علم فلک اور رمضان

Ramadan Mubarak Kareem

Ramadan Mubarak Kareem

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازھری
نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ ”روزہ رکھو چاند دیکھنے پر اور افطاری کرو چاند دیکھنے کے بعداور اگر آپ کی نظروں سے اوجھل ہوجائے تو شعبان کے تیس دن پورے کرو”یہ قول چاند کی رؤیت سے متعلق وارد ہوا ہے اور ان لوگوں کے لئے بیان کیا گیا ہے جو گائوں اور دیہات میں رہتے تھے اور وہ حساب کے علم میں کمزور تھے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ سطحیت کے عادی تھے مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے عادی نہ تھے ، اسی سبب اس حدیث کے سبب نزول اور مناسبت کو سمجھنے کی حقیقت کو نہ جان سکے۔اس حدیث کو درست معنوں میں نہ لے سکے جیسے کہ ابن حجر اور البانی نے کہا ہے۔رسول اللہ ۖ نے فرمایاکہ ”ہم امی امت ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ ہی حساب کی معلومات رکھتے ہیں” ۔بعض علماء رؤ یت ھلال سے متعلق فتویٰ دیتے ہیں کہ پہاڑوں پر چڑھ جائو اگر چاند نظر آجائے تو روزہ رکھو ورنہ کھانا کھائیں اور شعبان کے تیس دن پورے کرو۔
حقیقت میں ان دونوں حدیثوں کا آپس میں گہرا ربط ہے،جب یہ بیان کیا گیا کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ ”ہم امی امت ہیں حساب و کتاب سے نا آشنا ہیں'[اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ جاہلیت کے دامن کو تھام کررکھا جائے اور لکھنے پڑھنے سے اجتناب کیا جائے!!ہر گز ایسا کوئی مطلب نہیں تھا۔

یہ بدیہی بات ہے کہ مسلمانوں کے مجموعے میں بعض ناواقف اور جاہل لوگ رہتے تھے ان کا وقتی لحاظ اسلام نے اپنی رحمت ِ واسعہ کے سبب کیا ۔امی لوگوں اورلکھنے پڑھنے سے ناآشنا لوگوں کا حضورۖ نے پاس رکھا چونکہ وہ نہ تو ستاروں کے ذریعہ حساب کو جانتے تھے اور نہ ہی انہیں چاند کے ظاہر ہونے کا علم بھی نہیں رکھتے تھے،اسی پس منظر میں نبی معظمۖ نے فرمایاکہ”ہم امی امت ہیں”مسئلہ چاند کے تعین پر اور فرمایاکہ”روزہ رکھواور افطار کرو چاند کی رؤیت کے ساتھ”کیوں کہ تم حساب و کتاب کاعلم نہیں رکھتے۔یہ قول حضورۖ کی تمام عالم پررحمت کا مظہر ہے۔کیا اس کا یہ مطلب لے لیا جائے کہ نوع انسانیت اب بھی جاہلیت کے دامن کو نہ چھوڑیں؟زمانہ کی ترقی سے واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ حساب و کتاب کی تعلیم حاصل کریں اصولی و جزوی طورپر!!۔یہاںامر لازم ہے کہ ہم پہچانے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی میں حکم دیا ہے کہ ”پڑھو”کیا اس امر کے بعد بھی جاہل رہنے کا حق ہے کسی کو؟اللہ عززوجل نے قلم کی قسم کھائی ہے”ن،والقلم ومایسطورون”(قسم اس قلم کی جس کے ساتھ کھتے ہیں)حکایات و قصص لکھتے ہیں۔۔۔اللہ کے نزدیک قلم ،دوات اور ورق کی قدرو قیمت مسلم ہے ،اگر امت جاہلیت پر باقی رہتی ہے علم کے برعکس تو یہی امت گناہگار ہے۔خاص طور پر جب علماء اس امر میں سستی و کاہلی کے مرتکب ہوں اور اس غفلت کی تعلیم دیں تو یہ امر متغیر نہیں ہوسکتا۔

Allah

Allah

اللہ رب العزت کے اس قول پر بھی تدبر کیا جائے کہ”وہی ذات جس نے سورج کوروشن پیدا کیااور چاند کو منور اور ان کو اپنے مقام پر ٹھہرایا تاکہ تم سالوں کی تعداد اور حساب کو جان سکو”یہاں امر الٰہی مطلق مختلف ہے کہ ہم نے جان لیا کہ چاند کے مختلف منازل ہیں اور وہ اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف یعنی نقصان کی طرف درجہ بدرجہ آتاہے یہاں تک کے چھپ جاتاہے پھرنیاچاند ظاہر ہوجاتاہے۔ پھر ”تاکہ تم حساب و سالوں کی تعداد کو جان سکو” یہاں پر لام لام تعلیل ہے ،اس سے یہ ثابت کرایا جاتاہے کہ چاند کے منازل و درجات ہیں اور اس سے یہ درس دیا جاتاہے کہ انسان اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوکردنوں کے حساب کی معرفت حاصل کریں اور مہینوں کی جان کا ری حاصل کرسکیں۔۔۔اللہ تعالیٰ اس امر کی تاکید کراتے ہیں کہ ”سورج و چاند دونوں کے حساب ہیں”اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ حساب یا ریاضی کا مظہر ہیں بلکہ مسلمانوں کو تعلیم بھی دی جارہی ہے کہ وہ علم حساب کا اہتمام کریں ۔دوسری آیت میں اسی طرح تاکید بیان ہوئی ہے کہ ”ہم نے دن و رات کو نشانی بنایا ہے اور چھپادیا رات کی نشانی کو جب دن کی نشانی کھل کر ظاہر ہوئی تاکہ اللہ کے فضل کو تلاش کرو اور ایام و مہینوں کا علم حاصل کرسکو”ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علم عددکی اہمیت و ضرورت کو بیان کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے علم میراث جو مشکل ترین علم ہے کو بھی بیان کیا ہے جس میں آدھا،چوتھائی ،تیسرے ، تیسرے کے نصف (سدس) اور چوتھے کے نصف(ثمن)کے نصف کا ذکر ہے کہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میراث کی تقسیم کا عمل جاری کیا جائے گا۔۔۔اس علم کے سبب لوگوں کی آنکھیں کھلی ہیں اور ان کے لئے علم حساب کو جاننا لازم ٹھہرا بلکہ اللہ تعالیٰ نے علم حساب کو عبادات کے باب میں بھی بیان کیا ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”حج کے مہینے معلوم ہیں”یہ حساب کے مضبوط و گہرے علم کی بنیاد پر قائم ہے۔”حمل اور دودھ پیلانے کی مدت دو سال ہے ”اس میں حساب کے ساتھ ہی عدد کو بیان کیا گیا ہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عدت کے ایام عورت کے لئے مقرر فرمادیئے ہیںجبکہ اس کا شوہر فوت ہوجائے وہ عدت چارماہ دس دن ہے۔ اسی طرح بچوں کو دودھ پیلانے کی مدت کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ اگر کوئی ماں چاہے تو دوسال تک دودھ پیلا سکتی ہے اور اس طرح رضاعت مکمل ہوجائے گی۔۔۔اعداد و عدد کا ذکر کثرت کے ساتھ مذکور ہے کلام مجید میں اور حساب کی تو تعلیم دی جارہی ہے کیوں کہ یہ لازم ہے ۔اسی سبب چاند کی رؤیت سے متعلق حکم عصر جدید کے تقدم سے لگایا جائے گا جب کہ ستاروں اور سیاروں کی حرکات کا جائزہ باریک بین ہوچکا ہے جو چاند کے بارے میں ۔اور یہی امر شرعی حکم کے قریب بھی ہے۔

کیا آپ نے دیکھے ہیں وہ لوگ جن پر صدیاں گزر گئیں مگر آج بھی وہ خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیںوہ عدد ١1 سے بھی ناآشناہیںاور یہ چاہتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی چاند کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا لازمی جانتے ہیں اور یہ سوچ سطحی درجہ کی ہے باوجود اس کے کہ اللہ پاک قرآن میں بیان کر چکے ہیں کہ”لوگ پوچھتے ہیں چاند کیا ہے؟کہہ دیجے کہ یہ لوگوں کے لئے اوقات یا وقت معین کرنے کا ذریعہ۔۔۔”کیا وقت کا تعین بغیر حساب جانے کیا جاسکتاہے؟محترم و معزز بھائیو ! متعدد ممالک کے ماہرین فضائوں تک جاپہنچے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کرتے ہوئے”زمین و آسمان تمہارے لئے مسخر کردئے گئے ہیں”اور دوربین اور خوردبین ایجاد کرچکے ہیں کیوں کہ وہ اب اکیسویں صدی میں ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ صحرائوں میں رہنے والے بے بس و عاجز ہوکرکسی قدرتی معجزے کا انتظار کررہے ہیں کہ کوئی چشمہ پھوٹے یا آسمان اپنا پانی ان پر برسائے !!کیا ہو گیا تمہیں؟ کیسے حکم کرتے ہو؟

Dr Khalid Fuaad

Dr Khalid Fuaad

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازھری
khalidfuaa313@gmail.com
03135265617