تحریر : نوشاد حمید قارئین اس مشہور و معروف حکایت سے یقینا واقف ہوں گے جس میں ایک ایسے بادشاہ کا ذکر ہے جو دُوسرے مُلک سے آئے ٹھگوں کے ہاتھوں بے وقوف بنتا ہے۔ وہ یوں کہ ٹھگ بادشاہ سے کہتے ہیں کہ اُن کے پاس ایسا لباس ہے کہ جسے صرف عقلمند ہی دیکھ سکتے ہیں، بیوقوف کو وہ نظر نہیں آتا۔ اور یوں وہ بادشاہ کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر اُسے ننگا کر کے اپنا نام نہاد جادوئی لباس پہنانے کی اداکاری کرتے ہیں۔ چونکہ بادشاہ کے درباریوں میں سے کوئی بھی خود کو بیوقوف کہلوانے کو تیار نہیں ہوتا، اس لیے سارے بادشاہ کے تن پر اَن سجے لباس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیتے ہیں۔ بادشاہ ان ٹھگوں کو شاہی خزانے سے بیش بہا ہیرے جواہرات دے کر رخصت کر دیتا ہے اور پھر اپنے محل سے باہر نکل کر رعایا کو اس خاص لباس کے درشن دینے جاتا ہے۔
رعایا بادشاہ کو عریاں حالت میں دیکھ کر بھی خوف کے عالم میں زبان سے ایک لفظ ادا کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ مگر ہماری اس مملکتِ پاکستان میں ایک پٹھان، بادشاہ کو دیکھ کر پُکار اُٹھتا ہے کہ بادشاہ ننگا ہے۔ اس پٹھان کو چُپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر وہ پھر بھی پُکار رہا ہے۔ اب جا کر بادشاہ کو احساس ہوا ہے کہ اُسے ٹھگوں نے تو بے وقوف بنایا ہی بنایا ہے، مگر اس ناٹک میں اُس کے درباریوں نے بھی اُسے مطلق اندھیرے میں رکھا۔ یہ عقل مند بادشاہ ہے ماضی کا خود ساختہ امیر المومنین، قوم کا اِکلوتا نجات دہندہ اور قائد اعظم ثانی عزت مآب میاں محمد نواز شریف۔ ہر نااہل آدمی کے ساتھ یہی مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ اُسے اپنی قابلیت پر یقین نہیں ہوتا سو وہ اپنے ارد گرد ایسے خوشامدی اور مداری اکٹھے کر لیتا ہے جو اُسے اُس کے عظیم ترین ہونے کا یقین دلاتے رہیں۔ اُسے عقلِ کُل اور ناگزیرِ سلطنت قرار دیتے رہیں۔ ایک ایسی شخصیت جس کے بغیر خدانخواستہ مُلک کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ سو’مُلکی سا لمیت’ اور ‘عظیم تر قومی مفاد’ کی خاطر شخصی اقتدار کو طول دینے کا ایک غیر جمہوری ایجنڈا اپنا کر ہر جائز ناجائز حربہ اپنایا جاتا ہے۔ مگر جس طرح کوئی بحری جہاز ڈوبنے لگے تو سب سے پہلے اس جہاز کے اندر چوہے اُسے چھوڑ کر رخصت ہوتے ہیں۔ یہی حال ان سیاسی چوہوں کا ہوتا ہے جو حکمران کو اندھیرے میں رکھ کر اقتدار کی چُوری میں سے اپنا حصّہ کُترتے رہتے ہیں مگر اقتدار کی نیّا ڈولنے لگے تو فٹا فٹ سب کچھ سمیٹ لپیٹ کر دُوسرے سیاسی بیڑے میں چھلانگ لگا دیتے ہیں اور اپنے سابق آقا کی سیاسی کشتی کی رُسوائی اور ذِلت کے سمندر میں غرقابی کے منظر کو دُور سے خندہ لب دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔ اور پھر خوشامدوں کا سلسلہ اگلے آقا کی سیاسی موت تک جاری رہتا ہے۔
نواز شریف موجودہ دور کا نیرو ہے۔ اس میں اقتدار کسی اور کو سونپنے کا حوصلہ نہیں۔ اب جب کہ اسے یقین ہو چلا ہے کہ اقتدار کا ہُما اُس کے سر سے رخصت ہونے والا ہے اور مستقبل میں اُس کے خاندان کے کسی اور فردکے سر پر حکمرانی کا تاج نہیں سجے گا تو اُس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ جاتے جاتے نیرو کی مانند مُلکی سلامتی، ریاست کے وقار اور اداروں کے تقدس کو اپنے انتقام کی آگ میں پُوری طرح بھسم کر کے جائے گا۔ آنے والے کے لیے اقتدار پھولوں کا تاج نہیں بلکہ کانٹوں کا جال ثابت ہو گا۔ اس اہم موڑ پر نواز شریف کو جتنا وقت زیادہ مِل رہا ہے، مُلک و قوم کے لیے اتنا ہی مہلک اور نقصان دہ ہے۔ کیونکہ اگر اسے اپنے خوفناک منصوبوں پر عمل درآ مد کا وقت مِل گیا تو پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر محاذ آرائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔ اس کے بیرونِ مُلک ہمدرد جن میں بہت سے پاکستان دُشمن افراد اور ادارے شامل ہیں، اس کی امداد میں کامیاب ہو گئے تو اگلے چند ماہ پاکستان کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاناما کیس کا فیصلہ جتنی جلدی آ جائے اُتنا ہی بہتر ہے۔
نواز شریف اپنے آخری دائو کھیل رہا ہے۔ ان آخری دائو میں سے ان کا ایک پسندیدہ اور آزمودہ دائو جلائو گھیرائوکے ذریعے سیاسی عدم استحکام کی صورتِ حال کو جنم دینا ہے۔ جس کی بدولت یہ ماضی میں مخالف حکومتوں کو گھُٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے رہے۔ مگر ایک پریشانی آ کھڑی ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ آج ان کے پاس وہ ہزاروں سر پھرے کارکن نہیں ہیںجو ان کی ایک صدا پر اپنا تمام تر مستقبل اور معاش دائو پر لگانے کو تیار ہو جاتے تھے۔ جو شریفوں کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی عزت وناموس کی پرواہ کیے بغیر میدانِ کارزار میں کُودجاتے تھے۔ سپریم کورٹ پر ہلّہ بولنا ہو، تحریک نجات میں پیپلز پارٹی کی حکومت اُلٹانی ہو، پولیس کی گولیوں اور ڈنڈوں سوٹوں کا مقابلہ کرنا ہو، عدلیہ بحالی تحریک کے پردے میں زرداری حکومت کی رِٹ کو متاثر کرنا ہو، سرکاری املاک کو نذرِ آتش کرنا ہو، مخالفین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا ہو، غرضیکہ جلائو گھیرائو اور محاذ آرائی کی سیاست کے انجن میں ان کارکنوں کے خون پسینے کو بطور ایندھن بھرا جاتا تھا اور پھر کام کی تکمیل کے بعد انہیں طاقِ فراموشی پر رکھ دیا جاتا تھا۔ کارکن اپنے لیڈروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے، مگراقتدار کے چاند پر براجمان لیڈر زمین کی اس ادنیٰ مخلوق سے کیسے مِل سکتے تھے۔ 2013ء کے آر اوز الیکشن کے بعد انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب کارکنوں کی بھی ضرورت نہیں۔ بس پیسہ خرچو اور اُوپری سطح پر معاملات طے کر لو۔ پر خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ پاناما کیس تیار ہو گیا۔ جس نے معاملات کو نوّے کی دہائی کی سیاست میں لا کھڑا کیا۔ اب ان کی سیاسی گیم اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے تو آج انہیں دھتکارے، لتاڑے کارکنوں کی یاد بے طرح آ رہی ہے۔ فون کھڑکائے جا رہے ہیں۔ دروازوں پر جا کر رابطے کیے جا رہے ہیں۔ پتا لگتا ہے کہ کچھ بیچارے تو ذِلت اور بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر زندگی ہار بیٹھے۔
کچھ نے سیاست سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔ اور کچھ نے ایسی پارٹیوں میں جگہ بنالی جہاں اُنہیں مقام و مرتبہ مِلتا تھا ۔ یہ پُورا زور لگا رہے ہیں مگر انہیں کارکن دستیاب نہیں ہو رہے۔ چند خوشامدی وزراء و مشیران کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی کھڑا نظر نہیں آ رہا۔اس وقت نواز شریف کو اپنے سیاسی جنازے پر بین ڈالنے والے بھانڈوں کی نہیں، بلکہ کفن پوش جنگجوئوں کی ضرورت تھی۔ نام نہاد یوتھ وِنگ کی جانب سے جے آئی ٹی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں پندرہ بیس سے زیادہ لوگ نظر نہیں آتے اور ‘نوجوانوں’ کے اس مظاہرے میں کوئی بھی پچاس سال کی عمر سے نیچے نہیں ہوتا۔ یہ ہے ان کی نوجوان نسل میں مقبولیت اور ان پر اثرات۔ فرعونِ وقت کی رعونت کس طرح پاش پاش ہو چکی ہے کہ یہ کارکنوں کو فون کرتے ہیں تو کوئی ان کا فون اُٹھانے کو تیار نہیں ہوتا۔ اور اُٹھا بھی لے تو آئیں بائیں شائیں کر کے ٹال رہا ہے۔ کیونکہ سارے ان کی فطرت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ یہ کس طرح سے انہیں استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح دانستہ فراموشی کی ڈسٹ بِن میں پھینک دیں گے۔ یقینا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ شریف برادران جو کئی مرتبہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے عہدوں پر براجمان رہے۔
ہر سیاہ سفید کے مالک رہے۔ اُن کے پاس احتجاج کرنے کی خاطر چند سو کارکن بھی میسر نہیں۔ مان لیا کہ کرپٹ ہیں، جھوٹے ہیں، سازشی ہیں۔ مگر اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی والے بھی کرپٹ تھے، اس کے باوجود سندھ میں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان کارکن ان کے ایک اشارہ پر مر مٹنے کو تیار ہیں۔ نواز شریف نے کبھی عوام اور کارکنوں میں اپنی جڑیں بنانے کی کوشش ہی نہیں کیں، ہمیشہ پیسے کی چمک اور لوگوں کی خرید و فروخت پر انحصار کیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک بھی انہیں کارکنوں کی یاد نہ آئی کیونکہ اسی زعم میں مبتلا تھے کہ عدلیہ، میڈیا، انتظامیہ جہاں جہاں ضرورت پڑی، چمک کام دے جائے گی۔ مگر قدرت سب سے بڑی منصوبہ ساز ہے۔ اس کے فیصلوں کے آگے سارے قارون، فرعون و شداد بے بس ہو جاتے ہیں۔ آج ان پر ان کی کرتوتوں کی باعث بڑی مشکل آن پڑی ہے۔ کارکن تو بیچارے مظلوم تھے، کروڑوں اربوں سمیٹنے والے ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی بھی ان سے جان چھُڑانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔چند روز میں استعفوں کی مُوسلادھار بارش ہونے کو ہے۔ اطلاعات کے مطابق چند ایسی اعلیٰ شخصیات کے بھی استعفے تیار ہیں جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ یعنی گھر کے بھیدی ہی لنکا ڈھانے کو تیار ہیں۔ کوئی رشتے داری، کوئی قُربت کام نہیں آئے گی۔میڈیا پر ان کی صفائیاں پیش کرنے والے ممبران اسمبلی اور ترجمانوں میں سے ایک قبیل تو فصلی بٹیروں کی ہے جو بہت جلدی اُڑ جائیں گے دُوسرے کچھ مجبور قسم کے ممبرانِ اسمبلی ہیں جو جانتے ہیں کہ نواز شریف کی کرپشن کی صفائی پیش کرنا جُوئے شیر لانے سے کم نہیں، پھر بھی نوکری بچانے کی خاطر اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے وزیر مشیر تو نالائق تھے ہی، اس سے زیادہ نالائق ان کے وکلاء ہیں۔ جن کی ججوں کے سامنے بودے دلائل دیتے ہوئے گھگی بندھ جاتی ہے مگر باہر آ کر بڑھکیں مارتے پھرتے ہیں۔ اعتماد کا یہ عالم ہے کہ اخباری رپورٹس کے مطابق اس وقت ایک سول انٹیلی جنس ادارے کو اُن سو کے قریب ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی کی خفیہ نگرانی پر لگا دیا گیا ہے جن کے بارے میں قوی امکان ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کو عنقریب داغِ مفارقت دینے والے ہیں یا پھر اُن کا فارورڈ بلاک تشکیل پا رہا ہے۔ یہ ہے ان کی نام نہاد جمہوری پارٹی اور اپنے ممبرانِ اسمبلی پر اعتماد کی تشویش ناک صورتِ حال۔
سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کی ہنگامہ خیزی تو کچھ بھی نہیں،ابھی تو ہولناک انکشافات کے زیادہ خوفناک دھماکے ہوں گے۔ ابھی تو اور بہت سی دستاویزات زیرِ بحث ہی نہیں آئیں، جب ان پر بات ہو گی تو معلوم ہو گا کہ کرپشن کے پیسے کن گھنائونے اور انسانیت دُشمن کاموں میں استعمال ہوئے، بڑی دِل دہلا دینے وال داستانیں باہر آئیں گی۔ جے آئی ٹی ممبران کے پاس ایسے حقائق آ گئے ہیں، جن کی انہیں بھی توقع نہیں تھی۔وہ اس وقت خوف کی ایسی فضا میں ہیں کہ اپنی فیملیز کو سیکیورٹی خدشات کے باعث بیرونِ ملک شفٹ کر چکے ہیں اور خود بھی جان بچانے کی خاطر کچھ عرصہ مُلک سے باہر رہنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس وقت نواز شریف اکیلا کھڑا ہے اُس کے اپنے عزیز و اقارب بھی اس سیاسی بحران میں اُس سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔سپریم کورٹ میں ہونے والا فیصلہ وزیر اعظم کے خلاف نہیں، بلکہ پُوری مسلم لیگ نواز کٹہرے میں کھڑی ہے۔ نواز شریف اپنی ہی تخلیق کردہ بدعنوانی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ آج اُسے اپنے وہ جانثاراور سرفروش کارکن ضرور یاد آ رہے ہوں گے جن کے ساتھ اُس نے پُورے سیاسی کیریئر میں کبھی وفا نہیں کی۔ نواز شریف کی ہار اُس کے دُھتکارے ہوئے کارکنوں کی جیت ہے۔
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا