علم و ادب کی قد آور شخصیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر تحسین فراقی

 Tahseen Firaqi

Tahseen Firaqi

تحریر : لقمان اسد

ڈاکٹر تحسین فراقی کو اردو زبان و ادب میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام حاصل ہے۔وہ ایک قدآور محقق ،جلیل القدر نقاد، معروف شاعر اور مایہ ناز ادیب ہیںبلاشبہ اس وقت ان کا شمار چوٹی کے ان منتخب پاکستانی ادباء ،شعرائ،محققین اور مصنفین میں ہوتا ہے کہ جنہیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی ،فارسی اور انگریزی زبان پر بھی مکمل عبور اور دسترس حاصل ہے۔ڈاکٹر تحسین فراقی کا تعلق دیپالپور کے نواحی قصبہ بصیرپور سے ہے ۔ان کی پیدائش 17ستمبر 1950ئ کو پتوکی میں اپنے ننھیال کے ہاں ہوئی۔ڈاکٹر تحسین فراقی کا اصل نام منظور اختر ہے۔ان کے والدشیخ محمود اختر قیام پاکستان سے 4سال قبل اپنے بھائی اور والد شیخ محمد حسین کے ہمراہ گورداس پور (انڈیا)سے ہجرت کر کے ایک قصبے جہانگیرآباد(ملتان )آ گئے لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ بصیر پور چلے گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔ڈاکٹر تحسین فراقی کے والد شیخ محمود اختر بصیر پور میں سکول ٹیچر تھے اور انہیں فارسی ادب اور علامہ اقبال کی شخصیت اورفکر سے دلی وابستگی اور والہانہ لگائو تھا گویا منظور اختر کوجن کی شہرت اب ان کے قلمی نام ” تحسین فراقی” کے نام سے ہے علم و ادب اور اقبال سے محبت ورثے میں ملی۔

تحسین فراقی نے بصیر پور کے ہی ایک سکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ایف ۔اے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے کیا۔ یہاں سے ایف۔اے کرنے کے بعد انھیں اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں داخلہ مل گیا لیکن نامساعد مالی حالات کے پیشِ نظر انھیں لاہور سے اپنے تعلیمی سلسلے کو خیر باد کہہ کر واپس بصیر پور جانا پڑا ۔بصیر پور میں رہ کر انھوں نے پرائیوٹ طور پر بی۔اے کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور بطور پرائیوٹ امیدوار بی۔اے کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا۔بی ۔اے کرنے کے بعد وہ لاہور پہنچ گئے اور یہاں بی۔ایڈ کیا ۔بی ۔ایڈ کرنے کے بعد “لیہ” کے ایم ۔سی ہائی سکول سے بطور سینئیر انگلش ٹیچر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا یہ 1970ئ کے اوائل کی بات ہے۔جامعہ پنجاب سے اردو میں ماسٹر کرنے کے بعد جب انھوںنے پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں ٹاپ کیا تو ان کی تعیناتی ایم اے او کالج لاہور میں بطور لیکچرر ہو گئی۔

آٹھ برس تک ڈاکٹر تحسین فراقی نے ایم اے او کالج لاہور میں بطور لیکچرر اپنی خدمات انتہائی احسن انداز میں سر انجام دیں۔جب وہ اسسٹنٹ پروفیسر پروموٹ ہوئے توان کی تعیناتی پیر محل کے ایک کالج میں ہوگئی۔یہاں سے پھر وہ جامہ پنجاب اورینٹل کالج کے شعبہ اردو سے منسلک ہو گئے ۔1985 میں ان کے مقالہ ” عبدالماجد دریا بادی” پہ انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطاء کی گئی ۔پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج ہی سے وہ ایران گئے اور تین سال تک تہران یونیورسٹی کے دانش کدہ زبانہاری خارجی کے شعبہ اردو میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے ۔ڈاکٹر تحسین فراقی 2010 میں ریٹائر ہوئے تو اردو دائرہ معارف اسلامیہ کیلئے پنجاب یونیورسٹی (اولڈ کیمپس) نے بطور پروفیسر ان کی خدمات حاصل کر لیں جبکہ مارچ 2013 سے تاحال ڈاکٹر تحسین فراقی مجلس ترقی ادب کے ناظم کے طور پہ اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔اردو ادب کی دنیا میں ڈاکٹر تحسین فراقی ایک زیرک نقاد ،اقبال شناس شاعراور معاصر ادبی رجحانات پر گہری نظر رکھنے والے دانشور اور ایک بلند پایہ علمی مفکر کے طور پر معروف ہیں۔اب تک ان کی چالیس سے زائد تصانیف اور تالیفات شائع ہو چکی ہیں۔

اردو کے معروف شاعر ن ۔م راشد پر لکھی گئی ان کی کتاب ” حسن کوزہ گر” کو بے پناہ پذیرائی ملی۔ اسی طرح “فکریات “کے نام سے چھپ کر منظرِ عام پر آنے والی ان کی کتاب علمی دنیا میں ایک گراں قدر اضافہ کی حیثیت سے دیکھی جاتی ہے۔ جس میں انہوں نے دورِ جدید کی مایہ نازعلمی شخصیات کے اہم ترین مضامین کو اردو کے قالب میں ڈھالا ۔” فکریات “میںڈاکٹر این میری شمل،سید حسین نصر ،ایڈورڈ سعید،اوریتگاای گاسٹ،الفریڈ گیوم،میلان کنڈیرا،گائی ایٹن،سید علی اشرف اور سید محمد حسین”کے مضامینشامل ہیں ۔ اس کتاب کی اشاعت کے دوران ڈاکٹر تحسین فراقی کی ملاقات جن ممتاز مفکرین اوراہلِ قلم سے ہوتی ہے ان میں ڈاکٹر این میری شمل (جرمنی)،سید حیسن نصر(ایران)، گائی ایٹن (انگلینڈ)کے نام قابل ذکر ہیں۔مذکورہ دو اہم کتب کے علاوہ ان کی معروف کتب میں ” اقبال چند نئے مباحث، جہاتِ اقبال، غالب فکر و فرہنگ،جستجو،معاصر اردو ادب اور افادات”قابلِ ذکر ہیں۔ان کے دو شعری مجموعے “نقشِ اول اور شاخِ “زریاب” بھی منظرِ عام پر آچکے ہیں ۔ تحقیقی مقالہ جات میں ” مولانا عبدالماجد دریا بادی ،احوال و آثاراور دیوانِ غالب ،نسخہ خواجہ،اصل حقائق” جبکہ تدوین میں” عجائباتِ فرنگ” اور تراجم میں(علامہ اقبال کی انگریزی تحریر( Bedil In the Light of Bergson) “مطالعہ بیدل ،فکر برگساں کی روشنی میں” اور “فکریات”شامل ہیں۔

تنقیداتِ تحسین فراقی (منتخب مقالہ جات )جنہیں اشتیاق احمد نے مرتب کیا اس کے تبصرہ میں صفدر رشید رقمطراز ہیں ” ڈاکٹر تحسین فراقی کی تنقیدی و تحقیقی نگار شات کا دائرہ چار دہائیوں پر محیط ہے۔ان کا پہلا تنقیدی مجموعہ “جستجو ” 1981 میں شائع ہوا تھا جس میں 70کی دہائی کے تحریر کردہ مضامین شامل تھے۔اگرچہ کسی تخلیق کار اور نقاد کو کہیں وابستہ کر دینا کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بنیادی طور پر ڈاکٹر فراقی عسکری روایت کے گلستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ستر کی دہائی میں چند فعال نوجوانوں کا ایک گروہ نظر آیا جو علمی فکری حوالے سے مضبوط بنیادیں رکھتا تھا اور معاشرے میں فعال کردار ادا کرنا چاہتا تھا ان میں سراج منیر ،احمد جاوید،سہیل عمر اور ڈاکٹر تحسین فراقی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔انہوں نے “روایت” کے نام سے ایک جریدے کا بھی آغاز کیا ،جس کے صرف چار شمارے منظرِ عام پر آسکے۔یہ شمارے آج بھی ایک دستاویز کا درجہ رکھتے ہیں انہی جرائد میں ڈاکٹر فراقی کے سید حسین نصر اور گائی ایٹن کے دو اہم مضامین کے تراجم شائع ہوئے تھے جو اب “فکریات “کا حصہ ہیں ۔
ڈاکٹر فراقی کی تنقیدی کارگزاری پر سراج منیر رائے دیتے ہوئے “جستجو”کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں ” پہلی چیز جو ان کے ہاں سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے ۔وہ، ان کا علم ہے۔اردو کے ساتھ ساتھ،فارسی شاعری کا گہرا اثر،مطالعہ اور ان سے منسلک علوم پر نظر ،عربی ادب سے دلچسپی ،فلسفے اور نفسیات کا فہم،دنیا بھر کی نظریاتی تحریکوں کا علوم و فنون پر اثر،یہ ان کے مطالعہ کے بنیادی شعبے ہیں۔

غالب و اقبال ڈاکٹر تحسین فراقی کی تنقید کا معتبر حوالہ ہے۔گووہ اردو نقاد ہیں لیکن انھوں نے غالب کی فارسی تخلیقات پر بے مثال کام کیا ہے اور اسی موضوع پر ان کے متفرق مضامین کا مجموعہ ” غالب ،فکر و فرہنگ” کے نام سے شائع ہوا جبکہ 2012 میں مکمل نظر ثانی اور اضافوں کیساتھ اسے ” غالب انسٹیٹیوٹ نئی دہلی نے بہت اہتمام کیساتھ شائع کیا”۔

ڈاکٹر تحسین فراقی نے اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز 1970 میں کیا ۔وہ شاعری کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ” کوئٹے نے کہا کہ روحِ انسان کا بہترین اظہار شاعری میں ہوتا ہے۔میں اس سے اتفاق کرتا ہوں ۔شاعری میں ایسی خوبیاں ہیں جو نثر میں نہیں ہیں ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شاعری حافظے کا حصہ بن جاتی ہے ۔نفسیاتی طور پر انسان میں شاعری کو قبول کرنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ تمام فنون میں جس کا سب سے زیادہ اظہار ہوا وہ شاعری ہے۔ اس لیے اردو تنقید میں شاعری پر زیادہ لکھا گیا ہے تو یہ زیادہ تعجب کی بات نہیں۔ڈاکٹر تحسین فراقی کی رائے میں علامہ اقبال کے بعد اہم شاعر ضرور آئے لیکن بڑا شاعر کوئی نہیں آیا۔بڑا شاعر زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے ۔بڑی شاعری میں لفظ و معنی غیر معمولی وحدت میں ڈھل جاتے ہیں۔اردو شاعر ی میں غالب اور میر اس کی بڑی مثال ہیں۔ن م راشد،مجید امجد،منیر نیازی،اخترالایمان،فیض احمد فیض اور وزیر آغا کو میں اہم شعراء میں شمار کرتا ہوں۔فیض کو باقی شعراء پر یہ برتری حاصل ہے کہ وہ نظم و غزل دونوں کے یکساں طور پر اہم شاعر ہیں۔

ڈاکٹر تحسین فراقی جدید اسلامی فکر پر لکھنے والوں میں حسین نصر ،رینے گینوں،گائی ایٹن اورہسٹن سمتھ سے متاثر ہیں ۔مولانا شبلی نعمانی ان کی پسندیدہ شخصیات میں شامل ہیں جبکہ علامہ اقبال کو وہ اپنی آئیڈیل شخصیت قرار دیتے ہیں۔اقبال کے علاوہ ڈاکٹر تحسین فراقی کو جو شعراء بہت زیادہ پسند ہیںوہ رومی،بیدل اور غالب ہیں۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹر تحسین فراقی کی ایک نظم کا،عنوان ” انتظار”ہے ، کئی برس قبل عربی میں ترجمہ ہوا جو ایک ممتاز مصری ادیب ابراہیم محمد ابراہیم المصری نے کیا اور جامعہ الازھر قاہرہ کے مجلے میں شائع ہوا ۔”شاخِ زریاب “کے سر ورق پر سیف اللہ خالد تحریر کرتے ہیں “اس صحیفے کا حرف ،حرف نیرنگ تجربوں کی چھلکتی چھاگل ہے ۔فلیپ پر پروفیسر جعفر بلوچ اور میرزا ادیب کی آراء بھی شامل ہیں۔میرزاادیب ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعری پر اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں”ہمارے پرانے تذکرہ نگاروں کی تحریروں میں مختلف شاعروں پر رائے زنی کرتے ہوئے فصاحت اور بلاغت کا استعمال عام ہے،جہاں تک میں سمجھتا ہوں تحسین فراقی کے ہاں فصاحت تو ہے ہی ،مگر جس چیز کو بلاغت کہا جاتا ہے وہ بہت نمایاں ہے۔شاعر کو لفظوں کی گہری مزاج شناسی کا جوہر حاصل ہے ۔ان کا اسلوب بلیغ ہے۔تحسین فراقی خلاق ذہن کے مالک ہیں ۔ان کی تخلیقی کارگاہ سے جو سازوسامان برآمد ہوتا ہے اس کا اپنا حُسن ،اپنی افادیت ہے”۔

ڈاکٹر تحسین فراقی کے ان خوبصورت اشعار کے ساتھ اختتام:
وہ میرے پاس نہیں میرے دل کے پاس تو ہے
چراغ ایک ہے اور د و گھروں میں جلتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ بھی بولتی ہے اس کے بھی لب ہوتے ہیں
گفتگو کرنے کے سو طرح کے ڈھب ہوتے ہیں

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر : لقمان اسد