تحریر : عبد الرزاق قارئین ایک اچھے کالم نگار کی خوبی ہوتی ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی نے سماج کی بہتری کے لیے کوئی اچھا کام کیا ہے تو وہ متعلقہ افراد یا حکومت کی تعریف و توصیف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتابلکہ دل کھول کر داد دیتا ہے اور جب ناقص اقدامات پر تنقید کرتا ہے تو اس جاندار پیرائے میں کہ اقتدار کے ایوانوں تک ان الفاظ کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔اور وہ بے پرواہ قلم کی حرمت کا پاسبان بن کر حق گوئی و بے باکی کا علم بلند کیے کالم نویسی کے سفر میں روا ں دواں رہتا ہے ۔ایک کالم نگار کے قلم کی نوک سے نکلے ہو ے الفاظ کا طمطراق،رعب داب اور دبدبہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ اگر ان کا رخ ظالم کی جانب ہو تو ان الفاظ کی کاٹ تلوار یا خنجر سے کم نہیں ہوتی اور اگر مظلوم کی تسلی،تشفی اور دلجوئی کے لیے لکھے ہوں تو کسی سہارے سے کم نہیں ہوتے ۔ایک معتبر کالم نگار قارئین کی رائے پر اثر انداز ہونے کی بھرپور قدرت رکھتا ہے اور ووہ ایک ایک لفظ کو احتیاط کا دامن تھام کر رقم کرتا ہے اور پھر جب عمدہ اسلوب کا تڑکا لگا کر اپنی تحریر کو موتیوں کی صورت صفحہ قرطاس پر بکھیرتا ہے تو مطالعہ کرنے والا عش عش کر اٹھتا ہے۔
یاد رہے جس طرح صاف شفاف اور عمدہ لباس کسی بھی شخصیت کی نفاست کا آئینہ دار ہوتا ہے اسی طرح ایک کالم نگار کے الفا ظ کا چناو اس کے اسلوب کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ اسلوب کے کس درجہ پر فائز ہے۔ایک مستند کالم نگار کی نشانی ہے کہ وہ خیال آرا تو ہوتا ہی ہے ساتھ ساتھ وہ خیا ل افروزی کے جوہر سے بھی ہمکنار ہوتا ہے۔اس کے ذہن کے کینوس پر پرورش پانے والے خیالات و افکار جب صفحات پر منتقل ہوتے ہیں تو قاری کے لیے علم و دانش اور معرفت کے نئے دریچے کھول دیتے ہیں اور قاری ان کی سیر کر کے معلومات اور علمی بصیرت کے جہاز پر سوار ہو کر آکاش کی بلندیوں پر محو سفر ہوتا ہے اور فرحت بخش احساس کے تخت پر متمکن دکھائی دیتا ہے ۔ قلم کار کی بلند خیالی اور ہنر کی اڑان قاری کو اک نیا آہنگ عطا کرتی ہے۔
کہتے ہیں اولاد خواہ بد صورت ہی کیوں نہ ہو ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے اسی طرح اپنا مضمون خواہ کتنا ہی پھیکا ہو سب سے معتبر ہی لگتا ہے ۔میرے اس خیال کو تقویت اس وقت ملی جب گزشتہ کئی ہفتوں تک ایک نابغہ روزگار ہستی کے پھیکے کالم مسلسل نظروں سے گزرتے رہے۔ موصوف تھوک کے حساب سے کالم لکھتے ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کالموں کی تعداد مہینہ بھر میں سینکڑے کو چھو لیتی ہے ۔ان کے کالموں کی شہرت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یاران محفل میں آفر کی جاتی کہ جو اس صاحب اسلوب کا کالم حرف بہ حرف پڑھ دے اس کو معروف مچھلی فروش کے ہاں سے مچھلی کھلائی جائے گی۔اس کے باوجود کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ یہ نیک کام سر انجام دے سکے اور صاحب فن و کمال کے فن پارے کی معمولی سی بھی جھلک یاران محفل پر آشکار کروا سکے۔
Newspaper
وجہ یہ کہ ہمارے محترم کالم نگار کالم کی اشاعت کے سلسلہ میں اس قدر جلد باز واقع ہوے ہیں کہ شاید ہی کوئی ایسا لفظ ہو جو درست اور مکمل ٹائپ ہو ا ہو ۔اور محترم کی تحریر کے نفس مضمون کو سمجھنے کے لیے بھی ارسطو کی شاگردی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔لکھے موسیٰ پڑھے خدا کے مصداق۔ یہ فریضہ شاید وہ خود ہی انجام دے سکتے ہیں۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے کالم ا خبارات میں پورے طمطراق سے شائع ہوتے ہیں دکھائی یوں دیتا ہے کہ جیسے اخبارات کی سرکولیشن کا انحصار ہی مذکورہ کالم نگار کے کالم پر ہو۔موصوف بلا کے متحرک ہیں۔ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔اور اخبار میں چھپنے والی ہر تحریر پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں مبادا کہ کوئی تخت ہی نہ چھین لے ۔آپ کوئی بھی معلوماتی ویب سائٹ اوپن کریں ۔کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں ان کی تحریر کے پیرہن میں سجے ہوں گے ۔ اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ وہ کالم نگاری کے فن میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔میں جب بھی ان کی تحریر دیکھتا ہوں ،پڑھتا نہیں تو اپنے ناقص خیال کی لاش کو کندھے پر اٹھا کر ندامت کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہوں کہ کہاں راجہ پورس اور کہاں گنگو تیلی مطلب یہ کہ کہاں عمدہ اسلوب کا حامل کالم نگار اور کہاں ہم پھیکے کالموں کے شہنشاہ۔
موصوف کے حلقہ احباب میں چند ایک اور بھی کالم نگار ایسے ہیں جن کے فن کا ان دنوں طوطی بولتا ہے اور ان کے کالم بھی ان کی رفعتوں کے مظہر ہیں۔میں تو سوچتا ہوں کتنے خوش نصیب ہیں وہ اخبار والے جو ان نابغہ روزگار ہستیوں سے مستفید ہو رہے ہیں خدانخواستہ یہ ہستیاں کہیں ادھر ادھر ہو جائیں تو ایسے کالم نگار تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ مل پائیں گے۔کبھی کبھی مجھے شرارت سوجھتی ہے اور میں ان کے طریقہ کار کو کاپی کر کے مضمون لکھنے کی جسارت کر بیٹھتا ہوں مجھے یقین ہے علم و دانش کا منبع یہ افراد میرے اس فعل کو گناہ کبیرہ گردانتے ہوں گے اور بغلیں بجاتے ہوں گے دیکھو دیکھو ہماری نقل ہو رہی ہے ۔کہتے ہیں کہ کھلاڑی با صلاحیت ہو تو ایک دو میچوں میں ہی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا دیتا ہے اپنی صلاحیت ظاہر کرنے کے لیے اسے سینکڑوں میچ درکار نہیں ہوتے۔
اسی طرح صاحب نظر لوگ ایک آدھ کالم دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ صاحب تحریر کی پرواز کہاں تک ہے ۔انہیں اپنی رائے قائم کرنے کے لیے تحریروں کا طومار نہیں چاہیے۔ بعض کالم نگار تو ایسے بلند نصیب ہوتے ہیں کہ لوگ ان کی پہلی تحریر پر ہی داد و تحسین کے ڈونگرے بجانا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ لوگ حسد کا الاو روشن کر لیتے ہیں۔ بہر حال دونوں صورتوں میں ہی یہ بات واضح ہے کہ آپ ایک عمدہ کالم نگار کے روپ میں شہرت کے در پر دستک دے رہے ہیں اور اگر آپ اس صورتحال سے دوچار نہیں ہیں تو پھر آپ کا حال بھی ان جیسا ہی ہے جو ہزاروں کالم لکھ کر بھی اپنی تحریروں کا پھیکا پن ختم نہیں کر سکے۔خدا آپ کو اور مجھے پھیکا کالم لکھنے سے محفوظ رکھے۔ تحریر علامتی طور پر لکھی گئی ہے۔ کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی۔