تحریر : ڈاکٹر محمد عدنان تعلیم یا علم کیسی بھی معاشرے کی ترقی میںآہم کردار ادا کرتی ہے کوئی بھی ملک تعلم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا انسان علم کے بغیر نہ توخود کو پہچان سکتا ہے نہ ہی اپنی معراج تک پہنچ سکتا ہے تعلیم کی اہمیت سے کوئی معاشرہ یا مذہب انکار نہیں کر سکتا اسلام نے بھی تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیا ہے قرآن کا پہلا لفظ جو نازل ہوا وہ ؛اقرا؛ تھا نبی ۖ کی حدیث ہے علم حاصل کرو چاہے تمہں چین جانا پڑے علم حاصل کرنا مرد عورت دونوں پر فرض ہے علم ایسا خزانہ ہے جسے جتنا استعمال کرے اتنا بڑتا چلا جاتا ہے اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جب تک مسلمانوں نے علم کو اپنا ہتھیار بنایا۔
انہوں نے دنیا پر حکمرانی کی اور جب اقرا کا درس ان کے ذہنوں سے نکلتا گیا غلامی نے اپنا گھیرا تنگ کر دیا کوئی بھی ملک اس وقت تک تعلیم میں بھی ترقی نہیں کرتا جب تک وہ اپنے تعلیمی معیار کو اپنی مذہبی روایات اور ورثہ کے مطابق نا رکھے پاکستان ایک اسلامی اور نظریاتی ریاست ہے اور اس سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن پاکستان کا سیکولر طبقہ کسی صورت پاکستان کو نظریاتی ریاست ماننے کو تیار نہیں گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں ایک سازش کے تحت لبرل اور سیکولر طبقہ اس کوشش میں ہے کہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو ختم کیا جا سکے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی اقدار اور روایات کے خلاف زبردست پروپوگنڈا کیا جا رہا ہے تا کے وہ ثابت کر سکے کے پاکستان نظریاتی ملک نہیں بلکہ ایک سیکولر ریاست ہے جہاں تمام ادارے ایک ہیں خدا اور مادر پدر آزاد حیثیت سے چلائے جا سکتے ہیں۔
چنانچہ نظریاتی بنیادوں کو ختم کرنے کے لیے جہاں ؛بنیاد پرست ؛انتہا پرست ؛اسلامی دہشت گردی ؛وغیرہ وغیرہ مختلف سازشیں کی گئی وہاں ان سب سے بڑھ کر جو سازش کی گئی جس پر آج بھی بڑی تیزی سے عمل جاری ہے وہ ہے ہماری قومی تعلیمی پالیسی یہ بات بالکل واضح ہے کہ قومی تعلیمی نصاب کو سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت سیکولر بنانے کا عمل زور پر ہے اور بڑی چلاکی کے ساتھ ہماری نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے دور رکھنے کے لیے اسلام مخالف چیزیں نصاب میں شامل کی جا رہی ہیں تا کہ پاکستان جو دو قومی نظریے پر بنا تھا اسے ختم کیا جا سکے آج کے دور میں پاکستان کو نظریاتی نظام تعلیم کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی جسم کو حوا کی ہے ہمیں ایک ایے نظام تعلیم کی اشد ضرورت ہے جس میں قرآن و سنت کی تعلیمات سمو دی ہو اآنے والی نسل کو اپنے اسلامی اور قومی ہیروز جیسے نبیۖ صحابہ اولیاء اکراممحمد بن قاسم و دیگر مسلمان ہیروز کی زندگی کی داستانیں پڑھائی جائے تا کے وہ انہیں اپنا آئیدل بنائیں نا کے کسی پوپ سنگر کو تا کہ ان کی زندگی میں فائد ا مند ثابت ہو سکے ہمارے عصری علوم تب ہی ہماری قومی تعمیرو ترقی اور فلاح میں بہتر کردار ادا کر سکیں گی۔
جب ان کے اندر قرآن و سنت کی روح کار فرما ہو قرآن و سنت کے تابع زراعت ،صنعت ،سائنس و طب،ہر قسم کا علم فلاح انسانیت کے لیے موجود ہے جسے مسلمان علماء اور سائنسدانوں نے عملاً ثابت کیا اور یورپ نے فیض حاصل کیا جس کے آج ہم مداح بنے پھرتے ہے علم کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جسے مسلمان علماء و سائنسدانوں نے چھوڑا ہو لیکن بد قسمتی سے ہم نے وارث ہونے کا حق ہی ادا نہیں کیا ایک نظریاتی ریاست کے لیے سیکولر نظام تعلیم جس کا وحی آسمانی کتابوں سے کوئی تعلق نہ ہو اس ملک کی افادیت تو دور کی بات وہ تو اس ریاست کی ہلاکت کا سبب ہی بنے گی نظریاتی نظام تعلیم کا جو خاکہ پیش کیا گیا ہے اگر انہی اصولو ں پر ہم پرائمری تا پوسٹ گریجوئٹ تک اپنا نصاب مرتب کرے تو میری عقل کے مطابق ہم دنیا کے بہترین ڈاکٹر ،انجنیر،بیوروکریٹ،سیاستدان،پیدا کر سکتے ہیں اور پاکستان کا جو خواب قائداعظم نے دیکھا ایسا اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا سکتے ہیں۔