دور جدید کے تقاضوں کے مطابق علم کی ضرورت نہایت اہم ہے۔ علم حاصل کرنا اور اس کو صحیح جگہ استعمال کرنا موجودہ معاشرے اہم ضرورت ہے۔ علم ہمیں تہذیب وتمدن سکھاتا ہے۔اگر ہم اپنے وطن کی عمر کا اندازہ لگائیں تو بہت ہی قلیل وقفہ میں ہم نے جس قدر ترقی یہ سب علم کا مرہون منت ہے۔ دنیا کے 65 سے زائد اسلامی ممالک میں وطن عزیز کو ایٹمی قوت ہونے اعزاز حاصل ہے۔ ہمارے سائنسدانوں نے مشکل اور کٹھن حالات میں انتہائی کم ترین سرمائے کے ساتھ اپنی علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آج ہمیں ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان دیا ہے۔ جس میں اپنے رب کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہوگا۔
دین اسلام ہمیں علم کے حصول کی تلقین کرتا ہے، تاکہ ہم علم کے ذریعے معاشرے میں تاریکیوں کو مٹا کر شمع ہدیت بنیں۔ ایک حدیث سے روایت ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ علم انسان کے لئے کس قدر ضروری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی زبان نبوت سے اس کے حصول کا حکم دیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے حدیث مبارکہ میں علم کے حصول پر جو حکم نامہ جاری کیاگیا آج اس کا مطلب صرف اور صرف عصری علوم کے حصول کا لیا جاتا ہے۔
اگر آج ہم خود کو صرف عصری علوم کی حد محدود کر لیں گے تو ہم اپنے دین کی بنیادوں کو بھول بیٹھیں گے۔ عصری علوم تو سیکھنے چاہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ دینی علوم جو کہ ہماری ضرورت اور مقصد حیات ہے ا س نہیں بھولنا چاہیے۔ یہیں وہ علم ہے کہ جس کے بغیر اندھیریں اور تاریکیاں ہیں۔ جس طرح پھول کے بغیر خوشبو نہیں آتی اسی طرح علم کے بغیر انسان بھی ادھورا ہے۔ انسا نیت کی شروعات علم سے ہوئی جب بچہ شعور حاصل کرتا ہے تو اسے بھی بذریعہ علم دینوی اور دنیاوی چیزوں سے روشناس کرایا جاتا ہے، تاکہ وہ ہر چیز کو بعینہ اس طرح یاد کرے اور پکارے جس طرح اس کا حق ہے۔ ماں کو ماں اورابا کو ابا کہہ۔یہیں وہ علم ہے کہ جو یہ بتاتا کہ ظلم اور ظالم کیا ہے۔ اچھا اور برا کیا ہے۔ اگر علم ہو گا تو انسان اچھائی اور برائی میں تمیز کر پائے گا اگر علم نہیں ہوگا تو وہ چھوٹے بڑے کی عزت، اچھے برے کی تمیز کچھ نہیں کرے گا اس کے لئے سب برابر ہوں گے۔ آج انسان نے جانوروں پر فوقیت صرف اس لئے حاصل کی ہے کہ اس کے پاس علم ہے اور اسی بنیاد پرانسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وہی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے اقراء کا لفظ سیکھایا گیا جس کے لغوی معنی ”پڑھنے” کے ہیں۔
Pakistan
اگرچہ گزشتہ حکومتوں نے وطن عزیز میں تعلیم پر اچھے اچھے پروجیکٹس پر کام کیا اور ان سے تعلیم کی شرح میں نمایاں بڑھوتری ہوئی تاہم اب بھی پاکستان دیگر ممالک میں تعلیم کی دوڑ میں قدر پیچھے ہے۔ پوری دنیا میں خواندگی کی شرح اگر دیکھی جائے تو یورپی ممالک میں شرح کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح پاکستان کے مقابلے میں پڑوسی ملک کی شرح خواندگی 74 فیصد جبکہ چین کی شرح خواندگی 93 فیصد ہے۔ پاکستان کی شرح خواندگی 2012 کے تحت 29فیصد تھی، جس اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ قیام پاکستان سے چلا آرہا ہے۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں شرح خواندگی کو دیکھا جائے تو اسلام آباد 94 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر اور پھردوسرے نمبر پر کراچی 77 فیصد شرح خواندگی پر اور لاہور 74 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے ۔ پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے۔پی ۔پی کے مطابق 2012کی رپورٹ میں 661 ممالک میں عوام کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ اپنی رپورٹ میں پیش کیا جس کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ ناخواندہ افراد کی عمر15 سے 24 کے درمیان ہے اور اس عمر کے 76 فیصد افراد زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہیں۔
مزید اس میں بتایا گیا ہے کہ25 سے 40 برس کے افرد میں ناخوندگی کی شرح 57 فیصد اور45 سے 54 برس کے افراد میں 46 فیصد ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی 55 سے64 برس عمر کے افراد میں پائی گئی۔ جن میں 26 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے اور خواندگی کی شرح سب سے کم 38 فیصد تھی۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق شرح خواندگی کے حوالے سے پاکستان جنوبی ایشیاء میں صرف افغانستان اور بنگلہ دیش سے اوپر رہا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2012میں 71 لاکھ طلبہ اسکول اور کالج جارہے تھے جن میں سے 29 لاکھ بچے پرائمری اسکول اور 62 لاکھ سیکنڈری اسکول اور 15 لاکھ کالج یا یونیورسٹی میں زیر ِ تعلیم تھے۔
Education
یونسکو کے مطابق اس ملک میں 3 فیصد بچے ہی ایسے ہیں جوکالج تک پہنچتے ہیں اور ان میں سے صرف 1 فیصد ہی گریجویشن کی سطح پر تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔ اسکے بر عکس پاکستان میں 75 فیصد طلبہ وطالبات نے میٹرک سے قبل ہی تعلیم کو خیر ِ باد کہا۔ صوبہ بلوچستان اور سندھ میں 3 سے5 برس عمر کے بل ترتیب 74 اور 72 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے دوسری جانب حکومت خواندگی بڑھانے کی کوششوں سے مخلص ہونے کا دعویٰ بھی کرتی رہتی ہے اور صوبہ پنجاب میں تو حکومت نے 100 فیصد مہم کا آغاز بھی کر رکھا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کی پالیسی اور کار کردگی تسلی بخش نظر نہیں آتی۔
ہم یہ بات تو بڑی آسانی سے بول دیتے ہیں کہ حکومت ان تمام مسائل کی ذمہ دار ہے مگر اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ان مسائل میں ہرشخص کا اپنا اپنا ایک اہم کردار ہے۔ اس بات پررونا تو ہے کہ اسکول نہیں ہیں کالج نہیں ہیں مگر دیکھا جائے تو جوتعلیمی ادارے موجود ہیں ان میں اکثر طالب علم بھی نہیں آتے، لائبریاں تو بہت ہیں مگر اب کمپیوٹر کے دور میں لائبریریاں کہاں یاد آتی ہیں۔ یاد رکھیں! جو علم کتابوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے وہ علم کبھی بھی ”ای پیپر ”نہیں دے سکتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دینی و دنیاوی دونوں طرح کے علوم کو پروان چڑھانا ہوگا۔ انفرادی حیثیت سے ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا، کسی پر بھی الزام لگانے سے پہلے اپنے آپ کو ٹٹولنا ہوگا، کہ ہم خود کہاں کھڑے ہیں۔ ہم نے اس تعلیم کے معاملے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ حکومت کو ابھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ملک کے تمام صوبوں کو تعلیم کے لئے یکساں دیکھنا چاہیے تاکہ وطن کا ہر بچہ علم جیسے عظیم زیور سے محروم نہ ہو۔ علم کے عام کرنے اور ہر بچے کو تعلیم یافتہ کرنے میں علماء کرام بھی بہتر اقدامات کر سکتے ہیں مساجد کو تعلیمی مراکز بنایا جائے اور قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کی تدریس کا اہتمام کیا جائے۔