تحریر: روشن خٹک جب کسی علاقے کے منتخب نمائندے حقِ نمائندگی ادا کرنے میں ناکام ہو جا یئں اور علاقے کے عوام ان کی کارکردگی سے مایوس ہو جائیں تو وہاں سماجی کارکنوں کو اپنے علاقے کے مسائل حل کرنے کے لئے کمرباندھ کرمیدان میں آنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع کرک میں کرک رائٹس مومنٹ کے نام سے ایک تحریک معرضِ وجود میں آئی۔ جس کے روحِ رواں جناب ظفر خٹک، شبیر خٹک اور حیات خٹک اور دیگر کچھ ساتھی ہیں۔ انہوں نے گذشتہ روز پشاور پریس کلب میں ایک آل پارٹیز کا نفرنس کا اہتمام کیا ۔جس میں چیدہ چیدہ سیاسی و سماجی شخصیات نے شر کت کی۔
راقم الحروف کے علاوہ سابق صوبائی وزیرِ خزانہ محسن علی خان، سابق ایم این اے شمس الرحمان خٹک، سابق جسٹس (ر) شاہ جی رحمٰن خٹک ،سابق ایم پی اے مہر سلطانہ،سابق ایم پی اے شازیہ اورنگزیب،ڈاکٹر سید عالم محسود، ضلعی کونسلر ہاشم خٹک، کاروان تنظیم کے چئیرمین خالد ایوب، ڈاکٹر زمان خٹک، فرید اعظم ایڈوکیٹ، خوشحال خان خٹک ، فہیم اللہ خٹک اور خلیل خٹک کے علاوہ کئی دیگر نمایاں شخصیات نے شر کت کی۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعد ”کے ایم ار” کے سیکرٹری شبیر خٹک نے اب تک کرک کے مسائل حل کے لئے اپنی تحریک کے کو ششوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور حیات خٹک نے گیس سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات اور اس میں حائل رکاوٹوں کی رپورٹ پیش کی۔جس کے بعد سب سے پہلے راقم الحروف کو اظہارِ خیال کر نے دعوت دی گئی۔ راقم الحروف نے کہا ” سب کو علم ہے کہ گیس، بجلی، پانی، یو نیورسٹی،آئل ریفائنری اور صحت کی سہولتوں کی نایابی کرک کیایسے مسائل ہیں جو سرِ فہرست ہیں۔مگر کرک کا ایک بہت بڑا مسئلہ اہل، قابل اور دیانتدار منتخب نمائندے کا انتخاب ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو ضلع مرکزی اور صوبائی حکومت کو اربوں روپے روزانہ کے حساب سے آمدن دے رہا ہو، جس سر زمین سے روزانہ اربوں روپے کا تیل اور گیس پنجاب کو سپلائی ہو رہا ہو، وہاں کے عوام کو پینے کا پانی میسر نہ ہو۔
Karak
پنجاب کے بے شمار کارخانوں کو گیس دینے والا ضلع خود گیس سے محروم ہو،ہم اقتدار میں نہیں ہیں اس لئے احتجاج کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ،مگر منتخب نمائیندوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں کے مسائل حل کرے۔راقم الحروف نے کمیٹی بنانے اور پہلے فیز میں پر امن اور شریفانہ طریقہ سے مسائل حل کرنے، گویا سیدھی انگلیوں سے گھی نکالنے کی تجویز پیش کی مگر سیدھی انگلیوں سے گھی نہ نکلنے کی صورت میں ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالنے کی جدو جہد پر زور دیا اور کہا کہ خٹک قوم کے پاس پھر ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ تیل اور گیس کی سپلائی بند کر دے اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہر قسم کی قر بانی دینے کے کمر باندھ لے۔” ڈاکٹر سید عالم محسود اور شازیہ اورنگزیب نے اظہارِ خیال کرتے ہو ئے کہا کہ پنجاب کے حکمران صرف ضلع کرک سے ہی نہیں، بلکہ پورے خیبر پختونخوا کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں اور پورے صوبے کے وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے ،اس لئے ہمیں اپنے حقوق کے لئے متحد ہو کر جد و جہد کر نی چا ہیئے۔ سابق وزیرِ خزانہ محسن علی خان نے منتخب نمائیندوں پر کڑی تنقید کرتے ہو ئے کرک کے مسائل کا ذمہ دار قرار دیا ،فرید اعظم نے متحد ہو کر مسائل کے حل کرنے پر زور دیا۔
کروان تنظیم کے چئیرمین خالد ایوب نے کہا کہ آپ لوگ اپنا مقدمہ ہی صحیح پیش نہیں کر رہے ہیں ۔صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت پر خٹک قوم کا احسان ہے ،اس لئے ان کو منّت کرنے کے بجائے سینہ نکال کر اپنا حق مانگ لینا چا ہیئے، نہ ملے تو اپنا حق چھین لینا چا ہیئے۔ کانفرنس کے اختتام پر کانفرنس کے تمام شرکاء نے کرک رائٹس مو ء منٹ کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ظفر رحمٰن خٹک نے آخر میں تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
کرک رائٹس موء منٹ اس لحاط سے خراجِ تحسین کی مستحق ہے کہ بغیر کسی سیاسی سکورنگ کے وہ کرک کے عوام کے فلاح و بہبود کے لئے بر سرِ پیکا ر ہے ۔ان کا مقصد صرف ضلع کرک کو ان کا حق دلوانا اور ان کے مشکلات میں کمی لانا ہے، لہذا میں صوبائی اور مرکزی حکومت سے پر زور اپیل کروں گا کہ خدا را ! کرک کو ضلع بگٹی نہ بنائیں، ان کو اپنا حق دیں، رائلٹی پانچ فی صد کے بجا ئے پچیس فی صد کر لیں اور اور اس کا استعمال امانت دار،دیانتدار لوگوں کے ہاتھ میں دیں، کرک کے عوام مفت میں کچھ نہیں مانگ رہے ہیں مگر ان کے سرزمین پر اللہ کی دی ہو ئی نعمتوں میں سے کچھ حصہ ان کو مفت نہیں ،تو قیمت پر ہی دے دیں مگر دے دیں تو سہی، نہیں تو پتہ نہیں ،آنے والا کل اپنے دامن میں کیا کیاگل کِھلا کر لے آئے گا۔