بادشاہ نظام الدین

King Nizamuddin

King Nizamuddin

تحریر: ریاض بخش
پرانے وقتوں کی بات ہے ایک بہت بڑی ریاست تھی۔ ریاست کے باشندے اپنے حکمران سے بہت خوش تھے۔ اس ریاست کا جو بادشاہ تھا اس کا نام نظام الدین تھا۔ نظام الدین سے عوام بہت خوش تھی کیونکہ نظام الدین نے چھوٹی عمر سے ہی بادشاہت سنبھالی اور بڑے اچھے اچھے طریقے سے ریاست کا خیال رکھ رہا تھا۔ نظام الدین کی سب سے اچھی بات عوام کو یہ لگی کہ اس نے شادی نہیں کی’ نظام الدین سے اکثر اور ریاستوں کے بادشاہ پوچھتے تھے کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے تو نظام الدین یہ کہتے کہ اگر میں نے شادی کر لی تو مجھے اپنی بیوی کو ٹائم دینا پڑے گا اور وہ ٹائم میری عوام سے کٹ جائے گا اور میں اپنی عوام سے بہت محبت کرتا ہوں اور وہ محبت میں کسی اور سے بانٹ نہیں سکتا۔ بس یہی وجہ تھی جو عوام نظام الدین سے بے انتہا پیار کرتی تھی’ سب خوش تھے۔

ایک دن ایسا آیا کہ ریاست پہ برا ٹائم شروع ہو گیا جنگیں شروع ہو گئیں۔ نظام الدین بہت بہادر تھے۔ جرأتمندی سے برے ٹائم کا سامنا کیا مگر برا ٹائم کم نا ہوا عوام اور بادشاہ نے بہت محنت کی تب جا کر کچھ حالات بدلے۔ ایک دن نظام الدین کے دربار میں ایک اور بادشاہ آیا۔ وہ 2 ریاستوں کا مالک تھا۔ اس بادشاہ نے نظام الدین کو کہا کہ میں نے جنگ تو آپ سے کرنی ہے اور مجھے پتہ بھی ہے کہ میں جیت جائوں گا۔ نظام الدین نے کہا کہ اگر تم کو یقین ہے تو یہاں کیوں آئے ہو۔

دوسرے بادشاہ نے کہا کہ اس طرح میں جیت گیا تو میں تیرا سارامال و دولت لوٹ لوں گا یہ برسوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ مگر میں کچھ اور کرنا چاہتا ہوں ہم کچھ ایسا کرتے ہیں جب ہم جنگ لڑے گیں اگر آپ جیت گئے تو میں اپنی ریاست اپنا سب کچھ پیار سے آپ کو دے دوں گا اور اگر میں جیت گیا تو آپ کو اپنی ریاست مجھے دینا ہو گی۔ نظام الدین نے بنا سوچھے سمجھے ہاں کر دی یہ جانتے ہوئے کہ اس کا سامنا 2 ریاستوں کے بادشاہ سے ہونا ہے۔ جس کی فوج بھی کئی گنا زیادہ تھی۔خیر جنگ شروع ہوئی کئی مہینے جنگ چلتی رہی آخرکار نظام الدین کی فتح ہوئی اور جنگ جیت گئے۔ دوسرے بادشاہ نے اپنی ہار تسلیم کر لی۔ اب نظام الدین جیسے چاہتا دوسری ریاست پے قبضہ کرسکتا تھا۔ دوسرے بادشاہ نے بھی کہہ دیا کہ اب میری ریاست پے حق تمہارا ہے۔

Muhabbat

Muhabbat

نظام الدین نے سوچا کچھ الگ ہونا چاہئے جس سے دوسری ریاست کے لوگوں کے دلوں میں میری محبت پیدا ہو سکے۔۔۔ نظام الدین نے اپنے وزیروں سے بھی مشورہ کیا مگر سب بے فائدہ۔۔ نظام الدین نے کافی سوچا اس کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ میں دوسری ریاست کے بادشاہ کی بیٹی سے شادی کر لیتا ہوں۔ اس طرح میری حکومت دوسری ریاست پے بن جاے گی۔۔۔ خیر نظام الدین نے دوسرے بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرلی اس طرح نظام الدین کو ریاست کے ساتھ ساتھ اور بھی کافی مال و دولت مل گیا۔ دن گزرنے لگ گئے دونوں ریاستوں کو نظام الدین اچھے طریقے سے چلا رہے تھے۔ نظام الدین کو پھر پیغام آیا جنگ کا۔ خیر نظام الدین نے ٹوٹل 40 ریاستیں فتح کی اور ہر ریاست کے بادشاہ کی بیٹی سے شادی کی اس طرح نظام الدین کی ٹوٹل 40 بیویاں ہو گئیں۔ اب نظام الدین کی ریاستیں بھی بڑھ گئی اور عوام بھی۔ کچھ عرصہ تو ٹھیک چلا۔ بچارہ نظام الدین بری طرح پھنس گیا۔ ناباہر سکون نہ گھر۔ باہر جائے تو عوام شور مچاتی گھر آئے تو بیویاں۔

نوبت یہاں تک آگئی کہ عوام اور بیویوں نے بغاوت شروع کر دی۔ عوام نے کہا کہاگر ہمیں ٹائم نہیں دے سکتے تو ہماری ریاست چھوڑ دو۔ بیویوں نے بھی یہی کہا نظام الدین بہت پریشان رہنے لگ گیا۔ اسے پتہ تھا کہ اگر عوام کو ٹائم نہ دیا تو ریاستیں مجھ سے چلی جائیں گی اور ریاستیں چلی گئیں تو میرے باب دادا کی آن کو لیک لگ جائے گی اور اگر بیویوں کو طلاق دی یا وہ چھوڑ کر گئی تو بھی میری ریاستیں اور عوام مجھ سے دورہو جائے گی۔ ااگر بیویوں کو طلاق دی یا وہ چھوڑ کر گئی تو بھی میری ریاستیں اور عوام مجھے سے دور ہو جائے گی۔ ایک طرف کھائی تھی تو دوسری طرف آگ جس طرف بھی جاتا مرنا ہی تھا۔ نظام الدین نے بہت سوچا اور عوام کے سامنے آہ گیا سب ریاستوں کی عوام کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور ان سے خطاب کیا اور کہا کہ مجھے 40 دن کا ٹائم دو اگر میں آپ لوگوں کو راضی نا کرسکا تو میں خود آپ کی ریاستیں چھوڑ دوں گا پھر چاہے آپ جس کو مرضی بادشاہ بنائو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

عوام راضی ہو گئی اور یہ سوچ کر ہاں کر دی کہ جہاں پہلے اتنے سال گزر گئے ہیں وہاں 40 دن اور سہی۔ نظام الدین گھر آیا اور اپنی بیویوں کو اکٹھا کیا اور ان سے بھی 40 دن کا ٹائم کا لے لیا ۔ اب نظام الدین نے اپنا کام گھر سے شروع کیااور اپنی پہلی بیوی کے پاس گیا اور ان کو کہانی سنانا شروع کی اور End نابتا یا دوسرے دن ۔دن کو عوام کے سامنے گیا اوران کوبھی ایک کہانی سنائی مگر End نہ بنایا۔ رات کو دوسری بیوی کے پاس گیا اس کو بھی ایک کہانی سنائی اور ختم نا کی نظام الدین اسی طرح 40 دن لگاتار عوام اور اپنی بیویوں کو کہانی سناتا رہا روز ایک نئی کہانی اور کوئی بھی کہانی ختم نا کی۔ نظام الدین نے ایک بات کا خاص خیال رکھا جو کہانی اپنی پہلی بیوی کو سناتا وہ دوسری کو نا سناتا ہر ایک کو بدل بدل کر کہانی سناتا۔

Public

Public

اب عوام اور بیویاں دونوں نظام الدین کی کہانیوں میں مست ہو گئے۔ بیویاں سارا دن انتظار کرتی رات ہونے کا اور عوام ساری رات انتظار کرتی دن ہونے کا۔ نظام الدین نے جتنی بھی کہانیاں سنائی اس میں کسی کا بھی اختتام نہیں کیا کسی کہانی کا End نہیں کیا۔ جب عوام اور بیویاں کہانی کے End کا پوچھتے۔ تب نظام الدین کہتا کہ کل بتائوں گا اور روز ایک نئی کہانی شروع کر دیتا اور اس طرح سب کہانیوں کے End رہ جاتے۔ 40 دن بعد نظام الدین اپنی بیویاں سے کہا کہ مجھے چھوڑ کر آپ لوگ جانا چاہتے ہیں تو جائیں میں آپ کا خیال نہیں رکھ پایا۔ مگر بیویوں نے کہا کہ ہم تو نہیں چھوڑ کر جانا چاہتی بچاریاں کیا کرتی End اور کہانی کی لالچ میں سب بھول گئیں۔ نظام الدین نے شکر کیا اور عوام کے سامنے آ گیا۔ عوام نے بھی نظام الدین کو بادشاہت جاری رکھنے کا کہا صرف اور صرف End جاننے کے لیے۔ بس پھر کیا نظام الدین روز سب کو کہانیاں سناتا اور ریاستوں پے اپنی بادشاہت جاری رکھی۔

یہ تھی ایک بادشاہ یا ایک ریاست کی کہانی جو پڑنے میں بہت مزے دار لگی ارو ایسی کہانیاں ہم ایک بار پڑھ لے تو جلدی بھولتے نہیں ۔۔مگر جو ہمارے ساتھ ہوتا ہے وہ ہم بہت جلد بھول جاتے ہے ۔ہمیں اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہے جو اس نے ہمیں بھولنے جیسی بیماری دی۔اکثر میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ میں میری یاداشت بہت کمزرو ہے مگر جب اس سے کوئی بچپن کی یا خوشی کی بات پوچھوجس کو عرصہ بیت گیا ہو وہ فٹا فٹ بتا دے گا۔

ہمارا حال بھی کچھ نظام دین کی ریاست جیسا ہے۔جس طرح نظام دین نے اپنی عوام کو سوچو میں گم کر دیا کچھ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہے ۔ نظام دین کو عوام برداشت نہیں کرسکتی تھی۔لیکن نظام دین نے ایسی چال چلائی ایسی کہانیاں سنائی کہ عوام یہ بھول گیی کہ ہم نظام دین سے چھٹکارا چاہتے ہے۔ نظام دین ہر روز اپنی عوام ارو اپنی بیویوں کو کہانی سناتاارو ختم نا کرتا ۔عوام ارو بیویاں پچھلی کہانی کا اختتام سننے کیلیے بے تاب رہتے ۔مگر نظام دین ہر روز کہانی بدل دیتا پچھلی کہانی کو ختم کیے بغیر ارو سب کو یہی کیہتا کہ کل پچھلی کہانی کا end بتاو گا عوام ارو بیویاں مجبور ہو جاتی ارو ایک نی کہانی سنتی۔ نظام دین کا وہ کل کبھی ناں آتا۔اس طرح نظام دین کی سلطنت قائم رہی ارو نسل در نسل چلتی رہی۔۔

اب آ جاوہمارے پاکستان کی طرف میں نا پروزمشرف کازکر کرو گا نا ہی آصف علی زردای کا کیونکہ ان دونوں نے پنچابیوںکو کوئی کہانی نہیں سنائی۔ مشرف صاحب آے انہوں نے جو کیا ہم سب جانتے ہے ۔آصف صاحب آئے انہوںنے بس اپنا کوٹہ پورا کیا ۔ اسیے جیسے بھوکے غریب بچوں کو مفت کا کھانا مل گیا ہوارو وہ یہ سوچ کر کھانے پہ اٹیک کرتے ہو ں جیسے ابھی ہم سے چھین لیا جاے۔جتنا ہم کھا سکتے ہے کھا لیے پتہ نہیں دوبارا ملتا بھی ہے یا نہیں ۔۔خیر میں اپنی یہ تحریر سیاست کی طرف نہیں لیجانا چاہتا کیونکہ میںتو بس ایک کہانی بیان کر رہا ہوں۔

Shahbaz Sharif and Nawaz Sharif

Shahbaz Sharif and Nawaz Sharif

کل ٹوبہ ٹیک سنگ میں میاں نواز شریف ارو میاں شہباز شریف آئے ہوے تھے پہلے میاں شہباز شریف نے تقریر کی ارو اس کے بعد میاں نواز شریف کی باری آئی نواز شریف نے میاں شہباز شریف کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا کہ بڑی حیران کن بات ہے کہ میاں شہباز شریف کی تقریر بنا mic توڑے مکمل ہو گئی ۔یہ بات میاں نواز شریف نے سہی کہی کیونکہ میاں صاحب کی تقریر کبھی پوری ہی نہیں ہوتی جب تک میاں صاحب جوش میں نا آئے ارومیک نا توڑے ارو عوام کو بھی مزہ نہیں آتا جب تک میاں صاحب شیر کی طرح گرجے نا۔

میں نے میاں صاحب کے ہاتھوں میک ٹوتے بہت دیکھے ہے پچھلے کچھ سالوںمیں شہاز شریف ہمیں کہایناں ہی سنا رہے ۔۔بہت ساروں جلسوں میں میاں صاحب نے میک توڑتے ہوئے کہا کہ اگلے سال یا چھ ماہ بعد لوڈشیدنگ ختم نا ہوئی تو میرا نام بدل دینا یہ بھی کہا کہ اگر لوڈشیدنگ ایک سال میں ختم نا ہوئی تومیرا نام بدل دینا خیر لوڈشیدنگ تو ختم نہیں ہوئی ہاں البتہ اتنا فرق ضررو پڑا ہے کہ جہاں 8 گنھٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی وہاں اب 12 گنھٹے ہو رہی ہے۔بس اتنا سافرق پڑا ہے۔عوام ارو گورمنٹ اچھی طرح جانتی ہے یہ پروجیکٹ کافی مشکل ہے ٹائم لگے گا کوئی سال یا چھ ماہ میں نہیں پورا ہونے والا۔۔ہاںایک طرح سے جلد پورا ہو سکتا ہے اگر عوام یا گورمنٹ کے پاس آلا دین کا چرغ آ جائے جو رگڑ جائے ارو ہمارا کام ہو جاے۔مگر آلادین کا چرغ ملنا بھی مشکل ہے۔

ہمارا ملک جس گہرائی میں گر گیا ہے اس کو نکانے میں ٹائم تو لگے گامگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دان ہمیں روز کہانیاں کیوں سناتے ہے؟سچ کیوں نہیں بولتے ہاں سچ تھوڑا کڑوا ہے مگر عوام تو ذہر کھانے کیلے ہر وقت تیار ہے روز ایک نیا بہانہ بنانے سے تو اچھا ہے کہ ایک بار ہمیں سچ بتا دیا جائے تاکہ ہم روز ایک نی کہانی تو نا سنے۔ مگر ہمارے سیاست دانوں کو سچ بولنے کا ٹائم ہی کہاں ہے ۔وہ تو بس روز ایک نی کہانی بنانے میں مصروف کبھی تو عمران خان دھاندلی کا شورمچا رہے ارو میاں صابیان پہ الزام تراشی کر رے ہے تو کہی ppعمران خان کو برا بھلا کہہ رہی ہے۔نظام تو یہ اپنا چلا رہے ہے۔

مگر عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ویسے بھی یہ ہمارے سیاست دان اپنی اپنی باری کا انتظارر کر رہے ہے۔ہاں ٹھیک ہے کرو انتظارمگر عوام کو تو مت کہانیاں سناو۔جتنا ٹائم یہ لوگ ایک دوسرے پہ الزام تراشی یا نچہ دکھانے میں صرف کرتے ہے اگر وہی ٹائم وہی عقل وہی پیسہ اگر عوام پہ خرچ کیا جائے تو ذیادا بہتر ہو گا۔اس میں بھی ان لوگو ںکا ہی فاہدہ ہے روز ان لوگوں کو کہانی نہیں سنانا پڑے گی۔مگر عوام کو تو بس ان لوگوں نے ایک جانور سمجھا ہوا ہے ۔ایسا جانور جس کو ذبح تو نہیں کرتے مگر جب بھی شکار کرنے کا موڈ ہو عوام پہ ہی تیر چلاتے ہے۔

Riyaz Bakhsh

Riyaz Bakhsh

تحریر: ریاض بخش