وہ اس کا توڑ کر لیتا۔گھوڑی بہت خوبصورت تھی۔پنج کلیان گھوڑی کے چاروں پائوں میں کالے ڈورے اور اس کے کان دو رنگے تھے سفید رنگ کی اس گھوڑی کے ماتھے پر سیاہ سا داغ تھا ایسے جیسے چاند پر ہوتا ہے لمبی بڑے بالوں والی دم رکھنے والی اس گھوڑی کی شان نرالی تھی اس نے اسے بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا۔بڑے پاپڑ بیلے تھے اس ملک کے لوگوں نے ،چودھری رستم سے پہلے لوگ اس گھوڑی کے حصول کے لئے گھاس بھی کھاتے رہے تھے خوش نصیبی یہ کہ کہ وہ رستم بادشاہ کے دور میں اس ملک کو ملی۔دنیا کے میلے میں چودھری رستم کی گھوڑی کو اگر اترنے کا موقع مل جاتا تو وہ فاتح عالم بھی بن سکتی تھی۔مگر ایسا نہ ہو سکا۔چالاک پڑوسی نے بگ تھری کا حصہ بن کر اس گھوڑی کو چرانے کی کوشش شروع کر دی۔

اس نے ٹھگوں کا ایک ٹولہ تیار کیا ۔ٹرائیکا نہ سوچا کہ اگر میلے میں چودھری رستم کی گھوڑی میدان میں اتری تو ہمارے ٹٹو تو فیل ہو جائیں گے۔انہوں نے پلان کیا کہ چودھری رستم اگلے سال بیسا کھی کے میلے میں ایمن آباد آئے گا۔ ایک ٹھگ نے قلعہ لاہور سے نکلنے والے رستم چودھری کو راستے میں لوٹنے کا پروگرام بنا لیا۔بادشاہ ایک روز بن ٹھن کر گھوڑی پر بیٹھ کر نکلا۔پہلا ٹھگ راوی کے اس پار نورجہاں کے مقبرے کے پاس گھات لگا کر بیٹھ گیا۔جیسے ہی چودھری رستم اس کے سامنے آیا اس نے اپنا سر زمین کے قریب لے جاتے ہوئے کہا بادشاہ سلامت جان کی امان چاہوں تو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ رستم چودھری نے کہا بولو۔اصل میں یہ سواری آپ کو سج جچتی نہیں ہے آپ کس قدر خوبصورت ہیں مگر یہ رنگ برنگی گھوڑی آپ کے ساتھ ذرا بھی جوڑ نہیں رکھتی۔بادشاہ نے قدرے ناگواری سے اس کو دیکھا اور کہا ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔اچھی خاصی تو ہے۔

ٹھگ اپنا کام کر چکا تھا گائوں سے جیسے ہی باہر نکلا تو سوچا کوئی تو ایسی بات ہو گی جو اس شخص نے گھوڑی میں دیکھی ہوگی مریدکے پہنچنے کے تک بادشاہ کے دل میں بال آ گیا اس نے گھوڑی کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔وہاں اسے دوسرا ٹھگ مل گیا اس نے اسے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ گھوڑی ہم جیسے میراثیوں کے لئے ہے جو سال کے بعد پولے لینے زمینداروں کے ہاں جاتے ہیں آپ کہاں اور یہ گھوڑی کہاں۔چودھری رستم نے ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا اور سوچا کہ کہ پہلے والے نے بھی یہی کچھ کہا تھا وہ غلط ہو سکتا ہے یہ تو نہیں۔ٹھگ نے بادشاہ کو پریشان دیکھ کر کہا بادشاہ سلامت اس گھوڑی کو ہمارے حوالے کر دیں اس کے کاٹھ نکال لیں اور جانجھریں بیچ دیں آپ کے کام آئیں گے ۔ہم آپ کے لئے اچھی سواری کا بند و بست کر دیں گے۔ٹھگ کی چاپلوسی اور خوشا مد نے چودھری رستم بادشاہ وقت کو گھوڑی سے یکسر بد ظن کر دیا اور حتی کے وہ بیساکھی کے میلے میں پہنچنے سے پہلے ہی اس گھوڑی سے متنفر ہو گیا۔اس نے سوچ لیا کہ دنیا اس گھوڑی کی وجہ سے نفرت کرتی ہے۔

Kamonki

Kamonki

واقعی یہ گھوڑی بادشاہ وقت چودھری رستم کی آن بان سے میچ نہیں کرتی۔ کامونکی پہنچتے وقت بادشاہ اس گھوڑی سے نکو نک ہو چکا تھا اسے گھن آ رہی تھی کہ وہ کس پر سوار ہے وہاں تیسرا ٹھگ اسے مل گیا اور بادشاہ سلامت نے اس کی باتیں سننے سے پہلے ہی اسے گھوڑی دے دی۔میلے میں بادشاہ پیدل پہنچا وہ کیا دیکھتا ہے کہ مقابلے کا آ غاز ہو چکا ہے اور ایک دھواں اڑاتا ہوا شاہسوار اونچا لمبا شملہ پہنے ایک گھوڑی پر سر پٹ دوڑتا ہوا آ گے بہت آ گے آ رہا ہے دھول میں سے غور سے دیکھا تو چودھری رستم کی گھوڑی پر پہلے والا ٹھگ بیٹھا نظر آیا۔ بادشاہ کو علم ہو گیاکہ اس کے ساتھ دھوکہ ہو گیا تھا۔چودھری رستم بادشاہ وقت پیدل کھڑا ہونقوں کی طرح کبھی گھوڑی کبھی سوار اور پھر اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا۔

اس کی گھوڑی میدان مار رہی تھی اس کا مکار ہمسایہ دشمن ازلی ٹھک وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا بے وقوف چودھری رستم خان کو دیکھ رہا تھا لوگوں کے ساتھ چکر کرنے والے کو اس بار پنکچر لگ گیا تھا۔اونچے اور لمبے شملے والے بادشاہ وقت چودھری رستم خان زمین پھٹنے کا منتظر تھا مگر زمینیں بھی غیرت مندوں کو جگہ دیتی ہیں۔اسے یہ رسوائی دیکھنی تھی اس کے کانوں میں گونجتے قہقہے اس کی کم عقلی پر ماتم کر رہے تھے میلہ ایمن آباد کی بیساکھی کا میدان مکار دشمن مار چکا تھا۔وہ جان چکا تھا کہ میرے ملک کی آن بان اور شان اسی گھوڑی کی وجہ سے ہے اسے یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور جسے وہ اپنا ہمدرد اور پسندیدہ سمجھتا رہا ہے وہ دراصل اس کا اور اس کے وطن کا ازلی دشمن ہے۔لیکن دھیر ہو چکی تھی۔

دوستو!وقت بدل جاتا ہے لیکن گھوڑیاں، ٹھگ ،چودھری ہمارے دائیں بائیں اسی طرح موجود رہتے ہیں۔ہمارے قیمتی ایٹمی اثاثے ٹھگنے کے لئے عالمی ٹھگ بھارت اسرائیل اور امریکہ کی صورت میں موجود ہیں اللہ نہ کرے کہانی مکمل طور پر ایسی ہو جائے جو میں نے بیان کی ہے ابھی بادشاہ نور جہاں کے مقبرے کے پاس ہے ابھی مریدکے اور کامونکی آنا ہے ایمن آباد باقی ہے۔اب یہ ہمارے رستم چودھریوں کا کام ہیں کہ وہ آنکھیں کھول کر دوست اور دشمن میں پہچان کریں پگیں اور شملے تب ہی اچھے لگتے ہیں کہ سوار کے نیچے سواری بھی اچھی ہو اور وہ اپنی ہو۔ہماری اچھی سواری ہماری ایٹمی قوت تیرا اللہ نگہبان۔یہ بگ تھری نہیں ٹھگ تھری ہیں۔

(جناب مظہر لودھی ہنڈائی جدہ کا شکریہ۔ان کی بتائی ہوئی حکایت سے مآخذ۔وہ آج بتا رہے تھے کہ ایک بار ایک فلائیٹ لیٹ ہوئی تو شلوار قمیض پہنے ہٹے کٹے داڑھی رکھنے والے مگر انگلش بولنے والے بڑی تعداد میں مجھے ملے میں حیران رہ گیا یہ افغانی دکھائی دینے والے امریکن کہاں سے آ گئے۔۔لودھی صاحب یہی وہ لوگ ہیں جو گھوڑی چرانے پاکستان میں موجود ہیں۔ایک ریمینڈ ڈیوس ڈیوس گیا ہے باقی تو ادھر ہی ہیں۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر:انجینئر افتخار چودھری