تحریر : محمد عبداللہ بھٹی بلا شبہ یہ میری زندگی کی عظیم ترین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی تھی جب میں اجمیر شریف (بھارت) میں شاہِ اجمیر سلطان الہند ‘عطائے رسول ‘نائب رسول ‘ خواجہ خواجگان ‘حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے در پر صدیوں کی پیاس بجھانے خالی جھولی پھیلائے سوالی بن کر بیٹھا تھا ‘غریب نواز سرکار نے فطری فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے جیسے گناہ گار کا دامن بھر دیا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ایک خاص نور ، روشنی ، سرشاری ، جذب ، مستی اور خاص سحر نے مجھے اپنی گرفت میںجکڑ رکھا ہے یہ کامل سکون اور سرشاری کی ایسی کیفیت تھی جس سے میں پہلی بار واقف ہوا۔آفتابِ علم و روحانیت کی تیز شعائوں سے میں اپنے دل و دماغ کو روشن کر رہا تھا ۔میری روح ، جسم اور دماغ کو ایسی مقوی غذامل رہی تھی کہ میرے دماغ اورباطن کے بعید ترین گوشے روشن اور سیراب ہو رہے تھے۔
میں جذب ، مستی اور سرشاری کے نقطہ عروج پر تھا میں اپنی شہ رگ تک نشے اور سرور میں غرق تھا۔خالق بے نیاز نے آج میری انتہائی شدید خواہشوں میں سے ایک پوری کی تھی جو میرے جیسا گنہگار ، سیاہ کار آج غریب نواز کے در پر پڑا تھا ۔شدت جذبات ، مسرت ، شادمانی ، سرشاری ، جذب مستی جب حد سے بڑھ گئی تو میرے جسم پر لرزا طاری ہو گیا آہستہ آہستہ میری پلکیں نم ہوتی چلی گئیں آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے میں نے بولنے کی کوشش کی لیکن ایک بھی لفظ میرے ہونٹوں کی قید سے آزاد نہ ہوسکا ۔بس ہونٹوں کو ہلکی ہلکی جنبش ہو رہ تھی میرے دل و دماغ اور روح کی کشادگی بڑھتی چلی گئی برسوں پرانی مشکل پیچیدہ گرہیں کھلتی چلی گئیں ۔ دل و دماغ اور روح کی سیاہیاں روشنی میں تبدیل ہوتی گئیں روح اور دل و دماغ کے زنگ اور بنجر پن کی جگہ تازگی آتی چلی گئی ۔یہ میری زندگی کے ایسے لمحات تھے کہ اگر میری عمر قیامت تک دراز ہو جائے تب بھی میں اللہ کی رحمت اورغریب نواز کے فیض کاشکر ادا نہیں کر سکتا۔
کافی دیر بعد جب میں اِس کیفیت اور سرشاری سے نکلا تو اپنے ساتھی ہندو اجے کمار کی طرف دیکھا جو انڈین سول سروس کا بہت بڑا آفیسر تھااور بچپن سے وہ اور اُس کا خاندان غریب نواز کے در پر ماتھا ٹیکنے آتے تھے ۔ وہ حیرت و استعجاب میں ڈوبا کسی پتھر کے مجسمے کی طرح ساکت بیٹھا تھا اُس کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں تھا ۔ اُس کی یہ حالت میرے لیے حیران کن تھی ۔میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ میں زندگی میں جب بھی کبھی پریشان ، اُداس یا مشکل میں ہوتا ہوں تو سارے کام چھوڑکر غریب نواز کے در پر آجا تا ہوں کیونکہ جو سکون مجھے یہاں ملتا ہے وہ دنیا کہ کسی مندر یا جگہ پر نہیں ہے ۔ میں اکیلا ہندو یہاں نہیں آتا بلکہ یہاں پر آنے والوں میں 70فیصد ہندو ہوتے ہیں ۔ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اچانک بہت شور بلند ہوا جیسے کوئی مشہور آدمی آیا ہے پوچھنے پر پتہ چلا کہ مشہور انڈین اداکارہ کترینہ کیف سلام کرنے آئی ہے۔
Akbar Azam
اداکارہ نے آنے سے پہلے 100من کی دیگ پکانے کا آرڈر دے دیا تھا جو اُس وقت انڈین کرنسی میں سوا لاکھ میں تیار ہوتی تھی ‘قارئین جانتے ہونگے کہ مغل بادشاہ اکبر اعظم نے بیٹاہونے پر یہاں 100من کی دیگ کی منت مانی تھی بعد میں جہانگیر مغلیہ بادشاہ نے 50من کی دیگ کی منت مانی تھی دونوں باپ بیٹے کی مرادیں جب بھر گئیں تو دونوں نے یہاں پر دیگیں بنوا کر رکھ دیں ‘صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی یہ دیگیں آج بھی جوں کی توں موجود ہیں۔جب بھی کسی کی مراد پوری ہوتی ہے تو وہ آکر دیگ پکوا کر غریبوں میں بانٹ دیتا ہے ۔ ہماری قسمت کہ جس دن ہم دربار پر پہنچے تو سو من کی دیگ پک چکی تھی لہذا ہم نے بھی غریب نواز کا لنگر کھایا ۔اجے کمار بتا رہا تھا کہ ہندوستان فلم انڈسٹری کے تمام لوگ یہاں سلام کرنے آتے ہیں زندگی کے باقی شعبوں سے تعلق رکھنے والے بھی ذوق شوق سے یہاں حاضری دینا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔
واپسی پر اجے کمار نے ادب اور احترام سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا جناب مجھے لاہور میں آپ سے ایک کام ہے آپ وہ کر دیں گے نا؟ اُس کی آنسوئوں سے بھیگی دھندلی آنکھوں میں ایک التجا تھی ۔ جناب میری بچپن سے ایک خواہش ہے کہ کبھی لاہور میں داتا صاحب کو سلام کہوں اور اپنا ماتھا ٹیکوں لیکن ابھی تک موقع نہیں ملا میری خواہش آپ نے پوری کرنی ہے ساتھ ہی اُس نے نذر کے لیے کچھ پیسے بھی دئیے ۔ میں حیرت سے اُس کو دیکھ رہا تھا اُس کی داتا صاحب علی ہجویری سے عقیدت و احترام میرے لیے حیران کن تھا میں نے اجے کمار سے وعدہ کیا کہ واپس جاتے ہی تمھارا سلام پہنچائو ں گا ۔اِس کے بعد ہم بھارت میں جس بھی دربار پر گئے داتا کے پروانوں نے یہی گذارش کی کہ داتا علی ہجویری کو ہمارا سلام ۔ حضرت نظام الدین کا گدی نشین حضرت امیر خسرو کے دربارکا قوال اور نعت خواں جامع مسجد دہلی کا موذن اور نبی کریم ۖ کے نوادرات کا چابی بردار انڈین وفاقی وزیر گولڈی سنگھ کی ماتا جی جو تقسیم پاکستان سے پہلے گوجرانوالا میں رہتی تھی اور داتا حضور اپنی ماں کے ساتھ سلام کرنے آتی تھی ۔ چندی گڑھ کا لاڈی سنگھ سر ہند شریف کا گدی نشین اور خادم ِ دربار حضرت بو علی قلندر کا نگینہ فروش اور صابر کلیر چشتی کا پھول فروش ،گُڑ گائوں کا ریٹا ئرڈ سکھ پولیس آفیسر ، اَمرتسر کا دھاری وال سنگھ ، چاندنی چوک کا فیصل آباد کا رہنے والا منندر سنگھ جس نے ساڑھیوں کا بل لینے انکار کر دیا ۔شملہ پولیس کا سکھ نوجوان جے پور کا کبوتروں کو دانا ڈالنے اور بیچنے والا ۔ میوات کا عبدالقدوس اسلامی سنٹر دہلی کا کمپیوٹر آپریٹر اور بہت سارے۔
محترم قارئین آخر کیا بات ہے کہ پوری دنیا میں سید علی ہجویری کے چاہنے والے موجود ہیں اور سلام بھیجتے ہیں۔ ماضی حال کے تمام مورخ اور اہل علم آپ کو ولیوں کا سردار اور داتا صاحب کہہ کر پکارتے ہیں اور مستقبل پر بھی آپ ہی کی گرفت نظر آتی ہے ۔ جس نے تمام عمر شہرت اور داتا کہلوانے کو نا پسند یدہ نظروں سے دیکھا لیکن قیامت تک وہ داتا گنج بخش کے نام سے امر ہو گیا ہے ۔ خدا نے آپ کو ایسا تاج شاہی پہنایا ہے کہ جسے قیامت تک اندیشہ زوال نہیں ہے ۔آپ کی ابدی شہرت پر نہ سایا زوال ہو گا نہ ہی جلتا سورج اثر انداز ہو گا اور نہ ہی باغیانہ موسم اثر انداز ہونگے ۔ آپ شہرت اور احترام کے اُس مقام پر ہیں کہ جہاں اقتدار آسمانی کے سوا ہر اقتدار کی نفی ہوجاتی ہے ۔ ایک ایسا مردِ کامل جس کی ایک جنبش چشم سے لاکھوں بیمار اور پیاسی روحوں والے سیراب ہو چکے ہیں اور ہوتے رہیں گے ایسا چشمہ معرفت جو صدیوں سے لوگوں کے بے نور دماغی اور روحانی گوشوں کو علم و معرفت کی ضیاء باریوں سے منور کر رہا ہے ۔ جس کے آنے سے بت پرستوں کی صفیں ٹوٹ گئیں کافرانہ عقائد کے مضبوط قلعوں میں گہرے شگاف پڑ گئے ماتھوں پر سجے قشقے کھرچ دئیے گئے اور گلوں میں پڑے زنار توڑ کر پھینک دئیے گئے ۔صنم خانوں کی بلندبوس دیواریں زمین بوس ہو گئیں ۔ صدیوں سے گمراہی کے اندھیروں میں غوطہ زن پجاریوں کو جگا کر اُن کے چہروں کو ایمان کی روشنی سے منور کر دیا ۔آج کل آپ کا 971عرس منایا جا رہا ہے ۔ آپ کا ہر عمل سنتِ نبوی ۖ کے مطابق تھا ۔ لوگ فرطِ عقیدت اور محبت سے آپ کو داتا گنج بخش کہہ کر پکا رتے تھے مگر آپ اِس لقب سے سخت بیزاری کا اظہار کرتے اور کہتے داتا تو صرف ایک ہے یعنی اللہ۔