تحریر : عبدالجبار خان دریشک کسی بند کمرے میں ہمیشہ اندھیر ہی رہتا ہے اور تب تک رہتا جب تک اس کے دووازے کو نہ کھولا جائے جب دروازہ کھلتا ہے تو گھپ اندھیرے کمرے میں اچانک روشنی پھیلتی ہے اور اس کمرے میں موجود ہر ایک چیز واضع اور صاف دیکھائی دینے لگتی ہے جس کاپہلے احساس تک نہ تھاکہ یہاں موجود تھیں بند دروازے ہمیشہ رکاوٹ ہوتے کسی کی آمد کے اور جن دروازوں پر بڑے تالے لگے ہوں اور وہ بھی زنگ آلودہ تو دروازے کی دوسری طرف یقینی طور پر ویرانی ہوگی جب اس دروازے کے تالے کو چابی سے کھولا جائے گا تو دروازہ کھلتے ہی امید یقین میں بدل جائے گی اور خوشحالی اور معاش کا دور شروع ہو جائےگا جہاں فکر ہوگی وہاں سوچ پروان چڑھے گی سوچ و فکر اور علم و ادب اس ویران کمرے کے تالے کی چابی ہے جو روشنی بن کر ترقی کی صورت میں اندھیرے میں اجالا کر دیتی ہے پھر ہر طرف رونق بھی ہوتی اداس چہرے مسکراہٹ لوٹ آتی ہے اور ہریالی اور خوشحالی کادور شروع ہوتا ہے کسی تحریک یا آزادی کاحصول اور اس کی کامیابی سوچ اور فکر دلاتی ہے پاکستان کی آزادی کی تحریک کے پیچے بھی فکری سوچ تھی اور اس فکر کے شجر کے ثمر سے آج پاکستانی قوم مستفید ہورہی ہے تحریک پاکستان میں سب نے اپنی سوچ اور فکر سے اس میں حصہ ڈالا پر جتنا اس تحریک کو کامیاب علم و اداب نے بنایا شاید اور طرح سے اس کو کامیاب نہ بنایا جاسکتا تھا ڈاکٹر علامہ اقبال کی فکر جس کاانہوں نے ادبی انداز میں اظہار کیا اور مسلمانوں کو یکجا کردیا جہان علم ادب ترقی کرے گا تو معاشرے کی سوچ مزید بلند ہوگی جنہوں نے اپنی ساری زندگی علم وادب اور فکری سوچ میں گزار دی جیسے حضرت خواجہ غلام فرید بابا بلے شاہ وارث شاہ اور ان کی طرح دیگر صوفیاء کرام نے علم ادب سے معاشرے میں بیداری پیدا کی اور جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ کیا۔
اب اگر ہم اپنے ملکی حالت کو دیکھیں غربت اور پسماندگی کو دیکھیں تو ان سے معاشرے کو نجات دلانے کے لئے علم ادب سوچ و فکر کی ضرورت ہے پسماندگی تو پورے ملک میں ہے پر میرا شہر راجن پور پورے پاکستان میں پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقہ ہے یہاں پر اگر زمینیں زرخیز ہیں تو ذہینی زرخیزی بھی کم نہیں یہاں کے لوگوں کے پاس تعلیم اور روز گار کی کمی ہے پر سوچ اور فکر کی کمی نہیں راجن پور جو حضرت خواجہ غلام فرید کی دھرتی ہے جن کے روحانی اثرات سے یہاں بسنے والوں کی ذہنی سوچ کی بلندی کہیں زیادہ ہے اس بلند سوچ کی وجہ سے یہاں پر علم ادب پر بڑا کام ہو رہا ہے لوگ میں فکر پائی جاتی جس کی سب سے بڑی مثال محترم جناب ڈاکٹر شکیل پتافی صاحب کی صورت میں ہے جو پاکستان میں علم ادب کا بڑا نام ہے جو یہاں کے اندھیروں کے خاتمے کی وہ روشنی ہے جس سے اور چرغ بھی روشن ہورہے ہیں اسی سوچ علم ادب کی فکر اب ان کے شاگرد آگے لے کر چل رہے ہیں ان کے شاگردے خاص اور پاکستان کے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر محترم تدیم راجہ نے راجن پور میں ایک خوبصورت ادبی محفل کا انقعاد کیا جو کہ خاص بہاول پورے سے آئے پاکستان کے ناموار شاعر محترم ڈاکٹر کبیر اطہر کے لئے سجائی گئی تھی اور ان کے ساتھ ناموار شعراء کرام افضل خان نوجوان شاعر عمیر نجمی شامل تھے اس محفل کے مہمان خصوصی چیرمین سٹی راجن پور کنور کمال اختر تھے جبکہ مقامی شعراء کرام کالم نگاروں کے علاوہ پروفیسرز ڈاکٹرز اور معززین شہر ادبی و علمی شخصیت موجود تھیں۔
Literary Forum
محفل کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک اور ہدیہ نعت سے کیا گیا سٹیج کے فرائض مزبان محفل محترم ندیم راجہ نے انجام دیے انہوں نے اپنے چند خوبصورت اشعار اور منفرد انداز سے تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا سب سے پہلے مقامی شعراء کرام کو دعوت دی جس میں سب سے پہلے سٹیج پر آنے کا اعزاز سرائیکی و اردو کے ناموار شاعر جن کا تعلق کوٹلہ نصیر ہے جام عارف حسین عارف کو حاصل ہو اس کے بعد دیگر مقامی معزز شعراء کرام کو بلایا گیا جن میں سے آثم بلوچ جاوید آصف میثم حیدر یقعوب اطہر عظیم کامل جام پور سے احمر فاروقی ,آل عمر بھی جام پور سے جنہوں نے اپنے خوبصورت اشعار سے محفل میں رنگ بکھیرے ان کے بعد محترم ڈاکٹر شکیل پتافی صاحب کو دعوت دی گئی ان کے خوبصورت لب لہجے نے حاضرین محفل کو سحر میں جکڑ رکھا جس پر ان کو خوب داد دی گئی ان کے بعد ناموار نوجوان شاعر عمیر نجمی جو رحیم یار خان سے تشریف لائے ان کو بلایا گیا ان کے لفاظ کی ادائیگی کا بہت خوبصورت انداز تھا اور شاعری بہت کمال اور اعلی تھی ان کے بعد محترم افضل خان جو رحیم یار خان سے تشریف لائے تھے۔
انہوں نے بہترین انداز میں عشق ہجر اور معاشرے کے دکھوں کے متعلق پڑھا جس کو شرکاء محفل نے خوب سرہا آخری میں اس شخصیت کو دعوت دی گئی جن کے اعزاز میں اس محفل کو سجایا گیا تھا محترم جناب ڈاکٹر کبیر اطہر صاحب نے آتے ہی چند اشعار پڑھے کہ حاضرین محفل جھوم اٹھے ان کے کلام اور خوبصورت اشعار نے محفل میں محبت کے رنگ بکھیر جس پر تمام حاضرین محفل نے کھڑے ہوکر داد دی آخر میں مہمان خصوصی محترم کنور کمال آختر کو دعوت خطاب کے لئے سٹیج پر بلایا گیا محترم کنور کمال آختر صاحب ایک سیاست دان ہونے کے ساتھ بہت بڑی علمی شخصیت بھی ہیں جن کا اپنا آواز دوست ادبی و فکری فورم ہے انہوں نے کہا میں یہاں آکر حیران ہوا ہوں کہ یہاں دریاؤں میں پانی بھی خوبصورت پیڑ پودے خوبصورت پھول اور خوبصورت پرندوں کی چہکار بھی ہے کیوں ہم فکر معاش میں لگ گئے ہیں ہم کیوں غالب ڈاکٹر علامہ مجرد اقبال میرتقی میر کوبھول گئے ہیں ہمارے ملک پاکستان صیح معنوں میں پاکستان نہیں بن سکتا جب تک ہر ایک اپنے حصے کا دیا نہ جلائے اور آج آپ لوگوں نے اپنے حصے کا دیا جلا دیا ہے اب اس دیے سے دیے ہم سب جلانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
خوبصورت محفل کے انقعاد پر میزبانوں کو کنور کمال آختر نے مبارک باد پیش کی اور آخر میں آنے والے معززمہمان شعراء کا شکریہ ادا کیا گیا اس موقع پر ڈاکٹر کبیر اطہر نے کہا راجن پور کے لوگ ذوق رکھنے والے ہیں ان سے خوب محبت ملی ہے جب بھی دوبارہ بلائیں گے تو ضرور آئیں گے اس خوبصورت محفل کو حاضرین نے پھولوں کی طرح سجایا جس میں پروفیسر نذیر احمد سیکھانی پرنسپل کامرس کالج راجن پور ثناءاللہ خان سہرانی ضلعی آفیسر محکمہ تعلیم پروفیسر نصراللہ مستوئی کالم نگار عبدالجبار خان دریشک ڈاکٹر عبدالرزاق لاڑک ایڈوکیٹ عثمان بھٹہ جاوید آصف شہزاد حجانہ ملک محبوب نواز عبدلرزاق کیانی جاوید آصف ناصر بزدار احسن بزدار واجد بزدار یعووب شیروانی پروفیسر رانا عبدالجبار وسیم اخترمحمد فیضان اس خوبصورت محفل کے اختتام پر مہمانوں کے لئے ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا میزبانوں نے شکریہ کے ساتھ تمام احباب کو رخصت کیا اس محفل کے اہتمام کو میں سمجھتا ہوں یہ اس بند کمرے کے تالے کی چابی ہے جو یہاں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ترقی کی روشنی لائے گی انسان سے ہر کام غلطی کا اندیشہ اگر تحریر میں کوئی غلطی کوتاہی ہوئی ہو تو بندہ ناچیز معذرت کا طلبگار ہے اور امید کرتا ہوں بہتر رہنمائی فرمائی جائے گی۔
Abdul jabbar khan
کالم نگار : عبدالجبار خان دریشک ایم ایس سی ماس کمیونیکیش کوٹلہ نصیر راجن پور