ایک بڑا جن بولا میں وہ تخت حضور میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بیشک اس پر قوت والا امانت دار ہوں۔ جنّ کا بیان سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس سے بھی جلد وہ تخت میرے دربار میں آجائے۔ یہ سن کر آپ کے وزیر حضرت ”آصف بن برخیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسم اعظم جانتے تھے اور ایک باکرامت ولی تھے۔ انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کیا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:۔اور بولا وہ جس کے پاس کتا ب کا علم تھا کہ میں تخت بلقیس آپ کے پاس لے آؤں گا آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے۔(پ19،النمل:40)اس آیت میں آصف بن برخیا کی جو بنی اسرائیل کے نبی نہیں بلکہ ولی ہیں کئی کرامتیں بیان ہو ئیں۔ بغیر کسی کے پوچھے یمن پہنچ جانا۔ وہاں سے اتنا وزنی تخت لے آنا اور یہ دور دراز سفر شام سے یمن تک جانا آناایک آن میں طے کرلینا۔ وغیرہ حضرت آصف بن برخیا نے روحانی قوت سے بلقیس کے تخت کو ملک سبا سے بیت المقدس تک حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں کھینچ لیا اور وہ تخت زمین کے نیچے نیچے چل کر لمحہ بھر میں ایک دم حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہو گیا۔ تخت کو دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کہا:۔یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا۔(پ 9النمل 40)
حضرت آصف بن برخیاہ اللہ کے برگزیدہ بندے اور االلہ کے رسول کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے مقرب صحابی تھے۔سردار الانبیاء حضرت محمد ۖ کی امت کے ولیوں کی کیا شان اور کرامات ہیں،ایک بزرگ جن کو ہم ” بابا پیر ہیبت خان قندہاری ” کہتے ہیں ۔دریائے جہلم کے مشرقی کنارے اور نہر اپر جہلم کی جنوبی طرف ایک مشہور گاؤں پوران ہے۔ موضع پوران ضلع گجرات کا تاریخ اور معروف گاؤں ہے جس کو اب تحصیل سرائے عالمگیر کی یونین کونسل کا درجہ بھی حاصل ہے۔
دریائے جہلم کے کنارے کئی قدیم بستیوں میں اللہ کے نیک بندوں ( ولی اللہ ) کے مزارات ہیں ۔ان میں ایک بزرگ باباپیر ہیبت خان قندہاری ہے جن کے متعلق تاریخی معلومات حاصل کرنے کے لئے ” عقیدت مند ”نوجوان سماجی رفاحی شخصیت راجہ سیف الرحمٰن جلالیہ آف پوران سے خصوصی ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ ۔ مشہور ہے کہ پوران راجہ پورس کا پایہ تخت تھا ۔ راجہ پورس کے نام پر اس کا نام پوران رکھا گیا۔ یہ روایت بھی ہے کہ راجہ پورس کی بیوی ملکہ پورن کے نام سے یہ قصبہ آباد ہوا۔کچھ اہل عقیدت پوران کو پیران سے منسوب کرتے ہیں ان کے مطابق پوران کا اصل نام پیران ( اولیاء اللہ ) کی سرزمین ہے ۔ایک یہ بھی روایت ہے کہ موجودہ پوران قبل از مسیح یہاں سے چار میل دور جانب مشرق پبی رکھ سرکار میں آباد تھا جس کو ” بوڈی پوران ” کہتے ہیں۔ وہاں پر قدیم کھنڈرات کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔
گاؤں سے مغرب کی جانب دریائے جہلم کنارے تباہ شدہ بستیوں کے کھنڈرات آج بھی موجود ہے جس کو مقامی زبان میں ” ڈیرہ ” کہتے ہیں پیر ہینت خان قندہاری کا مزار پوران میں ہے ۔ تاریخی معلومات کے مطابق پیر ہیبت خان قندہاری بزرگ ولی اللہ ہوئے ہے ۔ شاہ بہلول لودھی کے دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ 1454 ء میں راجہ شاداب چند نو مسلم شاداب خان المعروف باوا شادی شہید مورث خاندان راجگان راجپوت چب والئے بھمبھر جو مقرب خدا اولیاء ہو گزرے ہیں کسی وجہ سے بھمبھر کے قریب ان میں جنگ ہوئی اور دونوں صاحبان تلواروں کے وار سے شہید ہوئے ۔ شاحان دہلی اورنگ زیب عالمگیر کے زمانہ میں موجودہ مزار شریف تعمیر ہوا ہے۔ ہندوؤں مسلم آپ کی کرامات کے شہدائی ہے۔ ایک کتاب” پتھر بولتے ہیں ” میں لکھا ہے کہ ! پیر ہیبت خان قندہاری آج سے چھ سو سال قبل اپنے ملک سے بحالت فقیری موضع پوران میں وارد ہوئے آپ کی جائے قیام پر ہی سپردِ خاک کیا گیا۔ کہتے ہیں جب 1535 ء میں شیر شاہ سوری ہمایوں بادشاہ کے تعاقب میں پوران کے رقبہ میں داخل ہوا تو فوج سمیت بادشاہ کی بنائی میں فتور آگیا۔اور وہ آگئے بڑھنے سے مجبور ہوگیا اس پر مقامی لوگوں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ وہ سب اس بزرگ بابا پیر ہیبت خان قندہاری کی قبر مبارک پر سلام پیش کریں اور قبر کی خدمت کرنے کا وعدہ کریں چنانچہ بادشاہ نے بزرگ کی قبر پر حاضری دیکر آپ کا پختہ مزار بنوانے کی پیش کش کی ۔ تو بادشاہ کو روحانی اشارہ ملا کہ وہ بابا پیر ہیبت خان قبندہاری کا مزار بنوادے۔ ان کی بنائی بحال ہو جائے گئی۔ جیسا ہی بادشاہ نے پختہ عہد کیا بنائی فوراً واپس لوٹا آئی۔ بادشاہ نے بنائی کی بحالی پر اپنا عہد پورا کرتے ہوئے بابا پیر ہیبت خان قندہاری کا پختہ مزار بنوا دیا۔مشہور ہے کہ زمانہ قدیم میں ایک چور ایک گائے اور اس کا تازہ بچھڑا چوری کر کے لیکر جا رہا تھا جب پوران کی حدود میں داخل ہوا تو پیچھے سے گائے کے مالک کو پتا چل گیا اور چور کا تعاقب شروع کر دیا اسی دوران چور گائے اور بچھڑے سمیت بابا پیر ہیبت خان قندہاری کی درگاہ کے قریب پہنچ گیا اور چور نے دیکھا کہ مالک اس کے قریب پہنچ چکا ہے۔ چور نے گائے اور بچھڑے کو وہی چھوڑ کر درگاہ پر حاضر ہو کر سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کی اور بزرگ سے وعدہ کیا کہ آئندہ چوری نہیں کرونگا۔
چور درگاہ سے سلام کے بعد نیچے آکر دیکھا تو گائے گھبن اور بچھڑا بیل بن چکا تھا۔ مالک نے جب گائے گھبن اور بیل دیکھا تو وہ واپس لوٹ رہا تھا تو چور نے اس کوآواز دی کہ گائے اور بچھڑا تمھارا ہے ۔مالک نے کہا یہ میری گائے نہیں پھر چور نے سارا واقعہ سنایا تو مالک اور چور سمیت مقامی لوگوں نے اس کو ولی اللہ کی کرامت قرار دیا۔اسی لئے اس کو ” بابا پیر ہیبت خان قندہاری المعروف گاںگھبن وچھاہالی” ایک اور روایت مشہور ہے کہ بابا پیر ہیبت خان قندہاری مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے دور میں قندہار سے تشریف لائے تھے ۔ حسن ابدال میں حضرت بابا ولی قندہاری بھی آپ کے سلسلہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔آپ کے مزار کے قریب آپ کے بیٹے پیر عنایت بیگ قندہاری کا مزار ہے۔
آزاد کشمیر ، جہلم لہڈی کے مختلف مقامات پر بابا پیر ہیبت خان قندہاری کی بیٹھکیں بنی ہوئی ہیں جہاں عقیدت مند ذکرِ و اذکار ، نذرونیاز کا اہتمام کرتے ہیں اور پھر سالانہ میلہ جوق در جوق عقیدت و احترام سے شرکت کرتے ہیں۔ ان شااللہ اس پر بھی تفصیلی قلم پوشی کرونگا ۔ دو چیزوں کی وضاحت ضروری ہے
( ایک ) اچھائی اور برائی روزل اول سے قیامت رہے گئی۔ کچھ نام نہاد جعلی پیروں فقیروں نے اصلی ولیوں کو بھی بدنام کر دیا ہے۔ تھوڑا سا غور و غوض کرنے سے جعلی اور اصلی ولی اللہ کی پہچان ہو جاتی ہے جیسے جعلی اور اصلی نوٹ کو پرکھا جا سکتا ہے اسی طرح ولی اللہ کو پرکھنے کے لئے ” کرامات کی بجائے شرعیت محمدی ” دیکھی جائے۔ اگر کسی کا قول و فعل شرعیت کے مطابق نہیں تو وہ ولی اللہ نہیں بلکہ شعبدہ باز ہے۔
(دوئم ) اگر کسی اللہ کے بندے سے جیسا کہ نبیوں سے معجزے اور صحابہ کرام اور ولیوں سے کرامات کا ظاہر ہونا ثابت ہو جائے تو اس کو حضرت سلیمان علیہ اسلام کی طرح جیسا کہ تخت کو دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کہا: قرآنِ مجید میں ہے ترجمہ ۔یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا۔(پ 9النمل 40) یعنی معجزوں اور کرامات کو اللہ کا فضل سمجھنا چاہیے