بُلند پایہ نقاد ،ماہر اقبالیات وماہرِ تعلیم ، معروف شاعر ، ممتاز محقق اور نامور ادیب ومصنف امریطس پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔علم وادب کے میدان میں انھوں نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں ،وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اکابرینِ ادب اور صاحبانِ فکرونظر ان کی علمی و ادبی خدمات کے معترف ہیں ۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا 23مارچ 1940کے تاریخی دن امر تسر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے ولد کانام خواجہ غلام نبی ہے جو قیام پاکستان کے چند دن بعد امرتسر (بھارت)سے ہجرت کر کے پاکستا ن آگئے ۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اپنی بچپن کی یادوں کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ ”اسکول جانے سے انھیں ڈر لگتا جس کی بنیادی وجہ یہ بنی کہ پہلے دن اسکول گئے تو استاد صاحب کے ہاتھوں بچوں کی پٹائی ہوتے دیکھ کر وہ بے حد خوف زدہ ہو گئے ۔ اور اسکول جانے سے انکار کر دیا ۔ اُن کی والدہ نے جوخود ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں ، انھیں گھر میں تعلیم دینا شروع کر دی ۔ پھر کچھ عرصہ بعد ایک اور پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا ۔تیسری جماعت کا امتحان قریب تھا تو اس وقت تقسیم کا وقت قریب آنے کے سبب شہر کے سیاسی موسم کا درجہ حرارت اپنے نقطہِ عروج پر پہنچ چکا تھا۔ شہر کے چاروں اطراف، جلسے ،جلوس اور ریلیاں نظر آتی تھیں ۔ شعلہ بیاں مقررین عوامی اجتماعات کو گرما رہے تھے ۔ 1945-1946ء کے عام انتخابات اُن کے حافظے میں اچھی طرح نقش ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم نے جہاں بڑے بڑے ملکوں کی معیشت کو زمیں بوس کر دیا ، وہاں عام آدمی پر بھی ان حالات کا گہرا اثر پڑا ۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا گھرانہ بھی مذکورہ حالات کے پیش نظر غربت میں گِھر چکا تھا۔ ان کے والد نے شہر میں چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر رکھا تھا ایک دن وہ معمول سے ہٹ کر جلدی میں دکان سے گھر واپس آگئے اور گھر والوں سے کہا جلدی سے ضروری اشیاء ، زیور اور کپڑے وغیرہ سمیٹ لیں کیونکہ فوری طور پر انھیں یہ گھر اور محلہ چھوڑنا ہے ۔ چونکہ اس علاقہ کی زیادہ تر آبادی سکھوں اور ہندئوں پر مشتمل تھی اس لئے یہاں حملے کا شدید خطرہ تھا ۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے والد نے اپنی بیوی اور بچوں کو تانگہ پر بٹھایا اور شریف پورہ کی ایک بستی میں پہنچ گئے ۔
یہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔دور داز کے علاقوں سے مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں شفٹ ہو رہے تھے ۔یہ علاقہ اس وقت محفوظ تصور کیا جا رہا تھا ۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاکے بقول:” ہماری نقل مکانی کے دو تین گھنٹے بعد ہمارے محلے پر حملہ ہو گیا ۔ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہم بچ گئے” ۔ہر طرف ڈر اور خوف کا عالم تھا۔ اس پرخوف اور پر خطر فضامیں ان کا خاندان ٹرین کے ذریعے پاکستان پہنچ گیا۔کچھ دن لاہورمیں قیام کے بعدا ن کے والداپنے گھرا نے کے ساتھ جھنگ چلے گئے ۔ان کے چندعزیزواقارب پہلے سے یہاں مقیم تھے ۔خواجہ محمد زکریانے پرائمری، مڈل، میٹرک اور انٹر میڈیٹ تک کی تعلیم جھنگ ہی سے حاصل کی۔جھنگ میں جن نامورشخصیات کو انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ان میں نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ڈاکٹر عبدالسلا م کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اس انداز میں کرتے ہیں ۔”وہ نہایت لائق آدمی تھے ۔جھنگ میں قیام کے دوران میں نے انھیں دو بار ادبی محفلوں کی صدارت کرتے دیکھا۔ڈاکٹر عبدالسلام کا ادبی ذوق بہت اچھا تھا۔ انگریزی ادب سے بھی انھیں گہرا شغف تھااور ایک زمانے تک وہ انگریزی میں ایم اے کرنا چاہتے تھے ،اردو ادب میں بھی توجہ رہی ۔اسکول کے زمانے میں وہ مجید امجد کی ادارت میں نکلنے والے (جھنگ کے) مقامی اخبار”عرو ج “میں بھی کبھی کھبار لکھتے رہے۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرزکرنے کے بعد جامعہ پنجاب سے 1962میں اردو میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور 1962ہی میں ان کی تقرری گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور اردولیکچرار ہو گئی۔ جولائی 1963میں ان کا تقرر یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور میں بطور اردو لیکچرار برائے غیر ملکی طلبہ ہوا ۔1970میں اسسٹنٹ پروفیسر پروموٹ ہو ئے ۔1973میں انھوں نے ہندی میںڈپلومہ کیا ۔1974میں ان کے مقالہ “اکبرالہ آبادی،تنقیدی و تحقیقی مطالعہ”پہ انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطاکی گئی۔ 1979میں انھوں نے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں اردو زبان کے پروفیسر کے طور پر تدریسی خدمات سرانجام دیں،اس دورانیے میں وہ صدرشعبہ اردو اور ڈین فکلیٹی آف لینگویجزکے عہدوں پر بھی فائز رہے ۔1980میں واپس اورینٹل کالج لاہور آگئے ۔1984میںصدر شعبہ اردو مقرر ہو ئے جب کہ 1993سے 1995تک ڈین کلیہ علوم اسلامیہ والسنہ شرقیہ اورپرنسپل اورینٹل کالج کے فرائض سرانجام دیئے۔
پھر 1995ء کے وسط میں و ہ یہاں سے اردو زبان کی تدریس کے لئے انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجزکوما گانے جاپان چلے گئے ۔ یکم اپریل 1999کو جاپان سے واپس وطن عزیر پاکستان آگئے اور دوبارہ اورینٹل کا لج لاہور کے پرنسپل مقررََََََََََََََََہوئے۔37برس تک انتہائی لگن اور محنت کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد 22مارچ 2000کو وہ ریٹائر ڈہو گئے ۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے ماسٹر کی سطح پر ایک سو سے زائد طلبہ کے تحقیقی مقالات لکھنے میں رہنمائی کی، اس کے علاوہ 37 ریسرچ اسکالرز نے ان کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کئے ۔جن میں وطن عزیر کے معروف ادیب ڈاکٹر انوار احمد ،ڈاکٹر اے بی اشرف اور ڈاکٹر طاہر تونسوی شامل ہیں۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا 40کتابوں کے مصنف ہیں ان کی معروف تصانیف و تالیفات میں “اردو کی قدیم اصناف شعر (1964)،نئے پرانے خیالات (تنقیدی مضامیں 1967)،پریم چند کے بہترین افسانے(تنقید /انتخاب1975)،اقبال کا ادبی مقام (تنقید 1975)،اکبر الہ آبادی: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (مجلس ترقی ادب لاہور 1980)(اس کتاب پر انھیں 1980میں دائود ادبی انعام برائے تحقیق و تنقید دیا گیا )،کلیات مجید امجد مع غیر مطبوعہ کلام (سن وار ترتیب )،کلیات حفیظ جالندھری (مرتبہ )،کلیات عدم (مرتبہ )،انتخابِ زریں :اردو نظم،انتخاب زریں:اردو غزل ،اقبالیات ۔چند نئی جہات ،شرح بانگِ درا،تفہیم بالِ جبریں،urdu for Beginners(برائے غیر ملکی طلبہ )اورشعری مجموعہ “آشوب “اور”افتاد “شامل ہیں۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کو ادبی و تعلیمی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کے اعزاز سے بھی نواز چکی ہے۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا سچی اور کھری بات کرنے کے عادی ہیں۔
بیرون ممالک کے اپنے تجربات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ “جاپانی معاشرے میں اکثر چیزیں بہت اچھی ہیں ۔بہت متحمل معاشرہ ہے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسی با ت یا عمل انھوں نے کر دیا جو کسی ساتھی کے لئے تکلیف کا باعث ہو سکتا ہے تو ان کی زبان پر فوراََمعذرت کا لفظ آجاتا ہے ۔سٹر ک پر چلتے ہو ئے اگر کسی کی قمیص آپ کو چھو جائے تو وہ آپ سے معافی مانگیں گے ۔جاپان میں چار برسوں میں میں نے کسی کو چیختے نہیں دیکھا ۔جن افراد سے میرا واسطہ رہا انھوں نے مجھ سے جھوٹ نہیں بولا۔ محنتی لو گ ہیں ،جس طالب علم کو اسائنمنٹ دی ،اس نے متعین کردہ وقت میں اسے پورا کیا ۔ایک بر س بیجنگ یونیورسٹی چین میں بھی پڑھایا۔چین نے بہت معاشی ترقی کی ہے لیکن ان کے بعض رویے روبہ اصلاح ہیں”۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کو قدرت نے بلاکا حافظہ عطاکر رکھا ہے۔شہرہ آفاق شاعر مجید امجد جن سے انھیں بے پنا ہ لگائوہے ،ان کابہت سا کلام انھیں حفظ ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ شاید قدرت مجید امجد ہی سے ملانے انھیں جھنگ لے گئی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاکے بقول : “مجید امجد کا تعلق جھنگ سے تھا لیکن وہ ملازمت کے سلسلہ میںساہیوال میں مقیم تھے ۔شاعر ادیب عموماََ کسی کی تعریف نہیں کرتے لیکن ان کی ہر کوئی تعریف کرتا،جس سے مجھے تعجب ہو تا تھا ۔میںجھنگ میں مشاعروں میں شریک ہوتا تھا ۔ایک دن پتاچلا کہ مجید امجدآئے ہیں اور اپنے دوست شیر محمد شعری کے ہاں ہونے والی شعری نشست میں بھی شرکت کریں گے ۔مجھے اُن سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا ،اس لئے میںوہاں پہنچ گیا ۔اس دن میری ان سے پہلی ملاقات (1957) میں ہوئی ۔اس کے بعد وہ جب بھی جھنگ آتے ان سے ملتا رہتا ۔1958میں”شب رفتہ “چھپی جس کے بعد جھنگ آئے تو کتاب پر ان سے آٹوگراف مانگاتو انھوں نے غالب کا فارسی شعر لکھ کر نیچے “امجد “لکھا ۔کہنے لگے “غالب کافارسی کلام پڑھا ہے “؟میں نے نفی میں جواب دیا تو کہا کہ “وہ فارسی کا بہت اچھا شاعر ہے ،اسے پڑھنا چاہیے “۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کلیات مجید امجدتدوین کی اور ان کی شاعری کے باب میں رقمطراز ہیں “مجید امجد اس لئے مجھے پسند ہے کہ ان کے ہاں قطعاََ تکرار نہیں ۔وہ اپنے آپ کودہراتے نہیں ۔اتنا بڑا کلیات ہے مگراس میں قریب قریب ہر نظم مختلف موضوع پر ہے ۔قریب قریب ہر نظم مختلف اسلوب میں ہے ۔وہ واحد شاعر ہیں جنھیں عربی فارسی،ہندی اورخالص ارد و اسالیب پر عبور ہے ۔وہ ہر اسلوب میں بڑے کامیاب ہیں۔اردو میں کوئی ایسا شاعر نظر نہیں آئے گا جو باقاعدہ کائنات کے جدید ترین نظریات سے واقف ہو ،اور اسے اپنے لہومیں ملا کر شاعری بنا دے۔ایک طرف تو اس کے ہاں مقامی رنگ اس قدر ہے،دوسری طرف وہ کائناتی موضوعات کو شاعری میں لاتے ہیں ۔ہمارے ہاں شاعرِ حیات اسے سمجھا جاتا ہے جو زندگی کی کشمکش میں شریک ہو لیکن میں شاعرِ حیات اسے سمجھتا ہوں جس کی شاعری میںہر قسم کی حیات اپنے تنوع کے ساتھ موجود ہو ۔میں انھیںبار بار پڑھتا ہوں ۔اگر آپ ایک ادب پارے کو بار بار پڑھیں تو پھر بھی آپ سیر نہ ہوں تو وہ عظیم ادب ہے “۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاادب میں موازنوں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اِس انداز میں کرتے ہیں “انھوں نے کبھی مجید امجد کو اقبال سے بڑا شاعر قرار نہیں دیا،اور وہ ادب میں ایسے موازنوں کے قائل بھی نہیں”۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاکی زندگی کا پہلااور آخری عشق صرف” کتاب” ہی ہے ۔وہ کتاب کے بارے میں اپنا مدعا یوں بیان کرتے ہیں “کتاب ” میری زندگی ہے ۔میں کتاب کے بغیر زندہ رہنے کا تصورنہیں کر سکتا ۔میری زندگی میںاہم ترین چیز کوئی ہے تو وہ کتا ب ہے “۔وہ اپنے دور کے نامور اور شہرہ آفاق شعراء اور اکابرین ادب کے بارے میں بتاتے ہیں کہ” ،ابن ِانشاء ،احسان دانش ، احمد ندیم قاسمی وغیرہ سے ان کی بے پناہ ملاقاتیں رہیں۔جوش ملیح آبادی سے بھی ان کی چار ملاقاتیں ہوئیں۔حفیظ جالندھری کے ایک نثری مجموعے جس کانام “نثرانے” ہے ،اس کا انتساب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے نام کیا۔اسی طرح ممتاز شاعر احسان دانش نے اپنی آپ بیتی کے دوسرے حصہ “جہان دِگر”میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا ذکر خوبصور ت الفاظ میں کیا ہے ۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاعلم و ادب کا سرمایہ اور اسلاف کی نشانی ہیں ۔وہ بذات ِ خود ایک انجمن ،ایک عظیم داستان اور ایک دبستان ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ان کا سایہ ہم پہ تا دیر قائم رکھے ، انھیں صحت و سلامتی عطاء کرے اور وہ اسی طرح علم و ادب کے چراغ روشن کرتے رہیں۔ آمین ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاکے اس خوبصور ت شعر کے ساتھ اختتام :
سوچا تھا جوانی میں دنیا کو بدل دیں گے دنیا نے مگر ہم کو چُپ چاپ بدل ڈالا