بادی النظرایسا لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف ان کی حلیف اتحادیوں کے اندرون خانہ فاروڈ بلاک گروپ نے طے کرلیا ہے کہ اگر ان کے تحفظات دور نہیں کئے گئے تو وہ حکومت کی تبدیلی کے لئے کسی بھی ”قوت“ کا ساتھ دینے سے گریز نہیں کریں گے۔ جس طرح آٹا بحران پر حکومت پر یکدم افتاد پڑی، گمان یہی کیا جارہا ہے کہ چار چھوٹی لیکن کنگ میکر سیاسی جماعتوں کا بیک وقت وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج،اتفاق نہیں ہوسکتا، خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ ق کے حوالے سے ذرائع سے جو خبردے رہے ہیں، وہ ان خدشات کو تقویت دیتے ہیں کہ چوہدری برادرن کے لئے پنجاب کے وسیم اکرم پلس ٹیم کو تبدیل نہیں کیا جاتا، تو مجبوراََ وہ ایسے اتحاد کے آگے”سرنگوں“ہوسکتے ہیں جو ”عوام کے وسیع تر مفاد“ میں انتہائی ضروری خیال کیا جائے گا۔وفاقی حکومت کو ڈیڑھ برس گذر چکا ہے۔ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے حکومت اپنے تمام پتے کھیلنے کے باوجود حالات بہتر نہ بنا سکی۔
معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لئے تجربہ کار ٹیم ہونے کے باوجود، انتقامی سوچ کے ساتھ سیاسی پنڈتوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وزیر اعظم اس وقت مافیاز کے شکنجے میں ہیں اور ان کی مرضی ہو یا نہ ہو، مافیاز نے وزیر اعظم کو سخت و راست اقدام کرنے سے روکا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کے اردگرد حلقے پر عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی انگلیاں اٹھانا شروع کردیں ہیں کہ ایسا لگتا ہی نہیں ہے کہ وزیر اعظم جس ویژن کے ساتھ”لائے“گئے تھے، ان کی کابینہ کامیاب کرانے میں معاونت کرے گی۔ پاکستانی سیاست میں عجلت و فروعی مفادات ہمیشہ مقدم رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی بھی حکومت کو سکون کے ساتھ اپنے منشور کے مطابق اطمینان سے کام کرنے کا موقع میسر نہیں آیا، اپوزیشن ہمیشہ حکومت کے خلاف سرگرم رہی اور حکومت کو گرانے کے لئے ہر ممکن غیر معاوندانہ رویہ اختیار کیا، یہ ہر حکومت کے ساتھ ہوتا رہا ہے، اپوزیشن کے اس روایت کو پی ٹی آئی نے بھی برقرار رکھا تھا، لہذا اب پی ٹی آئی خود بھی اسی روایت کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوچکی ہے۔
وزیر اعظم کو ناپسندیدہ و غیر مقبول فیصلے کرنے پڑے۔ جس سے پی ٹی آئی ورکر تک دل برداشتہ ہو ئے۔ اتحادیوں سمیت پی ٹی آئی کے فاروڈ گروپ (ناراض اراکین) ترقیاتی فنڈز کا جلد ازجلد حصول چاہتے ہیں، کیونکہ بلدیاتی انتخابات میں اپنے ہم خیال احباب کی کامیابی کے لئے انہیں عوام کو ”سبز باغ“ دیکھانا انتہائی ضروری ہے، عوام کو بھی قانون سازی کے بجائے اپنے مسائل کے حل سے زیادہ دلچسپی ہے، اس لئے اراکین اسمبلی فنڈ نہ ہونے کا راگ الاپ کرکر کے تھک گئے ہیں، انہیں اپنی کامیابی کے لئے کروڑوں روپوں کے اخراجات کی ریکوری کی بھی ضرورت ہے اور آنے والے انتخابات کے لئے بھی بھاری رقوم درکار ہوگی، چونکہ سیاست اب خدمت نہیں رہی، بلکہ تجار ت کا درجہ اختیار کرچکی ہے اس لئے تجارتی خسارے سے تمام سیاسی جاعتیں متاثر ہو رہی ہیں۔
پے در پے وفاقی حکومت کے وزرا ء کے خلاف مختلف اسکنڈلز اور رویوں کے سبب وزیر اعظم کو اپنے منشور کو کامیاب بنانا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ وقت پَر لگا کر اُڑ رہا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات سے سیاسی ماحول میں بڑی تیزی سے تبدیلی کے آثار دکھائی دینا شروع ہوگئے ہیں۔وزیراعظم نے شاید سوشل میڈیا ٹیم پر مکمل اکتفا کرلیا ہے کہ وہ حکومت کی کارگزاری بڑھا چڑھا کر پیش کریں، مخالفین کو جیسا کہ تیسا جواب دیں، نرمی نہ برتیں، درحقیقت موجودہ حکومت نامساعد حالات میں اس بُری طرح الجھی ہوئی ہے کہ اُن کی توقعات کے برعکس ملکی معاشی و سیاسی حالات بدتر سے بدتر ہوتے جارہے ہیں،وزیر اعظم کے سامنے مکمل طور پر ایسی صورتحال ہے جہاں انہیں اپوزیشن سے زیادہ اپنے ”گروپ سیون“ ”گروپ ٹوئنٹی“ ٹائپ کے بلاکوں سے خطرات کا سامنا ہے۔ اختلافات جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے، لیکن اختلافات ہیں کیا، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اراکین اسمبلی و سینیٹرز اپنے حلقوں میں ترقیاتی فنڈز فراہم کرنے کے مطالبے کئے جارہے ہیں، جب کہ حکومت کے خزانے میں ترقیاتی کاموں کے لئے وافر مقدار میں فنڈز موجود نہیں ہیں کہ وہ اپنے ہی اراکین اسمبلی کو مطمئن کرسکیں،قانون سازی کا سار ا محور اشرافیہ تک محدود رہا ہے۔
نچلی سطح کے لئے قانون سازی میں عوام کو سہولیات کی فراہمی کا فقدان زیادہ نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے عوام کی پریشانیاں عروج پر ہیں، انہیں یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں۔ایک کے بعد ایک بحران موجودہ حکومت کے لئے پریشانی کا سبب بنتا جارہا ہے، بحرانوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم کو تمام ریاستی اداروں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہونے کے باوجود پریشانیوں کا سامنا ہے۔ عوام کی مایوسی کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔سیاسی پنڈتوں نے تبدیلی کے آثار میں وزیراعظم کی ناتجربہ کاری یا مصلحت پر مبنی کمزوری کو اہم سبب قرار دیا ہے۔ وزیراعظم کے اب تک کئے جانے والے کسی اقدام سے عوام میں تبدیلی کو محسوس تک نہیں کیا گیا، بلکہ عوام سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ موجودہ حکومت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
اہم امر یہ بھی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے بھی عوام کا اعتماد اٹھ سا گیاہے۔ میڈیا ہاوسز کی ترجیحات کی بنا پر عوام کو حقیقی رہنمائی فراہم ہونے میں دقت کا سامنا ہے۔ میڈیا کو دیوار سے لگانے کی کوششوں سے تنقید کے ہر اُس ذریعے کو روکنے کی کوشش کی گئی، جس سے اصلاح لے کر حکومت اپنی سمت درست کرسکتی تھی۔ چار کنگ میکر سیاسی جماعتوں کا مشترکہ پلان کیا ہے؟، اس کے خدوخال ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور عوام کو سمجھنے میں دشواری نہیں ہے کہ انہیں ”کسی“ اشارے کا انتظار ہے اور پھر آناََ فاناََ ملکی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے میں وقت نہیں لگے گا، گرتی پڑتی حکومت اب وقت کو نکال رہی ہے، ان کا بیانیہ عوام کے سامنے آچکا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے تمام تر حالات خراب ہوئے اور انہیں درست کرنے میں وقت لگے گا، لہذا اس بیانیہ کوعوام میں مقبول بنانے کی کوشش شروع ہوگئی ہے تاکہ آئندہ انتخابات کے لئے قبل ازوقت مکمل تیاری کے ساتھ بھرپور مینڈیٹ حاصل کیا جا سکے۔