ہم سے مگر مطالبہ

king

king

ایک بادشاہ شکار کیلئے اپنے لائو لشکر کے ساتھ جنگل گیا سارادن خوب ہلا گلا ہوتا رہا کئی جانور شکار کئے نشانہ بازی بھی ہوتی رہی سورج ڈھلنے لگاتو اس نے ایک چشمے کے قریب موزوں جگہ خیال کرتے ہوئے پرائو کا حکم دیا اِدھر شکار کئے جانوروں کے گوشت سے ضیافت کااہتمام کیا جارہا تھاادھر بادشاہ نے اپنا پسندیدہ لباس زیب ِ تن کیا وہ بن سنور کر درباریوں کے درمیان شگوفے سن رہا تھا کہ اس کی نظر شاہی لباس پر پڑی تو پریشان ساہوگیا کہ گریبان کے نیچے دھاگہ ٹوٹا اور بٹن لٹکاہوا تھا اس نے اسی وقت ایک وزیربا تدبیر کو بلاکر قریبی بستی سے درزی کو طلب کیا۔۔۔کچھ ہی دیر بعد ایک مفلوک الحال درزی حاضر تھا اس نے بادشاہ کے حضور آداب بجا لاتے ہوئے سوئی دھاگہ نکالا بادشاہ لباس ا تارنے کیلئے کھڑا ہونے ہی والا تھا کہ اس نے عرض کی ۔۔بادشاہ سلامت! ایسے ہی بٹن لگ جائے گا آپ فکر نہ کریں درزی نے چند منٹ بعد بٹن لگا دیا اور دھاگہ توڑنے کیلئے حسب ِ عادت دانتوںکا استعمال کیا تو اس کی گال بادشاہ کی چھاتی سے چھو گئی۔

بادشاہ نے اسی وزیر کو طلب کیا اور درزی کو ایک لاکھ روپے دینے کا حکم دیا۔۔ وزیر نے حیرت سے بے ساختہ کہا اتنی زیادہ اجرت۔۔۔ بادشاہ نے کہا اب درزی کو دو لاکھ دیکرعزت سے رخصت کرنا۔۔۔وزیر کی عقل گم ہوگئی اس نے پھر کچھ کہنے کیلئے لب کھولے ہی تھے کہ بادشاہ نے اشارے سے اسے جانے کا حکم دیتے ہوئے درزی کو چار لاکھ دینے کی ہدایت کی۔۔۔وزیر چپ چاپ درزی کو لیکر شاہی خیمے سے باہر نکلا بادشاہ کے حکم کے مطابق انعام دیکر رخصت کردیا چند دن بعد بادشاہ کا موڈ خوشگوار دیکھ کر وزیر نے کہا بادشاہ سلامت! جان کی امان پائوںتو میں کچھ پوچھنا چاہتاہوں بادشاہ نے مسکرا کر کہا پوچھ کیا پوچھنا چاہتے ہو؟۔۔۔ وزیر نے استفسار کیا حضوروالا! درزی میںکیا خوبی تھی جو آپ نے اسے اس قدر انعام سے نواز دیا۔۔۔ بادشاہ نے وزیر کو کہا خوبی درزی میں نہیں تھی بات یہ ہے

دھاگہ توڑتے وقت درزی کی گال میری چھاتی سے چھو گئی تھی تب میرے دل میں احساس پیداہوا اگر اب بھی درزی کی حالت نہ بدلی تو میں کیسا بادشاہ ہوں میرے وجود کو چھونے کے باوجود وہ غریب ۔۔ غریب ہی رہے ۔۔۔حکمران تو پارس پتھر کی مانند ہوتے ہیں ان کو چھونے والے سونا بن جاتے ہیں۔۔۔ لیکن ہمارے وطن میں تو شاید الٹی رسم چل پڑی ہے یہاں ہر سیاستدان عوام کو کبھی اپنا سگا بھائی کہتاہے۔۔۔کبھی ان کے حقوق کیلئے جینے مرنے کی قسمیں کھاتاہے۔۔۔ اور کبھی عوام کی قسمت بدلنے کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عملاً ان کی بہتری کیلئے کچھ بھی نہیں کیا جاتاپاکستان میں اب تلک درجن بھر صدور اور وزارت ِ عظمیٰ پر فائز ہوچکے ہیں ہر حکمران کو یہ” کریڈٹ ”حاصل ہے کہ اس کا کبھی کوئی غیرملکی دورہ ناکام نہیں ہوا۔۔۔ ہر حکمران کا دعوےٰ ہے کہ اس نے عوام کیلئے اپنے اچھے اچھے کام کئے ہیں کہ ان کا نام تاریخ میں امر ہوگیا۔۔۔

Inflation

Inflation

تقریباً ہرحکمران کا کہنا ہے اس نے اتنے تاریخی اقدامات کئے ہیں کہ اب ملک میں غربت ختم ہوہی جائے گی۔۔۔اتنے دعوے۔۔ سارے وعدے۔۔۔اورہزارہا منصوبے تقریروں، خطابات اور کاغذوں میں دفن ہوگئے۔۔ حکمرانوں کے اثاثے، عوام کی محرومیاں ، ہوشربا مہنگائی، اذیت ناک بیروزگاری اور نفرتیں بڑھتی ہی چلی گئیں کسی نے بھی مربوط حکمت ِ عملی یا ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی ۔ڈھیلے ڈھالے اقدامات، بااثر شخصیات اور کرپشن نے قانون کو مفلوج کرکے رکھ دیابھٹوکو عوام نے فخر ِ ایشیا،ضیاء الحق کو مرد ِ مومن مرد ِ حق۔۔میاں نواز شریف کو قائد ِ اعظم کا جانشین، شیرشاہ سوری،صدر زرداری کو سب پہ بھاری کا خطاب دیا اور میاں شہباز شریف کومرد ِ آہن اور نہ جانے کون کون سے القاب دے ڈالے۔۔۔ ملک کی تقریباً ہر سیاسی جماعت کو اقتدار دیکر ازمایا لیکن مسائل حل ہوئے نہ عوام کی حالت بدلی حالانکہ ہر رہنما خودکو پارس سمجھتاہے۔۔ہر سیاستدان اپنے آپ کو پاکستان کیلئے ناگزیر قرار دیتاہے۔

ہر پارٹی کے پاس لمبے چوڑے منشور ہیں۔۔ہرحکمران کی جیب میں اعدادوشمار سے عوام کو ریلیف دینے کا جادو موجودہے پھر ہر چہرہ مایوس،ہر دل افسردہ اورہرشخص پریشان کیوں ہے؟ اور تو اور ۔۔عوام نے جس رہنما کو دعائیں مانگ مانگ کر وزارت ِ عظمیٰ پر فائز کیا تھااس کا چہرہ بھی اداس ہے۔۔ لوگ اس کو مسکراتا دیکھنے کو ترس گئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ عوام نے جن کو اپنا رہبر و رہنما بنایاہے ان کی بدولت عام آدمی کی حالت کیوں نہیں بدلتی؟ غربت عوام کا مقدر ،بے بسی ان کی تقدیرکیوں بن گئی ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے جب تلک ہمارے لیڈر وںکا ظاہر باطن ایک نہ ہو ۔۔وہ رسما ًنہیں حقیقتاًعوامی فلاح بہبودکیلئے میدان میں آجائیں ورنہ یہی سمجھا جائے گا

خود رہبران ِ قوم میں الائشوںمیں گم
ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے

آج پاکستان کو بھی ایسے ہی حکمرانوںکی ضرورت ہے جن کو چھونے والے سونے جیسے بن جائیں ۔۔۔ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر آپ بھی بتائیں کیا یہ خواہش ہر پاکستانی کی نہیں ہے؟

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی