تحریر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی حیدرآباد کو شہر اردو بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہ شہر ساری دنیا میں اردو کے اہم مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہاں اردو کے بین الاقوامی سطح کے مقبول اخبار’رسائل’ اردو ٹیلی ویژن چینل’اردو کی مرکزی جامعہ اور اردو کے کئی ادارے ‘ادبی انجمنیں وغیرہ ہیں جو فروغ اردو کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اردو کی ادبی انجمنیں اردو مشاعروں اور ادبی اجلاسوں کے انعقاد کے علاوہ اردو کے لئے اپنی بے لوث خدمات انجام دینے والے ادیبوں اور شعراء کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں مختلف ادبی ایوارڈز دیتے ہوئے ان کے کام کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ حیدرآباد کی ایک ایسی ہی ادبی تنظیم ” بزم علم و ادب” ہے۔ جو گزشتہ دس سال سے شہر حیدرآباد میں فروغ اردو کے کام کر رہی ہے۔ اور اس انجمن کے تحت ہر سال مشاعروں اور ادبی اجلاسوں کے کامیاب انعقاد کے علاوہ نامور ادبی شخصیات کو ایوارڈ بھی دئے جاتے ہیں۔ ایوارڈ کے لئے شخصیات کا انتخاب ایک کمیٹی کرتی ہے اور اس میں اردو کے حقیقی خدمت گذاروں کو بنا کسی سفارش اور جانب داری کے منتخب کیا جاتا ہے۔ بزم علم وادب نے سابق میں آٹھ سال تک چالیس شعرا اور ادیبوں کو ایوارڈ دئے۔ 2008ء میں بزم علم و ادب کے تحت پہلے ادبی ایوارڈ ممتاز شعرا حلیم بابر’سلیم عابدی ‘ڈاکٹر نور آفاقی اور ظہیر ناصری کو دئیے گئے۔
دوسرے سال کے ایوارڈ یافتگان میں نامور شعرا گوہر کریم نگری اور جمیل نظام آبادی شامل رہے۔ تیسرے سال نادر اسلوبی اور اقبال شیدائی کو ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا۔ چوتھے بزم علم و ادب ایوارڈ یافتگان میں پروفیسر فہیم احمد صدیقی’محب کوثر’تنویر واحدی ‘تاج مضطر اور مسکین احمد شامل رہے۔ پانچویں سال راشد آذر’صلاح الدین نیر’ناصر کرنولی اور اثر غوری کو ایوارڈ دئے گئے ۔ چھٹے سال کے ایوارڈ یافتگان میں مضطر مجاز’سید نصیر الدین احمد’رئووف خلش’ ڈاکٹر عقیل ہاشمی اور ڈاکٹر راہی فدائی شامل رہے۔ ساتویں بزم علم وادب ایوارڈ میں ایوارڈ یافتگان کی تعداد میں اضافہ ہوا اور کل آٹھ ادبی شخصیات کو ایوارڈ دئے گئے۔جن میں ڈاکٹر محمد ناظم علی’پروفیسر محمد علی اثر’ڈاکٹرمحسن جلگانوی’مسعود فاروقی’محمد رحیم الدین نیازی’ایم اے حکیم ‘حفیظ انجم اور حمید الظفر شامل رہے۔
گزشتہ سال بزم علم و ادب کے تحت جن شخصیات کو ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ان میں پروفیسر مجید بیدار’ صوفی سلطان شطاری’ڈاکٹر شیخ سیادت علی’ڈاکٹر م ق سلیم’ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز’ڈاکٹر ضامن علی حسرت’یوسف روش’عظیم الرحمٰن’انیس الرحمٰن اور وحید گلشن شامل تھے۔ اس سال بزم علم و ادب کے نویں ایوراڈ کے لئے ایوارڈ کمیٹی نے با اتفاق آرا شہر حیدرآباد سے جناب ایس کے افضل الدین ‘ڈاکٹر فاروق شکیل’شوکت علی درد’ حبیب عبدالرحمٰن حامد’ سید مسعود جاوید قادری’ڈاکٹر فریدالدین صادق’جگجیون لعل آستھانہ سحر ‘اور اضلاع سے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی’ اجمل محسن ‘افسر عثمانی اور حافظ ابوعاکف انور کے ناموں کا انتخاب کیا ۔ بزم کے موجودہ صدر اردو ادب کی فعال شخصیت ڈاکٹر نادرالمسدوسی ہیں۔ جب کہ ان کے ساتھی اراکین میں ڈاکٹر سلیم عابدی نائب صدر’حلیم بابر جنرل سکریٹری یوسف علی خازن’ ایم اے حمیدآرگنائزنگ سکریٹری اور سہیل عظیم شعبہ نشرو اشاعت ہیں۔
Urdu Award Ceremony
ان اراکین نے اس سال کی ایوارڈ تقریب کا اہتمام یکم اکتوبر کو اردو گھر مغل پورہ میں کیا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی جناب محمود علی صاحب ڈپٹی چیف منسٹر ریاست تلنگانہ تھے۔ تقریب میں شہر حیدرآباد کی نامور شخصیات موجود تھیں جن میں جناب رحیم الدین انصاری صاحب سابق صدرنشین اردو اکیڈیمی اے پی’جناب عثمان شہید ایڈو کیٹ’جناب صوفی سلطان شطاری صاحب’ڈاکٹر عقیل ہاشمی صاحب’ پروفیسر مجید بیدار صاحب’ جناب م ق سلیم صاحب’ ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد ڈاکٹر محسن جلگانوی’ ڈاکٹر محمد ناظم علی’ ڈاکٹر محمد ابرارلباقی ‘ جناب اسلم فرشوری ‘شفیع الدین نیر’جناب طاہر رومانی’جناب مسعود فضلی اور محبان اردو کثیر تعداد موجود تھی۔ صبح دس بجے سے ہی اردو ہال میں مہمانوں اور محبان اردو کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ڈپٹی چیف منسٹر کی آمد کی اطلاع کے ساتھ ہی محکمہ پولیس اور دیگر محکمہ جات کے لوگ اردو گھر پہونچنا شروع ہوگئے اور علاقے میں لوگوں کو استعجاب رہا کہ اردو گھر میں کونسی تقریب منعقد ہورہی ہے۔ بزم علم وادب کے نویں ایوارڈ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا۔ نامور نعت خواں ڈاکٹر طیب پاشا قادری نے ہدیہ نعت پیش کیا۔صدر بزم اردو اور تقریب کے روح رواں ڈاکٹر نادرالمسدوسی نے ڈپٹی چیف منسٹر صاحب کی کچھ ہی دیر میں آمد کی اطلاع دیتے ہوئے حاضرین مجلس کو ایوارڈ یافتگان کا تعارف پیش کرنا شروع کیا۔
انہوں نے بزم علم وادب کی کارگذاری بیان کی اور کہا کہ بزم کے اراکین اور محبان اردو کے آپسی اتحاد اور تعاون سے ہر سال یہ ایوارڈ کامیابی سے پیش کئے جارہے ہیں ۔ اس سال ” علمبردار اردو” نام سے ایوارڈ پیش کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اس سال شہر حیدرآباد سے سات اور اضلاع سے چار اردو کے حقیقی خدمت گذاروں کا ایوارڈ کے لئے انتخاب کیا گیا۔انہوں نے اس سال کے پہلے ایوارڈ پانے والے مجاہد اردو ایس کے افضل الدین کے تعارف میں کہا کہ ان کا تعلق سیاسی جماعت سے ہے لیکن انہیں اردو کی بقاء اور فروغ کے لئے کام کے طور منتخب کیا گیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ افضل الدین نے چارمینار کے دامن میں اردو کی بقاء کے لئے کیمپ ڈالا تھا۔ اردو اکیڈیمی اوردیگر مقامات سے وہ اردو کے کاز کے لئے کام کرتے رہے۔ فاروق شکیل شاعر ادیب نقاد اور فن عروض کے ماہر ہیں اور نہ صرف حیدرآبادبلکہ سارے ہندوستان میں ان کے شاگرد ہیں۔ یہ استاد شاعر حضرت نظیر علی عدیل کے فرزند اور ان کے جانشین ہیں۔ اور ان دنوں اردو کے نمائیندہ شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
شوکت علی درد صاحب اردو کے صاحب طرز شاعر اور ادیب ہیں۔ آپ کے مضامین اردو اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔بہ حیثیت مدرس طلبا کو اردو پڑھاتے رہے اور انگریزی ادب کو بھی اردو میں پیش کرتے رہے۔حبیب عبدالرحمٰن حامد اسلامی اسکالر کے طور پر ساری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ ان کے تین سو سے ذائد لیکچر یوٹیوب پر بھی ہیں۔ تاریخ اسلام کے لیکچر دیتے ہیں۔ ۔ آپ کا غیر معمولی حافظہ ہے ۔سینکڑوں صحابہ کے نام یاد ہیں۔ سید مسعود جاوید قادری ڈرامہ نگار ہیں۔ ایکٹر بھی ہیں ۔ تصوف نامی ماہانہ ملٹی کلر پرچہ نکالتے ہیں۔جس میں مذہبی مضامین شائع ہوتے ہیں۔وہ اس پرچے کومفت تقسیم کرتے ہیں۔ڈاکٹر فریدالدین صادق اردو کے نامور شاعر ادیب ڈاکٹر ہیں۔ حصول علم کا شوق ہے۔ تیس چالیس ڈگریاں رکھتے ہیں۔ اور شاعری میں بھی کئی ریکارڈ قائم کئے۔ ادبی تنظیم چلاتے ہیں اور اردو کے ادبی اجلاس اور مشاعرے منعقد کرتے ہیں۔جگجیون لعل آستھانہ سحرکائستھ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔قومی یکجہتی کے علمبردار ہے۔ نامور شاعر والد اور دادا بھی مشہور شاعررہے۔اسٹیٹ بنک آف حیدرآباد کے مینیجر رہے۔ ان کی شاعری میں بہترین حمد و نعت ہیں۔ علی احمد جلیلی کے شاگرد ہیں۔تین شعری مجموعے شائع ہوئے جن پر اردو اکیڈیمی کے ایوارڈ بھی ملے۔شہر کے علاوہ اضلاع سے جن ایوارڈ یافتگان کے انتخاب کیا گیا ان میں ضلع نظام آباد کے نوجوان ادیب’صحافی’ مترجم ‘محقق ‘نقاد اور استاد اردو ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ہیں۔ دینی مدرسے سے حفظ قران کے بعد یونیورسٹی آف حیدرآباد سے اردو میں پی ایچ ڈی کی اور سروس کمیشن کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد ان دنوں گری راج کالج نظام آباد میں صدر شعبہ اردو ہیں ان کی نصابی اور ادبی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ان کے ادبی ‘معلوماتی اور سائنسی مضامین مقبول ہیں۔
Hafiz Dr Muhammad Aslam Award
اردو کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جوڑنے میں ان کی خدمات نمایاں ہیں۔سوشیل میڈیا پر اردو رسم الخط کی بقا اور فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں۔اور اردو آن لائن لیکچرز کو شروع کرنے میں انہوں نے پہل کی ہے۔ اجمل محسن ورنگل سے تعلق رکھتے ہیں بہ حیثیت شاعراور افسانہ نگار’مشہور ہیں۔ ورنگل کی ادبی مجلسوں کے روح رواں ہیں۔افسر عثمانی کریم نگرکے اچھے شاعر اور ادیب ہیں۔ کریم نگر میں فروغ اردو کی خدمات کے لئے اہم کام کئے۔ حافظ ابوعاکف کا تعلق محبوب نگر سے ہے۔ حافظ قران اور بہترین ادیب ہیں۔ منصف زیر و زبر کالم میں آپ کے مضامین شائع ہوئے۔مراسلہ نگاری میں بھی نام پیدا کیا۔سماجی مسائل پر بھی لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نادرالمسدوسی نے اعلان کیا کہ بزم علم و ادب کے تحت شعرا اور ادیبوں کے علاوہ اردو اسکولوں میں بہتر نتائج پیش کرنے والے اساتذہ اور طلبا کو بھی ایوارڈ دئے جارہے ہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی صاحب کی آمد پر بزم کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا۔ اور فوری ایوارڈ کی کاروائی شروع ہوئی۔ ماہر تعلیم ایم اے حمید نے ایوارڈ یافتگان کے تعارف کے ساتھ ناموں کا اعلان کیا ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی’صوفی سلطان شطاری’ سلیم عابدی اور ڈاکٹر نادرالمسدوسی کے ہاتھوں ایوارڈ یافتگان کی شال پوشی کی گئی اور انہیں ایک خوبصورت دیدہ زیب مومنٹو پیش کیا گیا جس میں سنہری رنگ میں کتاب نما ٹرافی پر اردو میں علمبردار اردو ایوارڈ کے ساتھ سرپرست بزم پروفیسر محمد انور الدین صاحب اور صدر بزم کے دستخط اور ایوارڈ پانے والے کی تصویر اور ان کا تعارف بھی تحریر شدہ تھا۔
تمام مہمانوں نے ایوارڈ کی شکل میں دئیے گئے مومنٹو کی بے حد تعریف کی۔ شعرا اور ادیبوں کے علاوہ بزم علم و ادب کی جانب سے اردو میڈیم میں بہتر کارکرگی کا مظاہر کرنے والے طلبا اور اساتذہ کو بھی ایوارڈ دئیے گئے۔مہمان خصوصی کے ہاتھوں ایوارڈ کی پیشکشی کے بعد گروپ فوٹو لیا گیا اور ڈپٹی چیف منسٹر نے حاضرین سے خطاب کیا اور تمام ایوارڈ یافتگان اور بزم علم و ادب کو اس تقریب کے انعقاد کے لئے مبارک باد پیش کی اور کہا کہ اردو کے فروغ کے لئے حکومت تلنگانہ سنجیدگی سے کام کررہی ہے۔ انہوں نے تالیوں کی گونج میں اعلان کیا کہ حکومت تلنگانہ کی جانب سے آئیندہ سال بڑے پیمانے پر حیدرآباد میں عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی سیشن کی نصف سے زیا دہ کاروائی اردو میں ہوتی ہے۔ تلنگانہ میں اردو میڈیم اقامتی اسکول قائم کئے گئے۔ اور ساری ریاست میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کے عملی اقدامات کئے جائیں گی۔ اردو اکیڈیمی کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا۔ اور حکومت شعرا اور ادیبوں اور تعلیمی اداروں کو اردو کے فروغ کے لئے مالی امداد دے رہی ہے۔ انہوں نے سرکاری مصروفیت کی بنا اپنے خطاب کو مختصر کیا اور محفل سے روانہ ہوئے۔ بعد میں شہ نشین پر موجود مہمانوں نے تقریب سے خطاب کیا۔ جناب عثمان شہید ایٹوکیٹ نے کہا کہ اردو کو روزگار سے جوڑنا اور اردو داں طبقے میں اردو کا حقیقی شعور بیدار کرنا ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد نے کہا کہ سرکاری سطح پر ڈگری کالجوں میں آن لائن داخلوں سے اردو میڈیم طلبا کا نقصان ہوا جس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر م ق سلیم نے بزم علم و ادب کے اراکین کو مبارک باد پیش کی اور اردو کے فروغ کے لئے مزید اقدامات کی بات کی۔ جناب رحیم الدین انصاری ‘ پروفیسر مجید بیدار اور ڈاکٹر عقیل ہاشمی صاحب نے بھی خطاب کیا اور اس بات پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا کہ بزم علم و ادب حیدرآباد کی ایک فعال اور مقبول ادبی تنظیم ہے جس کی کارکردگی لائق ستائش ہے۔ مہمانوں کی چائے بسکٹ سے ضیافت کی گئی۔ مہمانان خصوصی کو اردو کتابوں کا تحفہ دیا گیا۔ بعد ازاں جناب اسلم فرشوری ‘ ڈاکٹر محسن جلگانوی’ حلیم بابر’شفیع الدین نیر ‘جناب صادق نوید ‘جناب ڈاکٹر فرید الدین صادق ‘جگجیون لعل آستھانہ اور دیگر مدعو شعرا کی موجودگی میںمشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب کی خاص بات یہ رہی کہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے فیس بک کے ذریعے اس تقریب کی ساری کاروائی کا براہ راست ٹیلی کاسٹ دنیا بھر میں کیا گیا اور بعد میں اس کی ویڈیو ریکارڈنگ یوٹیوب ‘فیس بک اور واٹس اپ پر پیش کی گئی۔ اس لحاض سے ڈاکٹر نادر المسدوسی اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے روشن بزم علم وادب کی شمع کی روشنی سارے عالم میں پھیلتی گئی اور ایوارڈ تقریب کی روداد کو مقامی اور بیرونی اخبارات میں پیش کیا گیا جناب حلیم بابر نے مہمانوں کے شکریہ ادا کیا۔