تحریر: شہزاد حسین بھٹی جب مغل بادشاہ ہمایوں کو شیر شاہ سوری کے مقابلہ میں شکست ہوئی تو اس نے راہ فرار اختیار کرنے کے لئے دریائے جمنا میں اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ شومئی قسمت سے گھوڑا ڈوبنے لگا اور بادشاہ کی جان خطرہ میںآ گئی۔ اس وقت نظام نامی ایک سقہ نے اپنی ہوا سے بھری ہوئی مشک کا سہارا دے کر ہمایوں کو حفاظت سے دوسرے کنارے پہنچا دیا۔ جب ہمایوںکی بادشاہت دوبارہ بحال ہوئی تو اس نے نظام سقہ کو منھ مانگا انعام دینے کا وعدہ کیا۔ نظام نے ڈھائی دن کی بادشاہت کی خواہش ظاہر کی اور ہمایوں نے اسے تخت پر بٹھا دیا۔ اپنی اِس مختصر سی حکومت کے دَوران میں اْس سے اور تو کچھ خاص نہ ہوا بجائے اسکے کہ اس نے شہر میں چمڑے کے سکّے چلوا دئیے جن کے بیچ میں سونے کی کیل جڑی ہوئی تھی۔
یہی حال ہمارے سقے کا ہوا۔ مئی 1980 ء میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی و سابق گورنر غلام جیلانی خان نے اپنی گورنری سنبھالنے کے فوراً بعد یہ گوہر نایاب لاہور کے شہری علاقے سے نہ صرف ڈھونڈ نکالا بلکہ پنجاب کا وزیر خزانہ بنا دیا۔ اسکے بعد مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی کود میں پرورش پائی ۔ اطاعت اور فرمانبرداری کی معراج حاصل کرنے پر بیٹے کا خطاب پایا۔ 1985ء میں غلام جیلانی خان نے جنرل ضیاء کی آشیر باد سے وزارت اعلیٰ عطا کر دی۔وزارت خزانہ سے وزیر اعظم پاکستان تک کا سفر اس سقے نے بہت تیزی کے ساتھ طے کیا۔اور قوم کو یہ یقین دلایا کہ وہ پاکستان کو ترقی کی اعلیٰ منازل تک لے جائے گا۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کے بھٹو کے نعرے کو حقیقی معنوں میںاسکی حکومت( مسلم لیگ ن ) پورا کرے گی۔لیکن ہواکیا؟پاکستانی عوام جسکی تربیت اس انداز میں کی جانی تھی کہ وہ دنیا کی بہترین قوم بنتی اسے تعلیم ، صحت اور روزگار کی فراہمی کے بجائے سٹرکوں اور پلوں کے حسین خوابوں میں روند دیا گیا۔گڈ گورنس اور خادم اعلیٰ جسیے نعرے بھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ہماری ہسپتالوں میں انسانیت سسکتی ہے۔تھانوں میں انصاف کا خون ہوتا ہے۔بے روزگاری کے ہاتھوں آج بھی باپ خود کشیاں کر رہے ہیںاور مائیں اپنی اولاوں کو نہروں اور کنووں کی نذر کر رہی ہیں۔سڑکوںکے جالوںکی پلاننگ کا یہ حال ہے کہ درست پلاننگ اور میٹیرل کا استعمال نہ ہونے کی وجہ سے پہلی برسات ہی ان کے عوام پر احسان عظیم کی قلی کھول دیتی ہے۔
نواز شریف صاحب ! قومیں اخلاق،کردار اور عمل سے بنائی جاتی ہیں سرئیے اور سیمنٹ کے استعمال سے نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میںدیوہیکل تعمیرات نہیں کی گئی تھیں اور نا ہی میڑو کے پل بنے تھے یااورنج ٹرین کے لیے کھدائیاں کروائی گئی تھیں؟ صرف ایک چیز تھی کہ قوم کو عمل دیکھایا گیا تھا کہ ایک حاکم وقت کو کیا کرناہے اور کیا نہیں کرنا۔ اور اس کے لیے حضرت عمرنے اپنے آپ کو عملی طور پر ثابت کیا ۔ وہ راتوں کو مدنیے کی گلیوںکا چکر لگاتے تھے کہ کہیں کوئی بھوکا تو نہیں سو گیا۔ اگر کسی کے گھر میں آٹا نہ ہوتا تو اپنے کاندے پر لاد کر اسے گھر کی ضرورت پوری کرتے۔وہ کہتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کی جواب دہی بھی ان سے کی جائے گی۔ اخلاق کا یہ مرتبہ تھا کہ ایک دن آقائے دو جہاں پر کوڑا نہ پھینکا گیا تو آپ ۖاس بوڑھی اماں کے گھر اس کی خیریت دریافت کرنے جا پہنچے کہ خیر ہو آج اماں نے کوڑا نہیں پھینکا۔ آپ ۖ کے اس اخلاق حُسنہ سے اماں اتنی متاثر ہوئی کہ فوراً مسلمان ہو گئی۔” ایک بار نبی اکرم ۖ گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ ۖ کا بستر مبارک نیا اور انتہائی خوبصورت بچھا ہوا ہے۔ آپ ۖ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا عائشہ یہ کیا ہے۔ اماں عائشہ نے فرمایا کہ یہ بستر ہمسائی عورت نے بھجوایا ہے آپ کے لیے کیونکہ آپۖ کا بستر پرانا اور بوسید ہ ہو چکا ہے۔ آپ ۖ نے فرمایا عائشہ اسے فوراً واپس کر دو۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ نہیں مجھے یہ اچھا لگ رہا ہے میں واپس نہیں کروں گی ۔ آپ ۖ نے متعدد بار کہا اور حضرت عائشہ نے آپ ۖ سے مکالمہ کیا کہ نہیں میں اسے واپس نہیں کرنا چاہتی۔آپ ۖنے فرمایا اے عائشہ اگر میں چاہتا تو یہ پہاڑ سونے کے بنا کر میری جھولی میں ڈال دیئے جاتے اوردُنیا کی تمام آسائشات میرے قدموںمیںڈھیرکر دی جاتیں”۔ لیکن میرے نبیۖ نے ایسانہیںکیا۔ انہوں نے اپنے لیے غربت اور فقیری کو چنا اور اپنے پیٹ پر پتھر باندھے۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خود ی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
قدرت کا امتحان بھی بڑا عجیب ہو ا کر تا ہے۔ کسی کو یہ کب معلوم تھا کہ وہ نواز شریف جسے پی ٹی آئی کے ایک سوچھبیس دن کے دھرنے اورماڈل ٹائون کے شہیدوں کا خون بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا سکا تھا وہ آج یو ں پانامہ کے گھن چکر میں الجھ کر اپنی وزارت اعظمیٰ کی کشتی کو بھنور میں پھنسا بیٹھے گا؟اللہ پاک انسان کی رسی کو دراز ضرور کرتا ہے لیکن ایک دن یہ بھی کھینچ دی جاتی ہے۔تیس سال سے زیادہ عرصے تک اس ملک پر حکمرانی کرنے والوں نے عوام کی حالت زار کو بدلنے کے بجائے اپنی حالت کو بدلنے اہتمام کیے رکھا۔اس ملک کی مائوں اور بہنوں کو کیا پتا تھا کہ وہ جو اپنی چوڑیاں اورپنشن تک اس ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنے اور سنوارنے کے لیے ان کی جھولیوں میں ڈال رہی ہیں وہ بھی ایک دن ان حکمرانوں کی اولاوں کے غیرملکی فلیٹوں، اسٹیل ملوں اوراثاثوں کی نذر ہو جائیں گے؟یہ قانون فطرت ہے کہ جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے۔عوام کی حالت زار تو نہ بدل سکی البتہ انکی حالت ضرور بدل گئی ۔ ان لوگوں کی سوچ اس نظام سقے سے قطعاً مختلف نہیں جس نے ڈھائی دن کی حکومت میں چمڑے کے سکے جاری کیے اور اِنہوں نے اس ملک کے غریب او ر بھوکے ننگے لوگوں کے منہ سے نوالے چھین کر اربوں ڈالرغیر ممالک میں منتقل کر کے جائیدادیں بنا لیں۔ لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ