تحریر : کامران غنی صبا انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والے تقریباً سبھی لوگ فیس بک کا استعمال ضرور کرتے ہیں۔ فیس بک سماجی رابطے کا ایک ایسا مضبوط ذریعہ ہے جو چشمِ زدن میں ہمیں سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں سے جوڑ دیتا ہے۔ لیکن اس کا ایک بڑا منفی پہلو یہ بھی ہے فیس بک نے اچھے اچھے لوگوں کے اندر خود نمائی اور خود پسندی کا ایسا بیچ بو دیا ہے جو دن بہ دن تناور درخت بنتا جاتا ہے۔
دوسری طرف کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو پیغام رسانی کے اس بڑے پلیٹ فارم کو “شجرِ ممنوعہ” سمجھتے ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ فیس بک صرف تضیع اوقات اور خود نمائی کا ذریعہ ہے۔
فیس بک کا صحیح استعمال وہی لوگ کرتے ہیں جو ان دنوں انتہاؤں کے بیچ کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ خود نمائی ایک ایسا نشہ ہے جو شراب سے بھی زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ خود نمائی کے مرض میں مبتلا ہونے والا شخص ہر گھڑی اپنی تعریف و توصیف سننا پسند کرتا ہے۔ اگر ہم فیس بک پر اپنی تصویر یا کوئی پوسٹ ڈالنے کے ہر تھوڑی دیر بعد یہ چیک کر رہے ہیں کہ کتنے لائکس اور کمنٹس ملے ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے اندر اس مہلک مرض کا وائرس داخل ہو چکا ہے۔ خود نمائی کا مرض کتنا ہلاکت خیز ہے اس کا اندازہ اس حدیث پاک سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
“قیامت کے دن سب سے پہلے تین قسم کے آدمیوں پر جہنم کی آگ جلائی جائے گی۔ ۔وہ قاری، جو قرآن صرف اس نیت سے پڑھتا ہے کہ لوگ اسے قاری صاحب کہہ کر پکاریں۔ وہ شخص جو علم محض اس نیت سے حاصل کرے کہ لوگ اس کو علامہ صاحب کہیں۔ ایسے ہر شخص کو قیامت کے دن اللہ جل شانہ فرمائیں گے۔ تمہاری نیت کے مطابق دنیا میں تمہیں دے دیا گیا (تم ان القابات سے نوازے جا چکے) اب حکم جاری ہوتا ہے کہ اس کو چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے۔”
دیگر احادیث میں ایسی ریاکارانہ نیت کے تحت صدقہ کرنے والے یا جہاد کرنے والے اشخاص کو بھی اس فیصلہ سے متنبہ کیا گیا ہے۔
اس حدیث پاک سے واضح ہے کہ ہمارے اعمال خواہ کتنے ہی اچھے اور پاکیزہ کیوں نہ ہوں اگر وہ صرف اور صرف دکھاوے کی نیت سے ہیں تو ناقابل قبول ہیں۔ دوسری طرف قرآن پاک کی یہ آیت بھی ملاحظہ فرمائیں:
جو لوگ رات کو اور دن کو چھپا کر یا دکھا کر خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے لئے ان کا اجر و ثواب ان کے پروردگار کے پاس محفوظ ہے نہ وہ کسی بات سے خوف زدہ ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی چیز سے ملول و رنجیدہ ہوتے ہیں۔ (سررۃ البقرہ)
اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نیک عمل کی تشہیر خودنمائی کی نیت سے نہ ہو تو اللہ اسے بھی پسند فرماتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی عمل کی تشہیر کی وجہ سے دیکھنے والوں میں بھی اس عمل کے کرنے کا جذبہ بیدار ہو جائے۔
فیس بک کا استعمال کرتے ہوئے اگر ہم توازن کا راستہ اختیار کریں تو خود نمائی جیسے مرض سے بچتے ہوئے بھی علمی، ادبی، سیاسی، مذہبی ہر قسم کے کام پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ کر سکتے ہیں۔