علم اور تعلیم کی اہمیت

Education

Education

تحریر : حاجی محمد لطیف کھوکھر

”علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے”۔ مذکورہ حدیث مبارکہ سے علم کی اہکیت واضح ہو جاتی ہے کہ ایک مسلمان پر علم و تعلیم کا حصول کس قدر ضروری ہے اور چین جو اس وقت کفر میں ڈوبا ہوا تھا ، یعنی اگر علم کیلئے کسی کافروں کے علاقے میں سفر کرنا پڑے تو کرو ۔افسوس آج مسلمان تعلیمی لحاظ سے کفار سے کس قدر پیچھے رہ گئے ہیں حالانکہ مسلم قوم ایک شاندار ماضی رکھتی ہے ۔ ساری دنیا کے لئے رشد وہدایت کے لئے نازل ہونے والی کتاب قراان مجید کی ابتدا”اقرائ” پڑھوسے ہوئی ۔، تعلیم وتربیت، درس وتدریس دین برحق کا جزولاینفک ہے، کلام پاک کے تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم جل شانہ نے رحمت عالم ۖ کے قلب مبارک پر نازل فرمایا وہ اِقرَا ہے، یعنی پڑھ، اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا:

ترجمہ: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا،آدمی کو خون کے لوتھڑے سے بنایا،پڑھو۔تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے رحم کرم والا ہے، جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔یہی پہلی نعمت عظمیٰ ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی محمد ۖ پر انعام فرمایا اور یہی وہ پہلی نعمت ہے جو ارحم الراحمین نے اپنے رحم وکرم سے اپنے بندوں کو عطا فرمائی۔ اس میں تنبیہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک جمع ہوئے خون کی شکل میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس پریہ احسان کیا کہ اسے اچھی صورت میںپیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔علم ہی کی برکت تھی تمام انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں میں ممتاز نظر آئے۔

اس میں یہ بھی ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اسے اللہ تعالیٰ اس علم کا وارث کر دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا۔ اللہ رب العزت نے انبیاء کرام علیھم السلام کو علم کی بے بہا دولت سے سرفراز فرمایا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب اشیاء کو ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام بتاو۔فرشتوںپر ادم علیہ السلام کی فضیلت کس وجہ سے ہوئی ؟ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فضیلت و عظمت عطا فرمائی اور یہ فضیلت فرشتوںکو بھی نہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام نام بتائے ان کی تمام اولادوں کے، سب جانوروں کے ،زمین وآسمان، پہاڑ، تری ، خشکی، گھوڑے ،گدھے، برتن ، چرند، پرند، فرشتے ، چاند وغیرہ وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کا علم اللہ نے آدم علیہ السلام کو عطا فرمایا۔ ہمارے نبی آقا ۖبھی علم وحکمت سکھانے والے نبی ۖہیں تو پھر اسلام پر چلنے والے مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ علم کی جستجو میں جی جان سے لگ جائیں علم حاصل کریں۔ آقا ۖ کا فرمان ہے ”علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد(عورت ) پر فرض ہے”۔معلوم ہوا کہ اسلام تعلیم کو ہمارے لئے فرض قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کے ذریعے ہم کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کے درجہ پر پہنچانا چاہتا ہے، وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ۖ کو حقیقی علم ثابت کرتا ہے، اور اس کو بنی نوع انسان کی حقیقی صلاح وفلاح اور کامیابی وبہبودی کا ضامن بتاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ قرآن حقیقی علم ہے ، اور دوسرے تمام علوم وفنون معلومات کے درجہ میں ہیں، ان تمام معلومات کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق حاصل کرسکتے ہیں، کیونکہ ان سب کے اصول حضرت آدم علیہ السلام ہی کے خمیر میں ودیعت کردئے گئے ہیں جیسا کہ کلام پاک کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:”اور آدم کو اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں بتادیں۔”علم کے ذریعے ہی آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ،بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتاہے ، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن وامان کی فضا پیدا کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حاملین علم کی قرآن وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے دنیوی و اخروی بشارتوں سے نوازاگیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:”تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہیں علم عطا ہوا ،اللہ ان کے درجات بلند فرمائے گا اورجو عمل تم کرتے ہو، اس سے اللہ باخبر ہے”۔دوسرے مقام پر فرمایا گیا :”اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں”۔تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:”کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھے(جاہل) اور دیکھنے والے(عالم) یا کہیں برابر ہوسکتا ہے، اندھیرا اور اجالا”۔اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درجات کے تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ انہیں دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں ، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق ان کے لیے دعا کرتی رہتی ہے،بلکہ ان کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول ۖنے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے،آپ ۖ نے فرمایا :”جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو اللہ اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقیناً عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم وحکمت اور صنعت وحرفت کے وہ ذخائر جن کے مالک آج اہل یورپ بنے بیٹھے ہیں ان کے حقیقی وارث تو ہم لوگ ہیں، لیکن اپنی غفلت وجہالت اور اضمحلال وتعطل کے سبب ہم اپنی خصوصیات کے ساتھ اپنے تمام حقوق بھی کھوبیٹھے۔حقیقت تو یہ ہے کہ دینی علوم کے علاوہ دنیاوی وعمرانی علوم کا کوئی شعبہ یا پہلو ایسا نہیں ہے جو اہل اسلام کے ہاتھوں فروغ نہ پایا ہو، علم کیمیا، طب، جراحی، ہندسہ، ریاضیات یا ہیئت وفلکیات، طبیعات وحیوانیات ارضیات وحیاتیات، معاشیات واقتصادیات، تاریخ وجغرافیہ اور خدا جانے کتنے بے شمار علوم وفنون اور بیش بہا ایجادات واختراعات کے ایسے ماہر وموجد گذرے ہیں کہ اس دور جدید میں بھی ترقی یافتہ قومیں اپنے جدید سے جدید انکشافات وتحقیقات کے لئے ہمارے آبا واجداد کی تشریحات وتسخیرات کی مرہون منت ہیں۔

مسلمان جب تک اسلام کی صاف اور سیدھی راہ پر چلتے رہے یعنی احکام الٰہی اور تعلیمات نبوی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے رکھا ۔الغرض علم ایک ایسی طاقت(Power) ہے کہ اس کاکوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ رب تبارک تعالیٰ نے جب نبی کریم ۖ کو علم سکھایا، بتایا، عطا فرمایا تو ان کی امت کو علم جیسی انمول نعمت سے دور رہنا کیسے پسند فرمائے گا۔ احادیث میں بھی علم حاصل کرنے کی بے شمار فضیلت ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں یہودیوں کی تعداد بھی تین فیصد کے ارد گرد ہے لیکن ان کی علمی ، سائنسی ٹیکنالوجی کی طاقت سے پوری دنیا ان سے ڈری سہمی رہتی ہے ان کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ ذرائع ابلاغ جیسا طاقتور ہتھیار پوری طرح سے ان کے ہاتھوں میں ہے۔ بینکنگ کا نظام ان کی گرفت میں ہے۔ کیا مجال کہ کوئی امریکی صدر یہودیوں پر کھل کر تنقید کرے۔ اس کا جینا اور صدارت کے عہدہ پر رہنا ناممکن بنا دیتے ہیں یہ سب علم کی طاقت کا نتیجہ ہے۔ اگر کوئی بھی ملک چاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمی اداروں کو مضبوط کریں آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف علم کی بدولت کی ہے علم کی اہمیت سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔زمانہ قدیم سے دور حاضر تک ہر متمدن و مہذب معاشرہ علم کی اہمیت سے واقف ہے فطرت بشری سے مطابقت کی بناپر اسلام نے بھی علم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے اس کے ابتدائی آثار ہمیںاسلام کے عہد مبارک میں ملتے ہیں چنانچہ عزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کیلئے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی ان میں سے جو نادار تھے وہ بلا معاوضہ ہی چھوڑ دیئے گئے لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں حکم ہوا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو چھوڑ دیئے جائیں گے۔

چنانچہ سیدنا زید بن ثابت ? نے جوکاتب وحی تھے ایسی طرح لکھنا سیکھا تھا اسی بات سے ہم اندازہ لگاسکتے ہے کہ تعلیم کی کیا اہمیت ہے اوران کا حصول کتنی ضروری ہے۔جو لوگ معاشرے میں تعلیم حاصل کرتے ہوں وہ دینی ہو یا دنیاوی اس انسان کا معاشرہ کے اندر اور اپنے گھر کے اندر ایک الگ مقام ہوتا ہے ایک نوجوان بچے کا قدر بزرگ لوگ صرف تعلیم کی وجہ سے کرتے ہے توہمیں چاہیے کہ تعلیم حاصل کریں اور اس کا صحیح استعمال کریں اور اگر ایسا ممکن ہوا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم دنیا کے ان ملکوں میں شمار ہونا شروع ہوجائے گا جو جدید علوم سے اگاہی رکھتے ہیں۔گویاتعلیم حاصل کرنا ہر مذہب میں جائز ہے اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض کیا گیا ہے آج کے اس پر آشوب اور تیز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کرلے۔حالانکہ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے ایٹمی ترقی کا دور ہے سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم ،ٹیکنیکل تعلیم،انجینئرنگ ،وکالت ،ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے جدید علوم تو ضروری ہیں ہی اسکے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے اس کے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کیلئے اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی ،عبادت ،محبت خلوص،ایثار،خدمت خلق،وفاداری اور ہمدردی کے جذبات بیدار ہوتے ہیں اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح او رنیک معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے۔

Haji Mohammad Latif Khokhar

Haji Mohammad Latif Khokhar

تحریر : حاجی محمد لطیف کھوکھر