ننھے ننھے ہاتھوں سے جھاڑو کے تنکے جوڑ توڑ کرکے پتنگ بنانے میں مصروف وہ بہت معصوم دکھائی دے رہا تھاجھاڑو کے چند تنکے جنہیں وہ اپنی امّی سے چھپا کر أی جھاڑو میں سے کھینچ لایا تھا اور چھت کے کونے پر پولی تھین کے رنگ برنگے شاپروں ،جھاڑو کے چند تنکوں اور دھاگوں کے ساتھ اپنی پسند کی چھوٹی چھوٹی پتنگیں بنا رہا تھا۔
آسمان بسنت کی مناسبت سے مختلف رنگ کی خوبصورت پتنگوں سے سجا ہواتھا جن میں نیلے پیلے اور سرخ رنگ کی پتنگیں کثیر تعداد میں موجود تھیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد شور شرابے اور وہ کاٹا کی آواز سے ماحول میں خاموشی ٹوٹ جاتی تھی اور ایسے میں اس کا اضطراب مزید بڑھتا جارہا تھا کیونکہ ابھی تک وہ اپنا مطلوبہ گڈا بنانے میں ناکام رہا تھا اس کے بڑی عمر کے کزنز جو سب مل کر اس کے گھر کی اوپر والی چھت پر جمع تھے اور بڑے بڑے گڈے، پتنگیں اور مختلف طرح کی ڈوروں سے مالا مال تھے عمر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اسے سب سے اوپر والی چھت پر جانے کی اجازت نہیں ملی تھی جہاں وہ سب لکڑی کی سیڑھی لگا کر جا چکے تھے یہ سب منظر دیکھ کر میں بہت محضوظ ہورہی تھی اور آخر کار میں نے اس کی مدد کرنے کا سوچا اور چھوٹے سائز کے کافی سارے دْم والے گڈے بنا کر أیے جس پر وہ خوشی سے سرشار ہوگیا۔
ہر طرف بسنت کی وجہ سے کافی رونق تھی،مختلف عمر کے افراد اپنی اپنی چھتوں پر پتنگیں لے کر انہیں اڑانے اور ایک دوسرے سے پیچے لگانے میں مصروف تھے اگر پتنگ بازی یا گڈی بازی کا تذکرہ کریں تو لا ہور میں بسنت کا ماحول اور اس کا انتظار قابل دید ہوتا تھانوجوان ،بڑے بوڑھے ساری ساری رات سرچ لأیٹیں لگا کر رات کو بھی دن کا سا ماحول بنائے رکھتے،ہر گھر کی چھت پر کھانے پینے ،موسیقی کا پورا نتظام ہوتا،شور مچاتے،پیچ لڑاتے نوجوان پتنگ والوں کے ساتھ ساتھ بجلی والوں کا کام بھی خوب چمکائے رکھتے۔
دور دراز کے شہروں حتیٰ کہ بیرونی ممالک سے بھی لوگ جوک در جوک بسنت منانے لاہور کا رخ کرتے تھے شہر کے تمام چھوٹے بڑے ہوٹل بک ہوجاتے اور خوب بزنس چمکتا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی آتی گئ اور بسنت کو بہت حد تک بین کردیا گیا اگر پتنگ بازی کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو دو چائنیز سأینسدان موزی اور لوبان نے ۵سن عیسوی میں سب سے پہلے پتنگ ایجاد کی،ابتداء میں چائینا میں سلک سے بنی ہوئی پتنگیں استعمال کی جاتی تھیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ساخت اور ڈیزا ئن میں تبدیلیاں آتی گئیں اور ۵۴۹ سن عیسوی میں کاغذ کی بنی ہوئی پتنگوں کا استعمال ہونے لگا۔
پتنگیں دل لبھانے اور شوق پورا کرنے کے ساتھ بہت سے تحقیقی کاموں میں بھی استعمال کی جاتی تھیں ماضی میں پتنگیں ہوا کا رخ معلوم کرنے،فاصلے ناپنے،ذریعہ مواصلات اور انسانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھنے کے لیئے بھی استعمال کی جاتی تھیں ابتداء میں چائینا میں بننے والی پتنگیں سادہ،ہموار،چوکور،اور خم کے بغیر ہوتیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ڈیزائن اور شکلوں میں تبدیلیاں آتی گئیں مختلف مذہبی رسومات میں بھی پتنگوں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے رابرٹ برادرز نے ۱۸۰۰ میں پہلا ہوائی جہاز بنانے اور مختلف تجربات کے لیئے بھی پتنگ کا استعمال کیااس کے بعد آنے والے ۷۰سالوں میں پتنگ کی شکلوں میں جو جو تبدیلیاں آئیں، ان میں ایڈی کی بغیر دْم والی ہیرے کی شکل والی پتنگ،خم والی لچکدار پتنگ، پیرا فوائل ڈیئزائن والی پتنگ قابل ذکر ہیں۔
۱۰ ۹ اسے ۸۶۰ ۱ تک کا دور پتنگ بازی کا سنہری دور کہلاتا ہے جس میں پتنگوں کو مختلف سائنسی تحقیقات میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیایورپ میں پتنگ کا تصور بہت بعد میں آیا تیرھویں صدی میں پہلی مرتبہ ’مارکوپولو‘ نے پتنگ کا تعارف کرایا شروع شروع میں لوگوں نے اس پر تجسس کا اظہار کیا پھر آخر کار اٹھارویں صدی میں یورپ میں بھی پتنگیں سائینسی تحقیق میں استعمال ہونے لگیں۔
Basant
ویت نام میں بغیر دم کے پتنگیں اڑای جاتی ہیں مگر دم کی جگہ ایک بانسری ایسے لگای جاتی ہے کہ جب ہوا پتنگ سے ٹکراتی ہے تو ’ہم ہم‘ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح بالی میں پتنگ کے آگے بڑے بڑے تیر لگا کر ارتعاش پیدا کیا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں اور ممالک میں مختلف چیزیں لگا کر پتنگ سے آوازیں پیدا کی جاتی ہیں اور اس کی خوبصورتی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ بہت سے ممالک میں پتنگ بازی کو تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ انڈیا میں بھی پتنگ بازی کو بہت شہرت حاصل ہے، بہار، جھڑکھانڈ، گجرات، مغربی بنگال، راجھستان، اور پنجاب میں بہت جوش و خروش سے بسنت کاخیر مقدم کیا جاتا ہے۔
انڈیامیں جنوری کے مہنے میں جشن بہاراں کے موقع پر ’مکر سکرانی‘ کے تہوار پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ آسمان پر شمال کی طرف پتنگیں اڑاتے ہیں پاکستان میں بھی پتنگ اڑانے کا باقاعدہ تہوار منایا جاتا ہے موسم بہار کے آتے ہی آسمان پر جابجا رنگ برنگی پتنگیں نظر آتی ہیں بڑے اور چھوٹے شہروں میں بسنت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔پاکستان اور انڈیا کی طرح اور بہت سے ممالک میں بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے جن میں افغانستان، بنگلہ دیش، کوریہ ،براذیل،اور ملائیشیا شامل ہیں۔
چائینا میں قدیم زمانے میں استعمال ہونے والے پتنگ میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔۸۱۰۰ مربع میٹر پر مشتم پتنگوں کا یہ میوزیم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جہاں مختلف رنگ اور ڈیزائن کی جدید اور قدیم پتنگیں سجائی گئی ہیں اس طرح جاپان،یوکے،تائیوان،ملائیشیا،تھائیلینڈ، اور انڈونیشیا ء میں بھی پتنگوں کے میوزیم قائم کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں پچھلے کچھ عرصہ میں بسنت کے تہوار پر وہ جوش و خروش دیکھنے کو نہیں ملتا جو کچھ سال پہلے لاہور جیسے شہروں کی رونق بڑھا دیا کرتا تھا ،اس کی وجہ وہ چھوٹے بڑے حادثات ہیں جو دھاتی اور کیمیکل والی ڈور استعمال کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ڈور پھرنے کی وجہ سے گلے کا کٹ جانا،زخم آجانا اورروڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے موت جیسے واقعات جب حد سے زیادہ بڑھنے لگے تو حکومت پاکستان کو مجبور ہو کر سرکاری سطح پر بسنت کو بین کرنا پڑامگر مختلف شہروں میں چھوٹے پیمانے پر لوگ اب بھی بسنت کا اہتمام کرتے ہیں، اور خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بسنت جیسے پر لطف اور رنگا رنگ تہوار پر پابندی لگانا حکومت پاکستان کی مجبوری بن گئی جس کے قصوروار سب ہیں کیمیکل اور دھاتی ڈور بنانے والے بھی، ان کو بیچنے والے دکاندار بھی،اور پتنگ اڑانے والے بھی جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کیمیکل والی ڈور استعمال کرتے ہیں اور پیچ لڑا کر ایک دوسرے کی پتنگ کاٹتے ہیں مگر اس شوق کو پورا کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس شوق کی خاطر کتنے گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔