تحریر : علی عبداللہ تاریخ نہایت قدیم علم ہے _ تقریباً ہر زمانے میں اس کے نشانات مختلف صورتوں میں ملتے ہیں _ کبھی یہ تحریری صورت میں تو کبھی یہ زبان عام قصوں پر مشتمل دکھائی دیتی ہے _ ابتدا میں یہ صرف بہادروں کی بڑائی بتانے , وقت گذاری اور دل بہلانے کا سامان بنی رہی_ اس کا بنیادی مقصد صرف بڑوں کے قصوں کو پر لطف رنگ دے کر ان کے رعب اور دبدبے کو بڑھانا ہوتا تھا _ چونکہ زیادہ زور بہادری کی داستانوں, لڑائی کے قصوں, دولت اور حسن کی چمک پر دیا جاتا تھا اس لیے ان ادوار میں نہ وقت کی قید رکھی جاتی تھی اور نہ ہی زمانے کا تعین _ لیکن جب قومیں ترقی کرتی ہیں اور حکومتیں پھیلتی ہیں تو ملازموں کی تعداد ایک مؤرخ کی شکل میں مزید بڑھ جاتی ہے _ یہ مؤرخ اپنے دور کے حکمران کے ساتھ ہمیشہ حاضر رہتا ہے اور اس کے کارناموں کو تعریف کے ساتھ قلمبند کرتا رہتا ہے _ ہزاروں سال پر مبنی انسانیت کی مختلف مراحل میں علمی و ذہنی ترقی سے اسلام نے بھی اپنی آمد کے بعد استفادہ کیا اور اس میں بہت سی نئی چیزوں کا اضافہ کیا _ لفظ “تاریخ” عربی زبان سے آیا ہے اور اس کا مادہ “ارخ” اور ” ورخ” دونوں بیان ہوئے ہیں۔ قدیم مؤلفین کے نزدیک ارخ کے معنی یمن کی پرانی عربی کے مطابق چاند کے ہیں _ اس طرح عربی فعل “تاریخ”کے معنی چاند بنانا, یعنی نئے چاند کی مدد سے مہینہ شمار کرنا ,یا وقت کا حساب کرنا شمار کیے جاتے ہیں۔
وقت شماری کا قران پاک میں بھی کئی بار ذکر آیا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب اس علم سے چودہ سو سال پہلے بھی واقف تھے _ تاریخ کی کتابوں کو لکھنے کے آغاز میں وقت کے مفہوم پر بحث کرنا مسلمان مؤرخین کا شیوہ رہا ہے _ طبری اور مسعودی جیسے مؤرخوں نے اپنی تصانیف میں اس پر بحثیں کیں ہیں _ کائتانی نے اپنی کتاب واقعات اسلام میں لکھا ہے کہ عیسائیوں کے ہاں سنہ عیسوی کا رواج نویں صدی کے آغاز پر ہوا اسی طرح ایک اور مصنف آماری نے اپنی تصنیف میں بتایا ہے کہ ہجری سنہ سے اکثریت لوگوں کی واقف تھی جبکہ سنہ عیسوی کو لوگ نہیں پہچانا کرتے تھے۔ ہجری سنہ کی بات کی جائے تو طبری, سخاوی اور بیہقی کے مطابق عہد نبوی اور ہجرت کے پہلے سال سے شروع ہو چکا تھا _ آغاز میں اس کے اصولوں کے متعلق کچھ اختلاف تھا جیسے کچھ لوگ ربیع الاول کو پہلا مہینہ بتلاتے تھے کہ اسی مہینے میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کی ہجرت ہوئی تھی۔
بعض لوگ محرم کو پہلا مہینہ تصور کرتے تھے کیونکہ یہ قدیم عرب سے ہی چلا آ رہا تھا _ اس لیے اس کا سرکاری استعمال اور اس کے باقاعدہ احکام خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جاری ہوئے _ اس کے لیے بہت عرصے تک نہ صرف مشورہ ہوتا رہا بلکہ اس میں یہودیوں اور پارسیوں سے بھی رائے لی گئی _ بعض لوگوں نے رومی سنہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تو بعض نے فارسی سنہ کی رائے دی لیکن فارسی سنہ کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے ہاں کوئی مستقل سنہ تھا ہی نہیں اور ہر نئے حکمران کی تخت نشینی سے وقت کا شمار کیا جاتا تھا _ اور بھی بہت سے مشورے ہوئے لیکن پھر آخر میں ہجرت کو ہی شمار کر کے سنہ کا آغاز کیا گیا_ اسے سب نے بنا کسی تامل کے قبول کیا کیونکہ یہ دارالشرک سے دارالسلام میں اور حق و باطل میں امتیاز کی تاریخ تھی_ یہ نیا اسلامی سنہ قمری سنہ ہے جس میں موسم معینہ مہینے میں نہیں آتے۔
Holy Quran
باقی علوم کی طرح علم تاریخ بھی قران پاک کا مرہون منت ہے _ قران پاک میں بے شمار واقعات اور اشخاص کا ذکر ہے _ آدم علیہ السلام کی پیدائش ہو یا ہابیل قابیل کا قصہ, طوفان نوح علیہ السلام ہو یا ابراہیم علیہ السلام ,غرض یہ کہ بے شمار واقعات ایسے ہیں جن کو لے کر قرانی حوالوں کے ساتھ قصص انبیاء پر کتابیں لکھی گئیں وہ تاریخ کی اولین کتب کہی جا سکتی ہیں _ مسلمانوں کے ہاں مؤرخ کا فریضہ عالمگیر تاریخ لکھنا اور اس میں اسلام کا جڑنا ہی قرار پایا ہے _ اس کے لیے بہت سے مشہور مؤرخین موجود ہیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں مستند واقعات پر تاریخ مرتب کی _عہد صحابہ میں ہی مسلمان مؤرخ پیدا ہو چکے تھے جن میں عقیل ابن ابی طالب اور زیاد بن ابیہ سر فہرست ہیں _ حضرت معاویہ نے یمن کے عبید بن شریة سے قدیم عرب کے حالات پر کتابیں لکھوائی تھیں۔
اسی طرح تیرہ سو سال پہلے ابن اسحاق نے جو ایک ضخیم کتاب لکھی ” المبتداء و المبعث” اس میں تخلیق عالم سے لے کر خلیفہ منصور تک کے تمام حالات و واقعات درج کیے گئے _ اس کے بعد طبری اور مسعودی نے بھی مشہور قوموں کی تاریخ لکھی_ “کتاب الہند” اور “الآثار الباقیہ” لکھنے والے البیرونی کو کون نہیں جانتا_ ان سے بھی اہم رشید الدین خان کی کتاب “جامع التواریخ” ہے جس میں پیغمبروں سے لے کر بادشاہوں تک ,خلفاء اسلام سے لے کر پوپوں تک اور اس کے علاوہ ہند, چین, منگولیا, روم, قسطنطنیہ سمیت دیگر بے شمار علاقوں کے مفصل حالات قلمبمد کیے گئے ہیں۔
چونکہ قدیم زمانے میں بیان کردہ واقعات کا مقصد اپنی قوموں کے کارناموں پر تعریفوں کے پل بندھنا ہوتا تھا اس لئے ان میں مبالغہ آرائی لازم سمجھی جاتی تھی _ اس طرح واقعات کی صحت مشکوک ہو جاتی تھی _ لیکن مسلمانوں کی لکھی ہوئی تاریخ مستند واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان میں سند سے لے کر چشم دید اور حاضر موقع گواہوں سے لے کر مؤلف تک کو شمار کیا جاتا ہے _ لہذا ہر واقعے پر اتنے حوالے اور پھر حوالوں کے حوالے جو چشم دید گواہوں تک جا کے بیان ہوں مسلمانوں کے علاوہ کسی قوم کے ادب میں نہیں ملتے _ اس کے لیے اسما الرجال پر الگ سے علم وجود میں آیا جس میں راویوں کے حالات ان کے استاد اور ان کے شاگردوں تک کی تفصیلات لکھی گئی _ اس طرح علم تاریخ کو زیادہ سے زیادہ مستند اور قابل فکر بنانے میں مسلمانوں کا کردار ہی اول و اہم ہے _ اس کے بہت بعد میں اہل مغرب نے اس میں ترقی کی لیکن اب بھی مسلم تاریخ دان اور مؤرخین ان سے کئی ہاتھ آگے ہیں۔