مملکت سعودی عرب اور انکے موجودہ حکمران

Shah Salman bin Abdul Aziz

Shah Salman bin Abdul Aziz

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری
اللّٰہ اتعالے کے فضل و کرم سے اس پاک سر زمین کو ایسی حکومت ملی ہے جس نے کلمہ توحید کو اپنا شعار بنایا اور ملک کے تمام معاملات چلانے کے لیئے ہمیشہ خالص اسلامی عقیدہ کو اپنے سامنے رکھا اور اس سر زمین پر اسلام کی بالادستی قائم کر رہی ہے اور عدل و انصاف کا پرچم لہرانے میں کوشاں ہے۔

5 شوال 1319 ھجری میں شاہ عبدالعزیز رحمۂ اللہ ریاض میں داخل ہوئے تو انہوں نے عقیدہ توحید ، شریعت اسلامیہ اور امت کی وحدت کو اپنا شعار بنایا ۔ ریاض کی فتح عصر حاضر کی مملکت کا ایک عظیم آلشان کارنامہ ہے جس نے دنیا عرب میں ایک جدید سعودی ریاست کی بنیاد رکھی اور اپنی حکمت اور دانائی سے جزیرہ عرب کی قبائلی سوسائٹی کو ایک ریاست کی لڑی میں پرو دیا ۔ شاہ عبدالعزیز نے خانہ بدوش بدؤں کو خزندگی کا استقرار دیا اور انہیں جدید تمدن کی سیڑھی پر لا کھڑا کیا ۔ انکی کوشش رہی کہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کیا جائے ملک میں امن و امان قائم رہے خوشحالی اور فارغ بالی کا دور دورہ ہو اور اللہ اتعالے کی عطا کردہ قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت وہ اس عظیم ڈھانچے کو قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ ان کی بعد آنے والے انکے حکمران بیٹوں شاہ سعود ، شاہ فیصل ، شاہ خالد ، شاہ فھد ، شاہ عبداللہ اور موجودہ حکمران خادم الحرمیں شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے انکی روایات کو برقرار رکھا اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔

موجودہ فرمانرواں کے دور میں اسلام کی بالادستی حاصل ہے وہاں عدل وانصاف کا پرچم لہرانے اور اسلامی قوانین کے نفاذ میں کوئی کوتاہی نہیں چھوڑتے ہیں ۔اللہ نے ان میں وہ جذبہ اور ہمت دی ہے کہ انہوں نےہمیشہ باطل کے سامنے سینہ سپر رہے لیکن اسلام کے پرچم اور قوانین کو کبھی آنچ نہ آنے دیا۔سعودی عرب کے موجودہ فرمانرواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز ؍حفظہ اللہ نے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد 23 جنوری 2015ء کو زمام حکومت سنبھال لی ہے۔ شاہی فرمان کے تحت 18 جنوری 2012ء کو شاہ سلیمان کو ولی عہد مقرر کیا گیا جس کے بعد انہوں‌ نے اڑھائی برس تک ولی عہد اور نائب وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ پانچ نومبر 2011ء کو انہیں وزیر دفاع کا عہدہ سونپا گیا۔ اس سے قبل وہ پچاس سال تک امیر ریاض کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔

ابتدائی زندگی
شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود پانچ شوال 1354ھ بمطابق 31 دسمبر 1935ء کو ریاض میں پیدا ہوئے۔ وہ سعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعودی کے 25 ویں صاحبزادے ہیں۔ شاہ سلمان نے ریاض میں قائم شاہی محل ہی میں اپنے دیگر برادران کے ساتھ پرورش پائی۔ ابتدائی دور میں بھی شاہ سلمان اپنے والد اور بعد میں بھائیوں کے ساتھ عالمی رہ نمائوں سے ملاقاتوں کے موقع پر موجود رہتے۔

تعلیم وتربیت
شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ابتدائی تعلیم ریاض کے الامرا اسکول سے حاصل کی، جہاں انہوں نے دینی اور عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تعلیم بھی مکمل کی۔ ان کے اساتذہ میں مسجد حرام کے خطیب الشیخ عباللہ خیاط مرحوم سر فہرست ہیں۔

شاہ سلمان کو ابتداء ہی سے حصول علم کا شوق تھا جس کا اندازہ ان کے تعلیمی کیریئر سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں ‌نے کئی اعزازی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ ان کے ذوق علم کی بناٰء پر درج ذیل اعزازی ڈگریاں جاری کی گئیں۔

مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری
مکہ مکرمہ کی جامعہ ام القرایٰ کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری
دہلی کی جامعہ ملیہ الاسلامیہ کی جانب سے بھی ان کی فلاح انسایت اور فروغ تعلیم کے میدانوں میں خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری جاری کی گئی۔

سعودی عرب اور دنیا کے دوسرے خطوں میں خدمات کے اعتراف میں جاپان کی واسیڈا یونیورسٹی کی جانب سے انسانی حقوق کی ڈگری جاری کی گئی۔
اس کے علاوہ انہیں برلن۔ برنڈبرگ سائنسی علوم اور علم الانسان کی جانب سے شاہ سلمان کو “کنٹ” ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

بطور گورنر ریاض
شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز گورنر ریاض کے طور پر کیا، لیکن اس سے قبل وہ چند ماہ ریاض کا گورنر بھی مقرر کیا گیا۔ انہیں 19 سال کی عمر میں 11 رجب 1373ھ بمطابق 16 مارچ 1954ء کو ریاض اور اس کے مضافات میں ڈپٹی گورنر کے طور پر مقرر کیا گیا۔ 25 شعبان 1374ھ بمطابق 18 اپریل 1955ء کو ان کا عہدہ ایک وزیر کے برابر کرتے ہوئے گورنر ریاض بنا دیا گیا۔

ریاض دارالحکومت ہونے کےساتھ ساتھ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے بھی ملک کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس شہر کی نسبت سے ان کے عہدے کی اہمیت بھی کسی دوسرے علاقے سے زیادہ تھی۔ شاہ سلمان نے امیر مکہ کی ذمہ داری پانچ عشروں سے زاید عرصے تک نبھائی۔ ان کے دور میں ریاض ایک چھوٹے سے قبصے سے نکل کر دنیا کے نہایت تیز رفتاری سے ترقی کرنے والے دارالحکومتوں میں شمار ہونے لگا۔ جب انہوں ‌نے امیر ریاض کا عہدہ سنھبالا اس وقت ریاض کی آبادی دو لاکھ تھی جو اب پانچ ملین سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

شاہ سلمان کے دور گورنری میں ریاض میں صرف آبادی ہی میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ شہر ہر اعتبار سے ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ریاض دنیا کے امیر ترین شہروں میں شامل ہونے کے ساتھ علاقائی اور عالمی تجارت کا بھی مرکز بن گیا۔ ان کے دور میں ریاض میں عالمی معیار کا انفرا اسٹرکچر بچھایا گیا۔ تیز اور آرام دہ کشادہ سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا۔ اسکول، اسپتال، جامعات، عجائب گھر اور کھیل کے میدان غرض وہ عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم میٹرو بس سروس کا منصوبہ بھی انہی کے دور میں شروع کیا گیا۔

وزارت دفاع میں خدمات
نومبر 2011ء میں شاہی فرمان کے تحت شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کو مملکت میں وزیر دفاع کا عہدہ سونپا گیا۔ یوں سعودی عرب کی بحری، بری اور فضائی افواج ان کے ماتحت آ گئیں۔ وزارت دفاع کا قلم دان سنھبالنے کے بعد انہوں‌ نے فوج کو بھی نئے خطوط پر استوار کرنے لیے قابل ذکر کارنامے انجام دیے۔ فوج کو عالمی معیار کے مطابق پیشہ ورانہ تربیت دینے کے ساتھ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا۔ انہی کے دور میں سعودی عرب میں فوج کی “سیف عبداللہ” کے عنوان سے فوجی مشقیں ہوئیں۔

دیگر عہدے
شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امارت ریاض اور وزارت دفاع کے علاوہ کئی دیگر اہم حکومتی ذمہ داریاں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ جن میں سے چند اہم ذمہ داریاں درج ذیل ہیں:
۔۔ چیئرمین ریاض ڈویلپمنٹ اتھارٹی
۔۔ صدر سپریم ڈیفنس ڈویلمنٹ ایگزیکٹو کمیٹی
۔۔ شاہ فہد نیشنل لائبریری کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز
۔۔ چیئرمین شاہ عبدالعزیز فائونڈیشن منیجمنٹ
۔۔ سیکرٹری جنرل شاہ عبدالعزیز اسلامک فائونڈیشن
۔۔ اعزازی چیئرمین برائے شاہ سلمان ویلفییر سینٹر۔۔۔۔۔ چیئرمین مجلس منتظمہ ریاض چیئریٹی و سائنس فائونڈیشن
۔۔ اعزازی چیئرمین برائے ریاض پیشنٹس فرینڈز کمیٹی۔۔۔۔ چیئرمین عبدالعزیز بن باز چیئریٹی فائونڈیشن
۔۔ چیئرمین شاہ سلمان آرگنائزیشن برائے ہیومن چیئرٹی۔۔۔۔۔۔ چیئرمین ریاض یتیم ویلفیئر فائونڈیشن
بیرون ملک ان کی اضافی خدمات:
۔۔ سنہ 1956ٰء متاثرین کے لیے فنڈز کمیٹی کے چئیرمین۔۔۔۔۔۔ سنہ 1956ء میں الجزائر میں عطیات جمع کرنے کی کمیٹی کے چیئرمین
۔۔ سنہ 1976ء میں شہدا اردن کے خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے چیئرمین
۔۔ فلسطینی متاثرین کے لیے قائم کردہ قومی کمیٹی کے چیئرمین۔۔۔۔۔۔سنہ 1973ء میں پاکستان میں مصیبت زدگان کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے چیئرمین
۔۔سنہ 1973ء میں مصرمیں متاثرین جنگ کی بہبود کے لیے کمیٹی کے چیئرمین۔۔۔۔۔سنہ 1973ء میں شام میں متاثرین کے لیے قائم کردہ کمیٹی کے چیئرمین
۔۔سنہ 1988ء میں سوڈان میں متاثرین سیلاب کمیٹی کے چیئرمین۔۔۔۔۔سنہ 1990ء میں عراق۔ کویت جنگ کے دوران کویتی متاثرین کی فلاح کے لیے قائم کمیٹی کے چیئرمین
۔۔سنہ 1991ء میں بنگلادیش میں متاثرین سیلاب کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے چیئرمین۔۔۔۔سنہ 1992ء میں بوسنیا اور ھرسک میں متاثرین کے لیے کمیٹی کے چییرمین
۔۔سنہ 1985ء سئ 1992ء تک عرب ممالک، یورپی یونین، امریکا اور کینیڈا میں منعقدہ نمائش”سعودی عرب کل اور آج” کے منتظم اعلیٰ۔
۔۔ سنہ 2000ء میں ریاض میں انتفاضہ القدس کی فنڈ ریزنگ کمیٹی کے چیئرمین

فلاحی سرگرمیاں
شاہ سلمان بن عبدالعزیز سیاسی اور سماجی خدمات کے ساتھ ساتھ فلاح عامہ اور فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہے۔ انہوں نے معذوروں کی بہبود کے لیے ایک ریسرچ سینٹر قائم کیا۔ گردوں کے مریضوں کی بہود کے لیے قائم شاہ فہد بن سلمان چیئریٹی فائونڈیشن کے اعزازی صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ مصنوعی اعضاء کی پیوند کاری کے سرکاری ادارے اور اس نوعیت کے کئی دوسرے اداروں کی بھی اعزازی صدارت سنبھالی۔

فلاح انسانیت کے لیے ان کی خدمات صرف سعودی عرب تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے دنیا بھر میں زمینی اور آفات سماوی کے متاثرین کے لیے ہر ممکن مساعی جاری رکھیں۔ فلاحی خدمات کے اعتراف میں وہ کئی تمغے بھی حاصل کر چکے ہیں۔ بحرین، بوسنیا، الھرسک، فرانس، مراکش، فلسطین، فلیپائن، سنیگال، اقوام متحدہ اور یمن سمیت کئی دوسرے ممالک میں فلاحی خدمات کے اعتراف میں انہیں ایوارڈز دیے گئے۔

انعامات اور تمغے
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو اندرون اور بیرون ملک خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ ترین ریاستی اعزازات سے نوازا جاتا رہا۔ انہیں سعودی عرب کےسب سے بڑے ایوارڈ ‘شاہ عبدالعزیز ایوارڈ’ سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں درج ذیل ایوارڈز بھی جاری کیے گئے۔
انہیں پیرس کے قیام کے 2000 سال مکمل ہونے پر 1985ء میں فرانسیسی صدر یاک شیراک نے ایوارڈز دیا۔

سنہ 1989ء میں شاہ مراکش الحسن الثانی کی جانب سے شہزادہ سلمان کے لیے ‘فکری اہلیتی ایوارڈ جاری کیا۔

۔۔ مملکت میں معذوروں اور فلاح انسانی کی خدمات کے اعتراف میں انعام
۔۔ بوسنیا ہرزوگوینا میں آزادی کی حمایت اور جنگ کے متاثرین کے لیے خدمات کے اعتراف میں میڈل جاری کیا گیا۔ اس کے علاوہ بوسنیا اور ہرزوگوینا کے متاثرین کی بحالی میں مدد فراہم کرنے کے اعتراف میں ایوارڈ جاری کیا گیا۔

۔۔ اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا میں بھوک اور افلاس کے خاتمے کے لیے خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ
۔۔ جمہوریہ سنیگال کی جانب سے ریاست کا سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ۔۔۔۔ سویڈن کے بادشاہ کارل گستائو کی جانب سے زمالہ باڈن پاول ایوارڈ
۔۔۔ بحرین میں انسانی بہود کے لیے خدمات کے اعتراف مین خلیج تعاون کونسل کی جانب سے خصوصی انعام۔۔۔۔ عالمی اولمپک کمیٹی کی جانب سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا کے خطے کے لیے سب سے بڑا ایوارڈ بھی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے حصے میں آیا۔

اس طرح کے بیشمار خدمات ہیں جنہیں صفحہ قرطاس پر لانا طویل ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ خادم الحرمین الشریفین کی تمام خدمات کو شرف قبولیت بخشے ۔ اوران کی عمر دراز کرے اور انہیں مزیدخدمات انجام دینے کی توفیق دے۔ آمین

Dr. Muhammad Riaz Chaudhry

Dr. Muhammad Riaz Chaudhry

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری